ہم عوام تو خواب و خیال کی دنیائوں کے عہدِ قدیم کے باسی ہیں‘ مگر راہبر بھی خود فریبیوں کا شکار ہو جائیں تو قوم کا وہی حال ہوتا ہے‘ جو ہمارا نہ جانے کب سے ہے۔ اتنا کہنے کی اب سکت نہیں کہ دنیا کے پس ماندہ ترین درجنوں ممالک کے سالارانِ قافلہ رہزن ہیں۔ خاکسار وطنِ عزیز کو ایسے ملکوں کی صفوں میں نہیں دیکھنا چاہتا‘ مگر عالمی اداروں کی رائے پر یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔ نمائندگی یعنی جمہوریت دو دھاری تلوار سے کچھ نہ کچھ نسبت ضرور رکھتی ہے۔ نمائندے امانتدار‘ ایماندار اور دھرتی کی خوشبو میں بسے ہوں تو ریگ زار گل و گلزار بن سکتے ہیں۔ انہی حالات میں زمین سونا اگلتی ہے‘ نوجوان علم و ہنر سے آراستہ ہوتے ہیں اور سرمایہ دارانہ آسائشیں روزگار اور ترقی کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ نظام کی باتیں تو ہم ہر روز کرتے ہیں‘ مگر کوئی بھی نظام قیادت‘ سیاست بازوں اور کھرے یا جعلی راہروئوں سے علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ نظام وہی کچھ کر سکتا ہے یا بن پاتا ہے جیسے اسے ہم چلانا یا بنانا چاہتے ہیں۔ میں کسی فکری یا فلسفیانہ بحث میں نہیں الجھانا چاہتا‘ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کمزور ریاستی اداروں‘ کمزور احتسابی عمل اور کمزور قانونی گرفت نے تاریخ اور دورِ حاضر میں ہر نوع کے معاشروں کو پستیوں کی طرف دھکیلا ہے۔ ظلم بہت ہی بامعنی لفظ اور اصطلاح ہے۔ اس کی گہرائی اور فرد و معاشرے پر اسکے اثرات دیکھنا یا پرکھنا مقصود ہو تو مغرب یا مشرق کی عظیم سلطنتوں کے زوال کی تاریخ پڑھ لیں۔ ظلم انصاف کی ضد بھی ہے‘ ایسا اندھیرا‘ اور ایسی اندھیر نگری کہ علم و دانش‘ حکمت اور سچائی پر دبیز پردے پڑ جائیں۔ دنیا کے ہر مذہب‘ عقیدے‘ فلسفے‘ نظریے اور نظامِ ریاست میں ظلم ختم اور انصاف فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
انصاف کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو جس کا حق بنتا ہے‘ اسے دے دیا جائے۔ کسی کے حقوق پامال کرنا ظلم ہی ہے۔ سچائی اور فطری حقیقتوں سے انکار بھی تو ظلم کی روش ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی بے بس عوام اور کمزور معاشرے کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہی نہیں‘ بلکہ اسے عین سیاست سمجھتا ہے‘ اس کی حمایت کی جائے تو آپ اخلاقی معیار اور ذاتی کرداروں کا کیا تعین کریں گے؟ ان گزارشات کا مقصد فقط توجہ سینیٹ کے انتخابات کے طریق کار کے بارے میں متضاد اور سیاسی موسموں کے ساتھ بدلتے راہروئوں کے رویے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ جو کچھ میں سطورِ زیریں میں لکھ رہا ہوں‘ سیاسی حقائق ہیں‘ تاریخ میں ثبت ہیں۔ انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف اوقات میں سب سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے شکایت کی کہ سینیٹ کے انتخابات کیلئے خریدوفروخت کی منڈی لگتی ہے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر گہرا اور وسیع ہے‘ جس کو پھیلانے میں سیاسی قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب خود خریدار ہوتے ہیں‘ تو ''ضمیر کی آواز‘‘ کی بات کرتے ہیں‘ لیکن جب ان کی جماعتوں کے اندر سے کچھ معقول بولی لگنے پر پگھل جاتے ہیں تو غداری اور چوری کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں شفافیت لانے کیلئے ضروری ہے کہ اراکین خفیہ رائے دہی کے بجائے کھلی رائے دہی کا طریقہ اختیار کریں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اگر معروضی حالات کا تقاضا یہ تھا کہ خفیہ رائے دہی سے بہت کچھ خفیہ خفیہ مل سکتا ہے تو پھرکی گھما کر الٹا موقف اختیار کر لیا۔ میں ایسی چالبازیوں کو حقیقی سیاست نہیں سمجھتا‘ ایسا کرنا سیاست کو بدنام کرنے کے مترادف ہو گا۔ نصف صدی سے سیاست پڑھنا‘ پڑھانا میرا پیشہ ہے۔ میں ہر طرح سے سیاست کو ایک مقدس قومی فریضہ ہی سمجھتا ہوں۔ سیاست کو فریب‘ دھوکا دہی اور لوٹ مار سے منسوب کرنا اس لئے عام روش ہے کہ طاقتور اور بااختیار سیاسی لوگوں کا کردار کچھ اس طرح رہا ہے۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی‘ دو قومی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی رقابت اور تصادم کی سیاست‘ جو دہائیوں پر محیط ہے‘ کیسے اس کے نقش آپ کے ذہن سے مٹے ہوں گے؟ چونکہ پارلیمانی نظام ہے‘ ایک دوسرے کو گرانے کیلئے اراکین کی خریدوفروخت کا دھندا ایک عرصے تک جاری رکھا۔ جب دونوں نے چوٹیں کھائیں اور ان کی آپس کی لڑائی کا فائدہ تیسرے فریق کو ہوا‘ تو میاں محمد نواز شریف کے ذہن میں خیال یہ آیا کہ اب سیاسی منڈیاں ختم کر دی جائیں۔ 1997 کے انتخابات میں ان کی جماعت دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی تو آئین میں چودھویں ترمیم کرکے اراکیںِ اسمبلی کو پابند کر دیا گیا کہ وہ صرف اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیں گے‘ بصورتِ دیگر وہ اسمبلی کے رکن نہیں رہیں گے۔ اب کتنی بار ذکر کریں کہ ان کی مخالف بڑی سیاسی جماعت کا ان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کیا کردار تھا۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو‘ مگر تاریخ جب لکھ دی جاتی ہے تو انکار ناممکن بن جاتا ہے۔
پرویز مشرف صاحب جب ''حقیقی‘‘ جمہوریت کی اساس رکھنے لگے تو انہیں چودھویں ترمیم کو ختم کرنا پڑا‘ کہ اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) کو سینیٹ میں اکثریت دلانا سیاسی ضرورت تھا۔ سب نے ان کیلئے پاکستان کی چوتھی بار ''تعمیرِ نو‘‘ کے سب راستے کھول دیئے۔ اس ''کارِ خیر‘‘ کو ممکن بنانے کیلئے میاں صاحب کے خلاف جہاز کی اغواکاری کا مضحکہ خیز مقدمہ‘ عمر قید اور پھر دس سال جلاوطنی‘ کیا کہیں‘ کیا لکھیں؟ چلو اپنی عوامی ثقافت میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ جب ہم بے بس ہو جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہماری قسمت ہی اچھی نہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں صاحب کی سیاست کو ختم کرنے کیلئے مشرف صاحب وہ سب کچھ کررہے تھے‘ جو معاشرے کے ساتھ ہوتا رہا ہے‘ دیارِ غیر میں جمہوریت کی بحالی اور اس کو مضبوط کرنے کا ان کا جذبہ زور پکڑ گیا۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر ''چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کو نئے جمہوری پاکستان کو استوار کرنے کی تاریخی دستاویز اور باہمی مفاہمت کی نشانی کے طور پر عوام کے سامنے رکھا گیا‘ تو جمہوریت پسندوں میں خوابیدہ توانائیاں انگڑائیاں لینے لگیں۔ اس میں واضح طور پر سینیٹ کے انتخابات کیلئے کھلی رائے دہی کو یقینی بنانے کیلئے آئین میں ترمیم کا وعدہ شامل ہے۔ جب جمہوریت بحال ہوئی اور بطور انتقام اپنے عروج پر تھی تو سب جماعتوں نے اٹھارہویں ترمیم کرکے بنیادی آئین کی شکل ہی بدل دی‘ مگر سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں خاموشی چھائی رہی۔
حقائق تو لگ بھگ سارے ہی آپ کے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین کے مؤقف کیوں بدل جاتے ہیں۔ میں سیاست کی اس تعبیر سے اتفاق نہیں کرتاکہ سیاست میں صرف ذاتی مفادات ہی اہم ہوتے ہیں۔ مفادات ذاتی‘ گروہی اور نظریاتی ہوتے ہیں‘ مگر اخلاق‘ قانون‘ آئین اور مفادِ عامہ کے دائرے سے باہر نہیں۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ سینیٹ کے انتخابات شفاف ہوں‘ متناسب نمائندگی آئین کے مطابق عکس ڈالے اور ضمیر کی آواز سکوں کی چمک پر پھسلے نہیں۔ خدشات سب کو ہیں‘ بدگمانی سے کوئی سیاسی ذہن خالی نہیں‘ غیریقینی صورتحال کا سب کو سامنا ہے‘ تو پھر اصلاحِ احوال سے گریز کیوں؟ اس سے کسی کوانکار نہیں کہ تحریکِ انصاف نے رشوت لیکر ووٹ کسی اورپارٹی کے امیدواروں کو ڈالنے کے الزام میں اپنے20 اراکین کو پارٹی سے نکال باہر کیا تھا۔ آپ اس سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ایک پارٹی کے خیبرپختونخوا اسمبلی میں صرف دو اراکین تھے‘ اور اس کے دو امیدوار سینیٹ میں کامیاب ہو گئے تھے۔ چونکہ بے بس ہیں‘ کہوں گا کہ ہماری قسمت ہی ایسی ہے۔ معاف کریں دورِ جدید تو قسمتیں بدلنے کا دور ہے۔ جدوجہد ہاتھوں کی لکیروں میں لکھے کو مٹا کر کچھ نیا رقم کر سکتی ہے۔ ابتدا ہم خود سے کیوں نہ کریں‘ کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے اور لکھنے کا حوصلہ پا لیں۔