ایک زمانہ تھا کہ لوگ فلسفے کے پرستار ہوا کرتے تھے۔ فلسفیوں کی صحبت میں کچھ وقت گزار کر لوگ اٹھتے تھے تو محسوس ہوتا تھا کہ کچھ لے کر اٹھے ہیں۔ ہر اچھا فلسفی دنیا کو بہتر انداز سے سمجھنے میں مدد فراہم کیا کرتا تھا۔ مطالعے اور غور و فکر سے جنہیں دنیا کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت عطا ہوئی ہو وہ دنیا کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ فلسفیوں کا یہی معاملہ تھا۔ صدیوں تک فلسفی اہلِ جہاں سے معاملات کی تفہیم میں تعاون کرتے رہے۔ پھر یہ سلسلہ کچھ رُک سا گیا۔
فلسفیوں کی گہری اور تہ دار باتوں کے بجائے سادہ الفاظ میں عمومی انداز کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے والوں کو مقبولیت ملنے لگی۔ 1500 عیسوی کے آس پاس جب مطبع ایجاد ہوا تو کتابوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت ممکن ہوئی۔ یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس میں مقبولیت اُن کے مقدر میں لکھی تھی جو بات کو عام فہم الفاظ میں اور سلجھے ہوئے طریقے سے بیان کرتے تھے۔ فلسفیوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا تھا؟ فلسفے کی مقبولیت میں رفتہ رفتہ کمی کیوں واقع ہوئی؟ ان سوالوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ فلسفی بہت زیادہ غور و فکر کے ذریعے جو کچھ بیان کرتے تھے وہ خاصا الجھا ہوا ہوتا تھا۔ اُن کے الفاظ اور بیان کرنے کا انداز یہ تاثر دیتا تھا کہ وہ کسی اور دنیا کے لیے کچھ کہہ رہے ہیں۔ عام آدمی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ بہت زیادہ سوچ سکے اور کسی بات کی تہ تک پہنچنے کے لیے گہرائی میں اُترے۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دَو میں الجھے ہوئے کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ کسی پیچیدہ بات کو سمجھنے کے لیے زیادہ محنت کرسکے۔ ایک طرف تو جسمانی و ذہنی تھکن ہوتی ہے اور دوسری طرف وقت کی کمی۔ ایسے میں وہی بات زیادہ تیزی سے مقبولیت پاسکتی ہے جو آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ بات کو الجھے ہوئے انداز سے بیان کرنے کے علاوہ فلسفیوں کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کسی بھی مسئلے کو صرف بیان کرتے تھے، اُس کی توضیح کرتے تھے لیکن حل بتانے کے معاملے میں ڈنڈی مار جاتے تھے! عام آدمی کو اپنے مسائل کی تفہیم سے کہیں زیادہ اس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ اُن کا حل کیا ہے۔ ہر آدمی اوّل و آخر اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اگر دو تین گھنٹے کی بحث میں مسائل کا حل بیان نہ کیا جائے تو ایسی بحث عام آدمی کے کس کام کی؟ حقیقی مفہوم میں صاحبِ علم وہ ہے جو حالات کا تجزیہ کرے، مسائل کو تمام ممکنہ جزئیات کے ساتھ بیان کرے اور پھر یہ بھی بتائے کہ کون سا مسئلہ کس طور حل کیا جاسکتا ہے۔ ہم جس دنیا میں زندہ ہیں اُسے کسی نہ کسی حد تک جانتے ہی ہیں۔ تھوڑی سی کوشش کے نتیجے میں ہم اپنی دنیا کو سمجھ بھی لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو دنیا ہمارے خواب و خیال کا حصہ ہے‘ اُسے حقیقت کا روپ کیسے دیا جائے۔
کوئی کرکٹ ٹیم مسلسل ہار رہی ہو تو کوچ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ شکست کا تجزیہ کرنے والے خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں مگر معاملہ یہاں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ تجزیہ کرنے والوں کو خامیوں اور خرابیوں کا جائزہ لے کر اُنہیں دور کرنے سے متعلق رائے بھی تودینی چاہیے۔ یہ بھی تو بتانا چاہیے کہ ٹیم کو دوبارہ بہتر مقابلے کے لیے کس طور تیار کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ شکست کے اسباب سمجھنے سے زیادہ خود کو فتح کے لیے تیار کرنے کا ہے۔ بہت سے کاروباری ادارے محض اس لیے کامیاب نہیں ہو پاتے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں مگر کچھ نیا کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ کاروبار کی دنیا میں وہی کامیاب رہتے ہیں جو نئی سوچ اپناتے ہیں، اپنا کام نئے انداز سے کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ پرانی چیزوں کو نئی پیکنگ میں پیش کرکے بھی کامیاب رہتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو افادیت میں اضافہ کیے بغیر زیادہ بیچنا ہو تو مارکیٹنگ کے طریقوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں چمک دمک اور جدت کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ زندگی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمیں مسائل کے بارے میں زیادہ سوچتے رہنے کے بجائے اُن کے حل پر زیادہ توجہ دینا ہوتی ہے۔
ڈیوڈ راک نے اپنی کتاب ''یور برین ایٹ ورک‘‘ میں اِسی نکتے پر بحث کی ہے۔ ڈیوڈ راک آکسفرڈ یونیورسٹی بزنس سکول سمیت پانچ ممالک کی جامعات میں مہمان پروفیسر مقرر ہیں۔ وہ کوچنگ کی ایک معروف تنظیم کے سی ای او بھی ہیں۔ انہوں نے متعدد فارچیون 500 کمپنیوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ نیورو لیڈرشپ انسٹیٹیوٹ اور سمٹ کے بانی ہیں۔ اُن کی کتابوں میں پرسنل بیسٹ، کوائٹ لیڈرشپ اور کوچنگ وِد دا برین اِن مائنڈ شامل ہیں۔ ہم زندگی بھر مسائل سے ڈرتے رہتے ہیں۔ مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اُن پر خاطر خواہ توجہ دیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے مگر مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنے اور اُن سے ڈرنے میں بہت فرق ہے۔ مسائل معمولی نوعیت کے ہوں یا انتہائی پیچیدہ‘ ہمارے خوف سے زیادہ ہماری توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو مسائل یا الجھنوں سے محفوظ و مبرا نہیں رہ سکتا۔ ہم جب تک زندہ ہیں، الجھنوں کا سامنا رہے گا اور مسائل ہماری راہ میں حائل ہوتے رہیں گے۔ ہر صورتِ حال چند مسائل ضرور پیدا کرتی ہے لیکن مسائل اِس لیے نہیں ہوتے کہ اُن سے گھبراکر اُن کے آگے ہتھیار ڈال دیے جائیں بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اُن کا حل تلاش کرنے پر زیادہ توجہ اور توانائی صرف ہو۔
ڈیوڈ راک کہتے ہیں کہ ہمارا ذہن اُسی وقت بہتر انداز سے کام کرتا ہے جب ہم مسائل کے تجزیے میں الجھنے کے بجائے بہتر حل تلاش کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ مسائل کی تفہیم کے بعد ممکنہ حل کی تلاش پر توجہ دی جانی چاہیے۔ مسائل سے نمٹنے کا یہی سب سے اچھا طریقہ ہے۔ ہمارے ذہن کو مسائل میں الجھنے سے زیادہ اُن کے حل پر متوجہ رہنا ہے۔ ایسی حالت میں کام زیادہ اور آسانی سے ہو پاتا ہے۔ ڈیوڈ راک نے اپنی کتاب میں اس نکتے پر بھی زور دیا ہے کہ دنیا کو ذہن کے زاویے سے دیکھنے کی عادت پروان چڑھانی چاہیے۔ ذہن کا بنیادی کام معلومات کا تجزیہ اور حل تجویز کرنا ہے۔ دنیا کے ہر معاملے کو مسئلے کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کا ذہن زیادہ تیزی سے اور اچھی طرح کام کرے گا۔ ذہن کو معاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے جو کچھ (یعنی معلومات) درکار ہو‘ وہ فراہم کریں گے تو ذہن کو زیادہ موثر انداز سے کام کرتا پائیں گے۔ ہم ایسی بہت سی شخصیات کو اچھی طرح جانتے ہیں جنہوں نے زندگی بھر اپنے ذہن کو متحرک رکھا اور ذہن نے اُنہیں وہ سب کچھ دیا جس کی اُنہیں ضرورت تھی۔ ذہن کو بطریقِ احسن بروئے کار لانے پر توجہ دینے والوں نے ذہن کو اچھی خوراک فراہم کی تو وہ کچھ کر پایا۔ کسی بھی صورتِ حال یا مسئلے کو سمجھنے کے لیے ذہن کو چند بنیادی معلومات درکار ہوتی ہیں۔ یہ بنیادی معلومات اگر بروقت فراہم کردی جائیں اور بالکل درست ہوں تو ذہن کی کارکردگی بہتر ہوتی جاتی ہے۔
ذہن کا بنیادی کام خطرات کم کرکے نتیجے کا گراف بلند کرنا ہے۔ جب ہم ذہن کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہیں تو وہ ہماری مشکلات گھٹاکر ہمارے لیے امکانات بڑھاتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ذہن کو غیر ضروری دباؤ سے بچایا جائے۔ ذہن کو دباؤ سے بچانے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ اِس میں غیر ضروری معاملات انڈیلنے سے گریز کیا جائے۔ فی زمانہ سوشل میڈیا کے ذریعے ذہن میں بہت کچھ جاتا رہتا ہے جو وہاں پہلے سے موجود معلومات کے ساتھ مل کر معاملات کو مزید گنجلک بنادیتا ہے۔ ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے ذہن آزادی ہی نہیں، فراغت بھی چاہتا ہے۔ ذہن کو معاملات کے خلاف لے جانے کے بجائے اُن سے مطابقت پیدا کرنے پر مائل کرنا چاہیے۔ مفاہمت اور مطابقت ہی کی صورت میں ذہن بطریقِ احسن کام کر پاتا ہے اور ہمیں مطلوب نتائج ملتے ہیں۔ ایک جملے میں ''یور برین ایٹ ورک‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ذہن کی راہ میں دیوار بننے سے گریز کیجیے۔