تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-07-2013

انقلاب کس چڑیا کا نام ہے؟

اصلاح اور بہتری ایک سفر ہے ، کوہ پیمائی کی طرح ایک ایک قدم ۔ یہ انقلاب کس چڑیا کا نام ہے اور کون سا انقلاب ہے ، جس نے کبھی کوئی جنت تعمیر کی ؟ جواں سال تھانیدار سے میں نے پوچھا : کیسے گزراوقات کرتے ہو؟ کمال بشاشت سے وہ ہنس دیا او ر کھانے کا لطف اُٹھاتا رہا۔ اس مجلس میں ، جہاں شام ڈھلے اکثر چلا جاتا ہوں ، گاہے وہ بھی دکھائی دیتا۔ خوش باش اور نہال۔ دنیا جہان کے غم و فکر سے آزاد۔پھر ذرا شرماتے ہوئے اس نے کہا: بچوں کی فیس کے لیے کچھ پیسے گھر سے منگوانا پڑتے ہیں ۔ یوں تو ہمیشہ اس کا نام محبت سے لیاجاتا لیکن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ دور تک گونج اٹھا ۔ جعلی فوجی گاڑی میں سوار جعلی افسروں کو اس نے روکا ۔ تیس لاکھ روپے کی چرس برآمد ہوئی ۔ اب وہ گھبرائے مگر کچھ زیادہ نہیں ۔ عادی مجرم تھے ۔ نقدی ان کے پاس موجود تھی ۔ انہوںنے پیشکش کی توتھانیدار کو آمادہ نہ پایا۔رقم وہ بڑھاتے گئے مگر پولیس افسر کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی ، جو کبھی اس سے جدانہیں ہوتی ۔ اصرار زیادہ ہوا تو اس نے کہا :جلدی کیاہے ، تھانے میں بات کر لیں گے ۔ پولیس سٹیشن میں انہیں کرسیوں پر بٹھایا گیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ کمرے سے چلا گیا۔ واپس آیا تو پھر سے انہوںنے بھائو تائو کی کوشش کی ۔ جواب میں ہمیشہ کی طرح پوری خوش دلی سے ادھوری سی ہنسی وہ ہنسا اورکہا: پرچہ درج ہو چکا، افسوس اب تو کچھ ہو نہیں ہو سکتا۔ گوجر خان سے جب اس آدمی کااچانک تبادلہ ہوا تو ظاہر ہے کہ شہر میں پریشانی پھیل گئی ۔ ہر چند سال کے بعد پولیس اور پٹوار کلچر سے بیزار ہوجانے والے میاں محمد شہباز شریف کے عہدِ حکومت کا آغاز تھا۔ نو برس کے بعد ایک بار پھر وہ برسرِ اقتدار آئے تھے اور ایک بار پھر پولیس کی اصلاح کے لیے بے چین تھے۔ گوجر خان بارسوخ لوگوں کا شہر ہے ۔ میر پور کے سوا شاید ہی کسی قصبے میں اتنے ہوٹل ہوں گے اور شاید ہی بیرونِ ملک اس قدر بڑے بڑے کاروبار کرنے والے ۔ اپنی سی کوشش انہوںنے کر ڈالی مگر نتیجہ نہ نکلا۔ سنائی یہ دیا کہ نون لیگ کے ایم پی اے شوکت بھٹی اس سے ناراض ہیں ۔ معلوم نہیں تازہ قصہ کیا ہوا لیکن سبھی یہ جانتے تھے کہ بھٹی صاحب کے خلاف جعلی ڈگری کا مقدمہ چل رہا ہے ۔ اس آدمی سے \"شرافت\" کی امید وہ نہیں کر سکتے ۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان دبنگ آدمی ہیں ۔ وہ بات بھی کہہ ڈالتے ہیں ، دوسروں کو جس سے گریز ہو ۔ کل انہوںنے یہ کہاکہ ملک سے اگر کرپشن کا خاتمہ ہو جائے تو ہمیں عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے بھیک نہ مانگنی پڑے۔یہ بھی جتلایا کہ صدر ، وزیراعظم اور وزراء سمیت جو بھی ملوّث ہو ، انجام تک انہیں پہنچانا چاہیے۔ بجا ارشاد مگر سوال تو یہی ہے کہ ہاتھ کون ڈالے گا؟ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ جس اخبار میں چیف جسٹس کا انتباہ چھ کالمی سرخی سے جگمگایا ہے ، اسی میں ایک اور چھوٹی سی خبر بھی ہے \" الیکشن کمیشن کے حکم پر شوکت بھٹی کی جعلی ڈگری کیس میں ایف آئی آر خارج کرنے والے تفتیشی افسر انسپکٹر اصغر علی کے خلاف آٹھ ماہ بعد مقدمہ درج کر لیا گیا\"آٹھ ماہ بعد؟ ایک طویل زمانے تک الیکشن کمیشن لمبی تان کر کیوں سویا رہا ؟ پنجاب کے محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کو اطلاع کیوں نہ ہو سکی ۔ اگر ہوئی تو وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کیوں پڑے رہے ؟ کیا چوہدری نثار علی خان کو معلوم نہ تھا ، جو راولپنڈی ڈویژن کے ایک ایک تھانے اور ایک ایک پولیس افسر کے احوال سے با خبر رہتے ہیں ۔ شوکت بھٹی پرالزامات سنگین ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ میونسپل کمیٹی والے، پولیس افسر اور پٹواری ان کے سامنے دم نہیں مار سکتے ۔ انہیں خورسند نہ رکھیں تو بوریا بستر باندھنا پڑتا ہے ۔اور سب جانتے ہیں کہ لوگ لیڈروں کو کس طرح آسودہ رکھتے ہیں ۔ شور و غوغا سنائی دیاکرتا ہے: فلاں اور فلاں کی زمین پر انہوںنے قبضہ کر لیا۔ کچھ مقدمات بھی درج ہوئے ۔ کچھ لوگ قسم کھایا کرتے ہیں کہ ڈگری جعلی ہے ۔ فیصلہ تو عدالت کو کرنا ہے مگر کب ؟ چار سال تو انہوںنے بتا دئیے ، اور کتنے برس؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اس مقدمے کی موجودگی میں انقلاب کی دعویدار نون لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں وہ کیسے کامیاب رہے ؟ ایک اور سوال یہ کہ ان سنگین الزامات کے ساتھ شوکت بھٹی دندناتے کیوں پھرتے ہیں ۔ پرسوں پرلے روز پنجاب اسمبلی میں انہوںنے للکار کرکہا کہ ارکانِ اسمبلی کا استحقاق مجروح ہوتا ہے اور کسی کو پروا نہیں۔ بات بے غیرتی تک جا پہنچی ہے ۔ تحریکِ انصاف کے ایک مقامی لیڈر ساجد گجر کے خلاف کارروائی وہ چاہتے تھے جو ہو نہ سکی اور اس پر برہمی میں قابو سے باہر تھے ۔ اب ظاہر ہے کہ سارا ایوان تو شوکت بھٹیوں پر مشتمل نہیں ۔ ہنگامہ ہواا وراحتجاج ۔ موصوف کو اپنے الفاظ واپس لینا پڑے ۔ سالِ گذشتہ پنجاب کے سبکدوش ہوجانے والے آئی جی ایک شام وہیں کھانے میں شریک تھے ، جہاں کا ذکر ہوا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ گوجر خان کو اس تھانیدار سے نجات دلاسکتے ہیں ، جو پولیس سٹیشن میں سامنے کی کرسی پر پائوں دراز کیے الکحل سے شغل فرمانے میں مصروف رہتا اور دھڑلے سے رشوت لیتا ہے ۔ کیا وہ ڈھنگ کے ان افسروں میں سے کسی ایک کا تقرر فرما سکتے ہیں ، جو کبھی یہاں تعینات تھے اور جن کے لیے د لوں سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ ’’یہ بھی کوئی مشکل کام ہے‘‘ انہوںنے کہا۔ پھر ان کا فون آیا ، مرجھائی ہوئی آواز ’’نہیں ، حضور ، یہ میرے بس کا نہیں‘‘۔ بس میں کیا ہے ؟وہ جو اس شہر میں راجہ پرویز اشرف نے کیا۔ الیکشن جیتنے کے لیے 47 ارب روپے کے صوابدیدی فنڈ انہوںنے سمیٹے اور جہاں چاہا پھینک دئیے ۔ کم از کم تین کروڑ روپے نقد انہوںنے شہر میں تقسیم کیے۔ 57000، جی ہاں ، ان کے قصبے میں 57000ووٹروں کو بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سے مدد ملتی تھی ۔ اس کے باوجود راجہ صاحب ہار گئے تو اس کا مطلب کیا ہے ؟ جی نہیں ، عوام نہیں ،لیڈر زیادہ گمراہ ہیں ۔ ووٹر تو اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پولیس ان کی مددکرتی ہے ، سیاسی پارٹیاں اور نہ عدالت۔ راجہ پرویز اشرف کو کرائے کے بجلی گھروں پر جیل جانا چاہیے تھا مگر وہ وزیراعظم بنے اور اب تک آزاد ہیں ۔ شوکت بھٹی کے لیے فراموشی اور گمنامی ہوتی مگر وہ تو پنجاب اسمبلی کے ایوان میں تشریف فرما ہیں اور ناراض ہیں کہ ان کے اختیارات محدود کیوں ہیں ؟ کبھی ایک اے سی یہاں مقرر ہوا تھا ۔ جہاں جہاں اس کے ہاتھ پہنچے ، کرپشن اس نے تمام کر دی ۔ ڈوبے ہوئے واجبات وصول کر کے میونسپل کمیٹی کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا۔ عامیوں پر وہ مہربان تھااور قہرمانوں سے بے نیاز۔ چند سال میں شہرکا نقشہ ہی بدل گیا۔ گلیاں پختہ ، شاہراہیں استوار ، منصوبے کے لیے منظور ہونے والا سرمایہ اسی پر صرف ہوتا، کسی کی جیب میں نہ جا سکتا تھا۔مشرف مارشل لا کے بعد ایک بریگیڈئیر نے آنکھیں دکھائیں تو ڈانٹ کر اس نے بھگا دیا۔ خبر یہ آئی ہے کہ رینجرز نے کراچی سینٹرل جیل پر چھاپہ مار کر کتنے ہی موبائل فون اور طرح طرح کی دوسری چیزیں برآمد کر لیں ۔ پولیس اور جیل حکام کو بے خبر رکھا گیا کہ کہیں مجرموں کومطلع نہ کر دیں ۔ کیا یہ شرم سے ڈوب مرنے کی بات نہیں ۔ کس منہ سے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ یہ کہتے ہیں کہ تھوڑا سا وقت دیا جائے ، وہ کراچی کا امن بحال کر دیں گے ۔ پانچ برس خون بہتا رہا اور وہ سوئے رہے ۔ ہمیشہ سے اور پچھلے پانچ سال میں بھی پنجاب کے عوام پولیس اور پٹوار کی گرفت میں تڑپتے رہے ۔ کس بنیاد پر شہباز شریف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک سال میں وہ پٹوار اورپولیس بدل ڈالیں گے ۔ شوکت بھٹیوں کو ٹکٹ دے کر ؟ کون سے ملک میں یہ واقعہ ہوا ہے کہ مہذب سیاسی پارٹیوں کے بغیر معاشرہ بدل گیا ہو۔ گوجر خان میں جرائم پیشہ افسروں پر دبائورہتا، اگر عمران خان خوشامدیوں کی بجائے خیر خواہوں کی سنتے ۔ اگر وہ دیانت دار لوگوں کو ٹکٹ دیتے ۔ اصلاح اور بہتری ایک سفر ہے ، کوہ پیمائی کی طرح ایک ایک قدم ۔ یہ انقلاب کس چڑیا کا نام ہے اور کون سا انقلاب ہے ، جس نے کبھی کوئی جنت تعمیر کی ؟ پسِ تحریر: وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے فرمایا: بھارت سے دوستی کی کوشش جاری رہے گی ۔ بجا ارشاد، تھوڑی سی دوستی زخم آلود پاکستانی عوام سے بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved