ابھی بہار پوری طرح سے آئی بھی نہیں کہ گرمی کی چاپ دہلیز پر سنائی دینے لگی ہے۔ موسم بتدریج خوشگوار سے گرم کی طرف تیزی سے جارہا ہے۔ لاہور سمیت ملک کے بالائی علاقوں میں یہ حال ہے تو جنوبی خطوں کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس بار سردیاں آئی تھیں تولگتا تھا‘ ریکارڈ اور لمبی مدت کی سردیاں پڑیں گی لیکن اب مارچ کے ابتدائی دنوں میں سردیوں کے رخصت ہوجانے پر آہیں بھری جارہی ہیں اورآتی گرمی کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اس بار شاید بلند علاقوں میں برف بھی کم پڑی ہے۔ کم ازکم سکردو کے ایک دوست کا تو یہی بیان اور مشاہدہ ہے کہ ان دنوں شہر میں سڑک کنارے اور پارکس میں برف کی ڈھیریاں جابجا نظر آتی تھیں لیکن اس بار شہر میں کہیں برف دکھائی نہیں دے رہی۔ لطف آتا ہے دیکھ کر کہ وہ لوگ جو محض ایک ماہ پہلے سخت سردی کی شکایتیں کررہے تھے، اب ذرا سا موسم تبدیل ہوا ہے توانہوں نے سردیوں کویاد کرنا شروع کردیا ہے۔
اور یہی زندگی کا چلن ہے۔ گزرے ہوئے دنوں کویاد کرنا اور موجودہ وقت سے مطمئن نہ ہونا۔ دیکھا جائے تو ہم کسی حال میں زیادہ دیر خوش نہیں رہ پاتے کہ ہر موسم میں ہماری کوئی نہ کوئی رگ دب رہی ہوتی ہے۔ گرمی، برسات، بہار اور سردی۔ ہر موسم کی اپنی خوبیاں ہیں اور اپنی شدتیں۔ ہم گرم ملکوں میں شمار ہوتے ہیں اس لیے سب سے زیادہ شکایتیں بھی گرمی سے ہوا کرتی ہیں اور معاملہ عام موسموں کا ہی نہیں سیاسی موسموں کا بھی ہے بلکہ زیادہ بلند آہنگ میں، اور زیادہ زوردار طریقے سے۔ پچھلے بیس سال کو ہی دیکھ لیجیے۔ ہر سیاسی حکومت کے عہد میں اس کے خلاف اتنا شور اٹھا رہتا تھاکہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ قاف لیگ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ سب ایک دوسرے کو جن القابات سے نوازتے رہے اور جس طرح ایک دوسرے کو تخت سے اتارنے کی کوششیں کرتے رہے‘ ان کے بعد اصولاً توآپس کی بول چال بھی نہیں رہنی چاہیے تھی لیکن آج کا موسم دیکھ لیجیے، بیشتر ایک جھنڈے تلے جمع ہیں اور انہی القابات سے برسر اقتدار لوگوں کونواز رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا چلن دیکھ لیجیے۔ وہ مختلف ادوار میں ہر جماعت کے ساتھ مل کر حکمران جماعت کے خلاف فلک شگاف نعرے بلند کرتی رہی ہے اور اب کرسی پر پہنچتے ہی انہی سب لوگوں کا اتحاد اس کے نزدیک ڈاکوؤں کا ٹولہ ہے۔ ذرا دیکھیے کہ قاف لیگ سے لے کر مسلم لیگ نون کے آخری دور تک ہر دور کی اچھائیاں یاد کرنے اور بیان کرنے والے موجود ہیں۔ میرے خیال میں بدترین دور آخری آمریت کا گزرا‘ جس کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک آگ اور خون کے دریا سے گزرا اور سڑکیں، مسجدیں اور عبادت خانے بھی لہو سے سرخ ہوگئے۔ اس دور کی بھیانک یادیں لوگوں کے حافظے سے محو نہیں ہوئیں لیکن اس دور کو یاد کرنے اور اس کی اچھائیاں ڈھونڈ نکالنے والے بھی موجود ہیں۔ سو لگتا یہی ہے کہ سیاسی موسم بھی گزر جانے پرصرف اچھے رہ جاتے ہیں۔ برائی صرف اس موسم کے حصے میں آتی ہے جو موجود ہو۔
سیاسی موسموں میں سردی گزرنے کے ساتھ ساتھ گرمی پیدا ہورہی ہے۔ ضمنی انتخابات، ڈسکہ میں پریذائیڈنگ افسروں کی پراسرار گمشدگی، الیکشن کمیشن کا دوبارہ انتخاب کا فیصلہ، پی ٹی آئی کا اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ‘ سب اس بدلتے موسم کے کچھ رنگ ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پریذائیڈنگ افسروں کا غائب ہوجانا اور اس کی وہ تاویلات کرنا جو بچہ بھی درست نہ مان سکے، قومی انتخابات کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب کروانے کا فیصلہ کیا۔ سچ یہ کہ جس طرح الیکشن کمیشن سمیت بہت سے قومی ادارے آزادانہ فیصلوں کی روایت نہیں رکھتے، اس کے پیش نظر کسی کو اس فیصلے کی توقع کم ہی تھی لیکن اس فیصلے نے وہ امید بحال کردی جو ہر ذی شعور پاکستانی کے دل میں چنگاری کی طرح لو دیتی رہتی ہے کہ یہ ادارے مضبوط، اصولی اور آزادانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوں۔ تحریک انصاف نے اس کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ نرم سے نرم لفظوں میں بھی افسوسناک ہے۔ پی ٹی آئی وہ جماعت ہے جو منصفانہ اور آزادانہ انتخاب کا نعرہ لگا کر دھرنے میں داخل ہوئی تھی اور عمران خان چار حلقوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے تھے۔ جس حلقے میں تیس پریذائیڈنگ افسر بیلٹ بکس سمیت غائب ہوں، اور وہ بھی انکے اپنے عہد حکومت میں کس منہ سے اسے شفاف انتخاب کہا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی پہلا دھچکا نہیں جو تحریک انصاف کے ان حامیوں کو لگا ہو جو اصولوں کی پاسداری کے حامی ہیں۔ حکمران اسی گلے سڑے نظام کے انہی سب ہتھکنڈوں سے کام لے رہے ہیں جن کے خلاف تقریریں کرتے تھے اور جنہیں بدلنے کیلئے انہیں ووٹ دئیے گئے تھے۔ ان چیزوں کے ہوتے ہوئے کسی نظام کی تبدیلی محض فسانہ ہے۔ یہ سب ہتھکنڈے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو ہمیشہ سے اور ہر جماعت سے منسوب ہیں۔ پی ٹی آئی کا معاملہ بھی اب یہی ہے کہ ؎
ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی
جب ذکر بہار آیا سمجھے کہ بہار آئی
یوں تو اسی ہنگامے میں شاہ محمود قریشی سمیت کئی وزرا کی آوازیں سنائی دیں جو الیکٹرانک بیلٹ کو رائج کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتی تھیں‘ لیکن یہ محض لفظی کارروائی سے زیادہ نہیں لگتی۔ سوال یہی ہے کہ حکومت کی باقی ماندہ مدت میں اسمبلی اور سینیٹ میں اس کی منظوری کیسے لی جائے گی اور عملی طورپر اس نظام کا نفاذ محض ڈھائی سال میں کیسے ممکن ہوگا۔ اگر واقعی پی ٹی آئی اس ارادے میں مخلص تھی تو یہ کام بہت پہلے شروع کیا جاسکتا تھا‘ لیکن اب تو اسے 'ایں خیال است و محال است و جنوں‘ نہ کہیں تو کیا کہیں؟
سینیٹ کے انتخابات کی گرمی بھی سب تک پہنچ رہی ہے۔ حیران کن طور پر پنجاب میں ہر پارٹی کے امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوگئے ہیں جسے جناب پرویز الٰہی کی درپردہ کوششوں کا نتیجہ قراردیا جارہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی، جنہیں باہر رکھنے کی ان کے مخالفین کی پوری کوشش تھی، جیت گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پرانے طریقۂ انتخاب ہی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا‘ جو حکومتی صفوں کے لیے ایک دھچکا ہے اور انتخابی نتائج نے اس دھچکے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بظاہر اس مرحلے سے گزرنے کے بعد تحریک انصاف کو نئی، مضبوط اپوزیشن والی سینیٹ کا سامنا ہوگا۔ آگے آنے والا موسم سیاسی گرمی کا ہے۔ کم از کم رمضان سے قبل تک۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں کسی مفاہمت کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے اور وزیر اعظم کا بے لچک رویہ اس کی بڑی وجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنے کسی اصول پر ٹھہرتے ہی نہیں، اسے خود توڑنے کے راستے نکال لیتے ہیں اور اس پر ہر کمپرومائز پر راضی ہوجاتے ہیں، ان سب کی دلیل وہی ہے کہ اس نظام میں رہ کر اسی سے کام لینا پڑے گا، توپھر اپوزیشن کی ہر جماعت کے خلاف اس بے لچک رویے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ خاص طورپر جب نیب کی پوری کوششوں کے باوجود اور ہرسیاسی مخالف پر مقدمات قائم کرنے کے باوجود حاصل حصول کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ اس معاملے میں انہیں چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کے سیاسی ذہن سے سیکھنا چاہیے جو شریف برادران سے حریفانہ کشاکش کے باوجود اپنے ذہن میں باقی لوگوں کیلئے کشادگی رکھتے ہیں۔ دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔ ان کا یہ ذہن نہ ہوتا توخود عمران خان بھی ان کے اتحادیوں میں نہیں ہوسکتے تھے‘ جو ایک دور میں ان کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے تھے۔ سچ یہ ہے کہ چودھری برادران نے اس دور میں بہت مثبت کردار ادا کیا ہے۔
لیکن گرماگرمی کا یہ ذکر تو سیاسی موسموں کی نذر ہوگیا۔ اصل گرمی کا ذکر پھرسہی فی الحال تویہ سوال ہے کہ کیا چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی جناب وزیر اعظم کے اس بے لچک رویے میں شگاف کرسکیں گے۔ آخر سرد اور بے مہر موسم میں بہار شگاف کرتی ہی ہے۔