تین عشق مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملے ہیں۔ ایک سید الانبیاءﷺ سے‘ دوسرا اقبال اور تیسرا پاکستان سے۔ جب میں میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تو وقفے کے تین چار ماہ کے دوران میں نے مارکس کی ’’داس کیپیٹل‘‘، کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ اینگلز کی ’’خاندان، ریاست اور نجی ملکیت کا آغاز‘‘ اور علامہ نیاز فتح پوری کی ’’من ویزداں‘‘ پڑھ ڈالیں۔ میری عمر صرف تیرہ سال تھی۔ میرے والد اس مطالعے پر بہت پریشان رہتے‘ لیکن ان کی پریشانی عروج پر جا پہنچی جب میں دہریت کی طرف مائل ہو گیا۔ کافی سمجھاتے رہے اور پھر ایک دن بلا کر کہا‘ تم ضرور واپس لوٹو گے‘ اس لیے کہ میں نے تمہیں درودِ پاک کی لوریاں دے کر پالا ہے۔ میں نے بات ہنسی میں ٹال دی کہ اس عمر میں اس طرح کے لٹریچر سے ایسا ہی رویہ جنم لیتا ہے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں‘ سانحہ مشرقی پاکستان نے میرے دل پر شدید اثر ڈالا۔ پندرہ سالہ نوجوان ہونے کے باوجود میں نے وہ رات روتے ہوئے گزاری۔ پاکستان سے ورثے میں ملا عشق مجھے اس ملک کے دشمنوں کی تلاش میں سرگرداں کر گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس ملک سے نفرت کرنے والے‘ اس کی بنیاد کو مشکوک بنانے والے اور اسے گالی دینے والے تو وہی ہیں جو اللہ کو نہیں مانتے‘ سید الانبیؐاء اور ان کے نظام سے نفرت کرتے ہیں‘ انسانوں کو رنگ‘ نسل اور زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کا درس دے کر اسے طبقاتی جدوجہد کا نام دیتے ہیں۔ ان کی گفتگو اور دلیل بھارت میں بیٹھے دانشوروں سے کتنی ملتی جلتی ہے۔ یہ کس قدر ایک جیسا سچ‘ ایک طرح کی حقیقتیں اور ایک ہی طرح پاکستان کی بنیاد اور اقبال سے نفرتیں دل میں چھپائے ہوتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرے ملک کے ان ’’عظیم‘‘ دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سانحہ مشرقی پاکستان ہماری پالیسیوں کی وجہ سے پیش آیا۔کوئی فوج کا نام لیتا اور کسی کو سیاسی لیڈر یاد آ جاتے۔ لیکن مدتوں ان ’’عظیم دانشوروں‘‘ نے بھارت کے اپنے بھائی بندوں کے ساتھ مل کر جو کھیل کھیلا تھا اور جس طرح کی مصنوعی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا تھا۔ بہت کم لوگ ایسے تھے جو اس ماحول میں اصل حقائق سے پردہ اٹھاتے تھے۔ ایسے میںایک نظریاتی اخبار میں پنجاب یونیورسٹی کے ایک استاد وارث میر کا سفرنامہ چھپنا شروع ہوا۔ وارث میر مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ سے قبل پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا ایک خیرسگالی وفد لے کر ڈھاکہ گئے اور اکتوبر 1971ء میں ان کا سفرنامہ اقساط میں شائع ہونے لگا۔ میری خوش نصیبی کہ 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی کے جس ہاسٹل میں مجھے کمرہ ملا‘ اس کے وارڈن وارث میر تھے جو اکثر شام کو ہاسٹل کے لان میں ہمارے ساتھ بے تکان گفتگو کرتے اور ہر موضوع زیر بحث آتا۔ ان کے فرزند حامد میر اس زمانے میں نیکر پہنے ہاسٹل کے لان میں کھیلا کرتے تھے۔ مجھے ایک اعتراف بھی کرنا ہے کہ ہم دوستوں نے ایک دفعہ ان کا مرغ ذبح کر کے کھا لیا تھا جسے ڈھونڈنے کی ذمہ داری حامد میر کے ذمہ لگی تھی لیکن اس وقت ان کی تحقیقاتی رپورٹنگ ناکام ہوگئی۔ وارث میر صاحب ایک سچے اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے بنگلہ دیش بننے اور اس زمانے کے اپنے سفرنامے کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے اور سفرنامے کے علاوہ بھی بھارت کی منصوبہ بندیوں اور پاکستان سے اس کی نفرت اور تعصب کو اجاگر کرتے۔ میں یہاں وارث میر کے اکتوبر 1971ء کے سفرنامے کے اقتباسات نقل کرناچاہتا ہوں تاکہ آپ اس سچے انسان کی زبان سے سنیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کیا کھیل کھیلا گیا۔ ’’ایک طالب علم بولا ہمارے لیڈروں کا المیہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے مغربی پاکستان یا پنجاب کے عام مسلمانوں کا ذکر برائی کی علامت کے طور پر کیا، حالانکہ یہ برائی ملک کے دونوں حصوں کے عوام پر مسلط ہے‘‘… ’’یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ کم ازکم تعلیمی اور رہائشی سہولتیں حاصل کرنے کی دوڑ میں مشرقی پاکستان کے طلبہ کہیں آگے تھے بلکہ مغربی پاکستان کے طلبہ بجاطورپر شکوہ کرسکتے ہیں‘‘… ’’یہ بات عام سننے میں آئی کہ عوامی لیگ کی دہشت گردی میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ پیش پیش تھے اور فوج کی کارروائی کے دوران ایسے طلبہ کی اکثریت سرحد عبور کرچکی ہے اور انہی طلبہ کو چند روز تربیت دینے کے بعد بھارتی فوج پاکستانی سرحدوں پر پھینک دیتی ہے‘‘… ’’اس ہال میں عوامی لیگ کے حامی طالب علموں نے اپنی ہی ہم جماعت غیربنگالی لڑکیوں پر وہ وہ ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ ان کا ذکرتو درکنار تصور کرتے ہی یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑ کر بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے‘‘… ’’اساتذہ ہمارے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا منصوبہ غیربنگالیوں کی نسل کو ختم کرنا ہے اور آپ غیربنگالی ہیں‘‘… ’’مشرقی پاکستان کی نئی نسل کے ذہنوں کو متاثر کرنے میں نیشنلسٹ مسلمان اساتذہ کے علاوہ ہندو اساتذہ نے جو کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں‘‘۔ ایک جگہ وارث میر نے پروفیسر گوبند چندر دیو کا ذکر کیا ہے جو اس نفرت کی فلسفیانہ اساس مہیا کرتا تھا۔ ’’ان کی سرگرمیاں بہت ہی علمی اور پراسرار تھیں۔ وہ دوسرے تیسرے مہینے کسی نہ کسی ’’تعلیمی مصروفیت‘‘ کے بہانے بھارت کا چکر ضرور لگاتے تھے‘‘۔ پاکستان کے دونوں حصوں میں غلط فہمیوں کو بڑھانے کی کوششوں کا سراغ لندن کے تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں 55ء اور 56ء کے سالوں کے مطالعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے ایک استاد نے لندن کے ایک تعلیمی ادارے کو درخواست دی کہ وہ انہیں پاکستان میں بیٹھ کر ’’ادائیگیوں کے توازن ‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی اجازت دیں۔ جواب آیا اجازت ہے لیکن مقالہ مغربی اور مشرقی پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن پر لکھنا ہوگا۔ اپریل 1971ء کے آغاز میں نیویارک کی سڑکوں پر بنگلہ دیش کی حمایت میں ایک جلوس نکالا گیا۔ اس جلوس کے شرکاء میں یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے ایک بے تکلف یہودی دوست سے پوچھا: ’’تم ہندو بنگالیوں کی طرف سے منظم کئے جانے والے جلوس میں بطور خاص کیوں شریک ہو۔ یہودی بولا: ’’ ہمیں خفیہ طورپر ہدایت دی گئی ہے کہ بنگلہ دیش تحریک کا زیادہ سے زیادہ ساتھ دو۔‘‘ ’’اندرا گاندھی کا فرمانا تھاکہ میری رائے میں مجیب الرحمن کی ہم سے زیادہ دوستی ہے‘‘۔ چیف منسٹر بہار کا بیان تھا: نتائج کچھ بھی ہوں‘ میں بنگلہ دیش کے لیے اسلحہ کی فراہمی سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘‘… ’’اس وقت تو ہم تھرا گئے جب جلسے کے بعد ہمیں وہ سلاٹر ہائوس دکھایا گیا جہاں غیربنگالیوں کو ذبح کیا جاتا اور ایک بڑی میز پر لٹاکر ان کے جسم سے خون نچوڑ کر بڑے بڑے برتنوں میں جمع کیا جاتا۔‘‘ ’’عوامی لیگ کی بغاوت کے بعد کپتیا ڈیم کے غیرملکی انجینئروں کو قیامت صغریٰ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس علاقے میں آبادتمام خاندانوں کے مردوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے گولی سے اڑادیا گیا اور عورتیں پاگلوں کی طرح گلی کوچوں میں چیختی چلاتی اور بھاگتی پھرتی تھیں۔ محمدپور اور میرپور کے کیمپوں میں کٹے پھٹے جسموں والی عورتیں مکتی باہنی کے دہشت پسندوں کی غیرانسانی کارروائیوں کی درد ناک کہانیاں سناتی تھیں۔‘‘ وارث میر کا یہ سفر نامہ اس دور میں چھپا جب مشرقی پاکستان پر آرمی ایکشن ہورہا تھا اور وہ وہاں گئے تھے۔ یہ ان کا اس دور کا سچ تھا اور میر ی ان سے آخری ملاقات جولائی 1979ء میں ہوئی اور وہ اس وقت تک اسی سچ پر قائم تھے اور مشرقی پاکستان کے ذکر سے ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور کہتے مشرقی پاکستان بھارت، مشرقی پاکستان کے ہندوئوں اور پاکستان کے کمیونسٹ اور قوم پرست دانشوروں کی مسلسل محنت سے ٹوٹا۔ یہ سفر نامہ وہ سچ ہے جو اس زمانے میں بولا گیا۔ اس سفرنامے کو ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ اسے کسی اخبار کو دوبارہ شائع کرنا چاہیے کہ میرے ملک کو آج بھی ویسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved