تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     05-03-2021

پسپائی کا زخم اور اعتماد کا ووٹ

کشتی باہر کے پانی سے نہیں اندر کے پانی سے ڈوبتی ہے۔ اقتدار کی کشتی میں سوار ارکانِ اسمبلی نے کشتی کے ساتھ ساتھ لٹیا بھی ڈبو ڈالی... ایوانِ بالا کی ایک سیٹ کا نتیجہ بہت کچھ تہ وبالا ہونے کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہے بلکہ سیاسی سرکس مستقبل میں کئی نئے آئٹمز بھی پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ آئندہ کا سیاسی منظر نامہ انصاف سرکار کے لیے کیا کیا مشکلات لے کر آتا ہے اور انصاف سرکار ان سے کیسے نبردآزما ہوتی ہے یہ ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔ وزیراعظم سرکاری امیدوار حفیظ شیخ کی پسپائی کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر چکے ہیں‘ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں اس لیے کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ خفیہ نہیں شو آف ہینڈ کے ذریعے لیا جائے گا اور چھپی مخالفت یقینا منظرِ عام پر آنے سے گریزاں ہو سکتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی میں پائی جانے والی بددلی اور بے چینی ایک اور بڑے اَپ سیٹ کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ ایک طرف ارکانِ اسمبلی کو اپنے انتخابی حلقوں میں مزاحمت اور ندامت کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف کابینہ میں بھی ان کی کوئی نہیں سنتا۔ اکثر ارکان تو برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک تو مشیر اور معاونین چلا رہے ہیں۔ جس حکومت میں وزرا کی کوئی اہمیت اور وقعت نہ ہو وہاں ہماری کیا حیثیت۔
حفیظ شیخ صاحب کی پسپائی کا زخم اعتماد کے ووٹ سے بھرتا دکھائی نہیں دیتا۔ وقتی طور پر مرہم پٹی شاید اس تکلیف میں کمی کا سامان پیدا کر سکے تاہم زخم میں پائے جانے والے مہلک جراثیم ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ حکومتی طبیب اپنے نسخے اور ٹوٹکے ضرور آزمائیں گے لیکن یہ زخم نہ بھر پائیں گے۔ جس طرح شوگر کے مریض کا زخم اکثر بھرنے کے بجائے پھیلتا چلا جاتا ہے اور بعض اوقات مریض کو قیمتی اعضا سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے‘ ایسے حالات میں مریض کس دل سے اپنے اعضا کاٹنے کے اجازت نامے پر دستخط کرتا ہے اس کی اذیت وہ جانتا ہے یا اس کا رب جانتا ہے۔ انصاف سرکار کو سینیٹ میں جو گھاؤ لگا ہے وہ شوگر کے زخم سے ہرگز کم نہیں۔ آنے والے دنوں میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا کیا مستقبل ہوگا اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں اور یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بنتے ہیں تو انصاف سرکار امورِ حکومت کیا باآسانی چلا سکے گی؟ ایسے کئی سوالات آئے روز شکلیں بدل کر حکومت کے سامنے کھڑے ہوتے رہیں گے جبکہ اپوزیشن کے پہلے سے جارحانہ رویے میں مزید شدت بھی متوقع ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو سینیٹ الیکشن میں پسپائی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ ایسے کیا محرکات تھے کہ اپنوں نے ہی نشیمن پر بجلیاں گرا ڈالیں؟ اس کاجواب یہ ہے کہ جس حکومت میں منتخب ارکانِ اسمبلی سے لے کر وزرا تک کسی کی رائے اور مشورے کی کوئی اہمیت نہ ہو اور امورِ حکومت کے اہم ترین فیصلے اور پالیسیاں غیر منتخب معاونین اور مشیر چلاتے ہوں‘ فیصلہ سازوں کی قابلیت اور مہارت کی تعریفیں خود وزیر اعظم کرتے نہ تھکتے ہوں‘ وہاں اندرونی انتشار‘ بے چینی اور بددلی سمیت نجانے کیسی کیسی مزاحمتیں اندرہی اندر پلتی اور پکتی رہتی ہیں۔ سرکاری وسائل پر پلنے والے غیر منتخب مشیروں اور مصاحبین کی نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کا بوجھ بالآخر حکومت پر آ ہی جاتا ہے اور بعض اوقات یہ بوجھ اتنا بھاری پڑتا ہے کہ اس کی تفصیلات میں جانے سے کہیں بہتر ہے کہ اختصار اور احتیاط سے کام لیتے ہوئے بطور استعارہ یہ شعر قارئین کو پیش کر ڈالوں؎
اتنی آرائشِ آشیانہ
ٹوٹ جائے نہ شاخِ نشیمن
سینیٹ کے الیکشن کے بعد سیاسی درجہ حرارت نقطۂ عروج پر ہے بلکہ دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ میدان لگنے والا ہے اور سیاست کا بھڑکتا ہوا سورج جلد ہی سوا نیزے پر ہوگا۔ یہ بھڑکتا ہوا سورج سیاسی سرکس کے بازی گروں پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ اس سرکس میں چہروں اور آئٹمز کی تبدیلی کے ساتھ وہی کھیل آج بھی جاری ہے جو ماضی کے سبھی ادوار میں کم و بیش اسی طرح کھیلا جاتا رہا ہے۔ ووٹ کے حصول سے لے کر طولِ اقتدار تک عوام کو ہر موڑ پر مایوس کرنے والے یہ سبھی سماج سیوک نیتا ہر دور میں سیاسی سرکس کے بازیگر رہے ہیں۔
زبان اور قول کی حرمت سے ناآشنا یہ کیا جانیں کہ جب وہ عوام کے سامنے بلند بانگ دعوے کر رہے ہوتے ہیں اس وقت ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بھی سراپا احتجاج ہوتے ہیں کہ جو الفاظ تم اپنی زبان سے ادا کر رہے ہو تمہیں خود معلوم نہیں کہ ان کے معانی اور مفہوم کیا ہیں... ان الفاظ کی حرمت کیا ہے۔ ان کی زبان سے ادا ہونے والے ان الفاظ کا دل و دماغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو منہ میں آیا بس کہے چلے جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر تو بس اپنا ایجنڈا اور ٹارگٹ ہوتا ہے۔ انہیں اس امر کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کے بلند بانگ دعوے اور دلفریب وعدے عوام کو کیسی کیسی خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں میں مبتلا کر ڈالتے ہیں اور سہانے خوابوں کے کیسے کیسے محل کھلی آنکھوں میں سجا لیتے ہیں اور جب ان یہ خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو آنکھوں میں سجائے گئے خوابوں کی جگہ کرچیاں لے لیتی ہیں اور یہی کرچیاں عوام کی نفسیات اور اعصاب کو کس طرح لہولہان کرتی ہیں اس کا اندازہ یہ سماج سیوک نیتا کر ہی نہیں سکتے۔
سینیٹ میں بالا دستی حکومت کی ہو یا حزبِ اختلاف کی‘ عوام اس سیاسی منظر کے محض تماشائی ہی ہو سکتے ہیں۔ حفیظ شیخ صاحب جیت کر کیا کر لیتے... اقتصادی اصلاحات کے نام پر جو معاشی جھٹکے وہ دے چکے ہیں عوام تو ابھی ان کے صدمات سے باہر نہیں نکل پائے‘ وہ جیت کر کون سے تارے توڑ لاتے۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی صاحب کا طرزِ حکمرانی بھی ہماری تاریخ کا ایسا باب ہے جس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پڑھتا جاشرماتا جا۔
سینیٹ الیکشن کے نتائج پر ڈھول بجانے والے ہوں یا بغلیں بجانے والے ‘کس کس کا رونا روئیں‘ ان سبھی سماج سیوک نیتاؤں کا رونا روئیں یا عوام کی حالتِ زار کا ماتم کریں‘ سینیٹ کے انتخابات میں حفیظ شیخ نہیں ہارے‘ وہ ہار کر بھی جیتے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جیتے ہوئے لشکر میں ہیں اور یہ لشکر انہیں کسی اگلی گھات کے لیے پھر عوام کے سامنے لاکھڑا کرے گا۔ در حقیقت عوام ایک بار پھر ہار گئے ہیں۔ سینیٹ کے نتائج اور سیاسی گرما گرمی کو حالات کی تبدیلی سے منسوب کرنے والے کسی خوش گمانی میں ہرگز نہ رہیں کیونکہ ایسی کسی تبدیلی سے نہ عوام کا حال بدلے گا اور نہ ہی مستقبل سنورے گا۔ ان سب نے باریاں باندھ رکھی ہیں اور یہ ایسے ہی آتے جاتے رہیں گے اور عوام اسی طرح سیاسی سرکس کے تماشائی بن کر تالیاں بجاتے بجاتے اپنے ہاتھ لہولہان کرتے رہیں گے۔ ایسے میں شاعر سے ترمیم کی معذرت کے ساتھ چند اشعار حالات کی عکاسی کے لیے پیشِ خدمت ہیں:
سنا ہے حال بدلے گا
نتیجہ پھر وہی ہو گا
پرندے پھر وہی ہوں گے
شکاری جال بدلے گا!
وہی حاکم‘ وہی غربت
وہی قاتل‘ وہی ظالم!
بتاؤ کتنے سالوں میں
ہمارا حال بدلے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved