تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-03-2021

ریاستِ مدینہ اور موجودہ حکمران

صرف لکھنے سے، کہنے سے اور دعویٰ کر دینے سے کیا ہوتا ہے؟ آئین کہتا ہے کہ یہ ''اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ ہم سب کو بخوبی علم ہے کہ یہ ملک کتنا اسلامی ہے اور کتنا جمہوریہ ہے‘ بلکہ اب تو ایک نہایت ہی معزز اور معتبر گواہی یہ ملی ہے کہ صورتحال کافی بد بو دار ہے۔ اب بندہ کیا کہے اور کہاں جائے؟ گزشتہ اڑھائی سال سے دعویٰ چل رہا ہے کہ یہ ملک ''ریاست مدینہ‘‘ ہے۔ ریاست مدینہ دراصل ایک اصطلاحی حوالہ ہے۔ مدینے جیسی ریاست ہونا تو خیر کسی طور ممکن نہیں کہ اسے جن لوگوں نے یثرب سے مدینۃ النبی بنایا وہ محسن انسانیت اور رحمت للعالمین سے براہ راست اکتساب یافتہ لوگ تھے۔ بھلا ہم گناہ گاروں کا ان کی خاک پا سے بھی کیا مقابلہ۔ ریاست مدینہ کا سب سے نمایاں پہلو احترامِ آدمیت تھا۔ یہ ریاست مدینہ تھی جس نے اپنے زیر سایہ بسنے والے انسانوں کو، ان کے شرف کو اور ان کے جان و مال کو بلا تخصیص ریاستی تحفظ بخشا۔ وہ ایک ایسی ریاست تھی جہاں عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر، آزاد کو غلام پر، امیر کو غریب پر اور طاقت ور کو کمزور پر نہ ترجیح تھی اور نہ فوقیت۔ یہی ریاست مدینہ کی وہ بنیادی روح تھی جو اسے دیگر ریاستوں پر فوقیت دیتی تھی۔
میں نہ تو کسی آئیڈیل ازم کا شکار ہوں اور نہ ہی ایسے خواب دیکھتا ہوں لیکن جناب علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ ''ریاست کفر سے چلائی جا سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں''۔ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ریاست میں نہ انصاف ہے اور نہ عدل۔ رہ گیا کفر یا اسلام کا معاملہ تو اس عاجز کو اس بارے میں کسی فیصلے کا نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے کہ اس بارے میں کچھ کہہ سکے‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں ایک قانون وہ ہے جسے کمزوروں، ناتوانوں، غریبوں، لا وارثوں اور بے وسیلہ لوگوں پر لاگو کیا جاتا ہے اور دوسرا قانون وہ ہے جسے طاقت ور، مقتدر، زور آور اور منہ زور اشرافیہ اپنی مرضی سے چلاتی ہے۔ گو کہ یہ سب کچھ گزشتہ چوہتر سال سے چل رہا ہے لیکن تب یہ ریاست عام سی ریاست تھی۔ اسے ریاستِ مدینہ کا دعویٰ حاصل نہیں ہوا تھا، اس لیے اب ساڑھے سات عشروں کا حساب کون کھولے؟ مجھے تو گزشتہ اڑھائی سالوں سے غرض ہے۔
اب یہ ایک بالکل عام سا جملہ بن کر رہ گیا ہے کہ گزشتہ تیس سال کا گند اتنی جلدی کیسے صاف ہو سکتا ہے؟ کئی معاملات پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ Deep rooted خرابیاں دور ہونے میں وقت لگے گا، لیکن عدل و انصاف کی فراہمی، شرف انسانی کی حفاظت اور لاوارث، کمزور، ناتواں اور بے وسیلہ لوگوں کو برابری کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرنے سے کس نے روکا ہے؟
یہ ساری تمہید دراصل ان واقعات کے تسلسل کا رد عمل ہے جو بالکل تازہ ہیں‘ یعنی اس ریاست میں ریاست مدینہ کا استعارہ استعمال کرنے کے بعد کے واقعات ہیں۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے صلاح الدین ایوبی، جس کی ایک اے ٹی ایم مشین میں منہ چڑانے کی وڈیو بڑی وائرل ہوئی تھی، رحیم یار خان پولیس کی حراست میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پولیس تشدد کی وڈیو بھی سب نے دیکھی، لیکن ملک کو ریاست مدینہ جیسا بنانے کے دعوے دار حکمران چین کی نیند سوئے رہے اور ملزم بری ہو گئے۔ کوئٹہ میں سابق ایم پی اے مجید خان اچکزئی نے با رونق سڑک پر ٹریفک وارڈن عطا اللہ کو گاڑی کے نیچے کچل کر جان سے مار دیا‘ اور پھر وہاں رکنے کے بجائے گاڑی بھگا کر لے گیا۔ اس حرکت کو Hit and Run کہتے ہیں اور یہ مہذب ممالک میں بہت ہی سنگین جرم تصور ہوتا ہے۔ اس حادثے کی، بلکہ جرم کی سی سی ٹی وی کی فوٹیج موجود تھی لیکن ملزم بری ہو گیا۔ جن ممالک میں ریاستی ملازم کی جان ریاست کے تحفظ کے برابر سمجھی جاتی ہے وہاں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی شخص، خواہ وہ اس ریاست کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو‘ کسی ریاستی ملازم کو نقصان پہنچائے اور بچ نکلے۔ مگر یہاں یہ بھی ہوا کہ مجید خان اچکزئی با عزت بری ہو گیا۔ ظاہر ہے ثبوت نہ ملیں تو بندہ با عزت بری ہو جاتا ہے۔ اب بھلا اس وڈیو سے بڑھ کر اور کیا ثبوت درکار تھا؟ آنکھوں دیکھی گواہی پر تو شک و شبہ کا اظہار کہا جا سکتا ہے مگر اس ریکارڈ شدہ گواہی کے ہوتے ہوئے اور کس قسم کی گواہی درکار تھی؟
ساہیوال میں کیا ہوا؟ معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا اور ماڈل ٹائون سانحہ پر ہمہ وقت حکمرانوں سے استعفیٰ مانگنے والے عمران خان اس سانحے پر ٹھنڈے پیٹوں بیٹھے رہے اور سر عام، بلا وجہ اور بے گناہ ایک خاندان کو موت کی نیند سلانے والے قاتل اہلکار بری ہو گئے۔ یہ ریاست مدینہ تھی۔
تازہ ترین واقعہ اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر ہوا جہاں وفاقی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی کے قافلے کی زد میں آ کر چار نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ چاروں نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں نوکری کے انٹرویو کے سلسلے میں اسلام آباد آ رہے تھے۔ ان کے گھر والے منتظر ہوں گے کہ ان کے بیٹے ہاتھوں میں نوکریوں کے پروانے لے کر گھر واپس آئیں گے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ بڑے لوگوں کے شہرِ بے وفا میں نوکری کے نہیں، موت کے پروانے لینے گئے ہیں۔
مجھے اس بات سے قطعاً غرض نہیں کہ گاڑی کشمالہ طارق کا بیٹا چلا رہا تھا یا بقول منیب الحق کے، اس کا شوہر چلا رہا تھا۔ مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں کہ بقول کشمالہ طارق‘ گاڑی اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ مجھے اس بات سے بھی قطعاً کوئی غرض نہیں کہ خواجہ صاحب کے اکائونٹ سے کشمالہ طارق کو دیئے گئے بارہ کروڑ روپے کی کہانی میں کتنی حقیقت ہے۔ مجھے تو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ کشمالہ طارق کے اسلام آباد میں کتنے بنگلے ہیں اور لاہور میں کتنی جائیداد ہے۔ اس کی کتنی قیمت ہے اور اس کے ذرائع کیا ہیں کہ یہ میرا مسئلہ نہیں۔ کشمالہ طارق نے اقتدار کی راہداریوں میں انٹری کیسے ڈالی اور یہ سفر کیسے طے کیا‘ ظاہر ہے مجھے اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ یہ پاکستان میں معمول کی چیز ہے اور کسی بھی سیاستدان کی ایسی محیرالعقول ترقی یہاں پر بالکل بھی انوکھی بات نہیں ہے۔ پیسے کے زور پر اس بریت سے مجھے کشمالہ طارق، اس کے شوہر یا بیٹے سے بھی کچھ لینا دینا نہیں تاہم ریاست کے والیوں سے تو سوال بنتا ہے۔
کیا بریت کی یہ سہولت صرف امیروں، طاقتوروں، زور آوروں اور مقتدر لوگوں کو ہی حاصل ہے؟ معمولی معمولی جرمانوں میں قید بھگتنے والے وہ مجبور، بے کس اور مقہور لوگ کہاں جائیں جو بعض اوقات بہت ہی معمولی جرمانہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث برسوں جیل میں پڑے سڑتے رہتے ہیں؟ بیت المقدس فتح ہوا تو شہر چھوڑنے کے خواہش مند غیر مسلموں کو دس دینار کے عوض شہر چھوڑنے کی سہولت دی گئی۔ یروشلم کے بڑے چرچ کے لاٹ پادری نے دس دینار دیئے اور گرجا گھر کا سارا سونا، مال و متاع اور پیسے لیکر شہر چھوڑ گیا۔ ایک غیر مسلم خاتون فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میرے پاس دس دینار ادا کرنے کی استطاعت نہیں۔ سلطان نے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کیا اور مفلسوں کے لیے دس ہزار دینار سے ایک فنڈ قائم کر دیا کہ اصول بھی برقرار رہے اور کوئی مفلس خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو شہر چھوڑ کر جانے کی سہولت سے محروم نہ رہ جائے۔
ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنا بڑا آسان لیکن اسے نبھانا بڑا مشکل ہے۔ کم از کم موجودہ حکمرانوں کے تو بس کی بات نہیں کہ وہ یہ بھاری پتھر اٹھا سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved