تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     06-03-2021

یہ جھٹکا ضروری تھا

جھٹکا لگا لیکن ایسا کہ ہوش اڑ گئے۔ وزیراعظم کے خطاب میں ان کی کیفیت دیکھی جاسکتی تھی۔ ایک تو وہی تقریر جو شروع سے کرتے آرہے ہیں لیکن پہلے سے بھی زیادہ بے ربط۔ کوئی انہیں کہنے والا نہیں ہے کہ یہ ایک موضوع والی گفتگو سن سن کے لوگوں کے کان پک چکے ہیں۔ اور یہ ہیں کہ انہیں کوئی دوسری بات آتی نہیں۔ وہی پرانی رٹ کہ چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، لوٹی ہوئی دولت واپس لے کے آؤں گا اور این آر او نہیں دوں گا۔ آپ سے کون مطالبہ کررہا ہے کہ ان پرانے لیڈروں کو کوئی رو رعایت دیں۔ مقدمات نیب کے ہیں نیب کو اپنا کام کرنے دیں۔ آپ اپنے کام پہ دھیان دیں لیکن وہ آپ سے ہوتا نہیں ہے۔
تقریر میں دھرکے الزام لگا دیا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی۔ الزام تب جچتا ہے جب کوئی ثبوت بھی ہو۔ ثبوت کچھ ہے نہیں لیکن کس زور سے الزام دہرائے جارہے ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ ان کے اپنے ایم این ایز اِن سے اکتائے ہوئے ہیں۔ ملاقات ان کی وزیراعظم سے ہو نہیں پاتی۔ کام ان کے نہیں ہوتے۔ افسر شاہی ان کی بات سنتی نہیں۔ یہ موقع ان کے ایم این ایز کے ہاتھ آیا کہ اپنی بیزاری کاکچھ اظہار کر سکیں اور انہوں نے کر دیا اور جھٹکا ایم این ایز نے ایسا دیا کہ گویا بجلی کا کرنٹ لگ گیا۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں wakeup call وزیراعظم کیلئے یہ وہ ہے کہ اب بھی سنبھل جاؤاور حکومت کی کارکردگی کو کچھ بہتر کرنے کی کوشش کرو۔ ورنہ اب تو ڈر لگنے لگا ہے کہ اگلے انتخابات میں کم از کم پنجاب میں ان کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔
ایک پیج والے بھی کیا کریں۔ ان کی تمام ہمدردیاں عمران خان کیلئے تھیں۔ جو سپورٹ مہیا کرسکتے تھے انہوں نے کی‘ لیکن کارکردگی تو خان صاحب نے دکھانی تھی۔ حکمرانی اِن کی کمزور ہے۔ معاملہ فہم یہ ہیں نہیں۔ مسائل کا ادراک جو حکومت کو ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آتا۔ مہنگائی جیسے بھی پیدا ہوئی عوام اِنہیں اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔یہ چلے بھی گئے ان کی مہنگائی یاد رہے گی۔
2018ء کے الیکشن کے بعد یوں لگتا تھا اپوزیشن جماعتیں مرچکی ہیں۔ پہلے ڈیڑھ سال تو اپوزیشن کہیں نظر بھی نہیں آتی تھی۔پچھلے چھ آٹھ ماہ میں سارا قومی نقشہ بدل چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پھر سے زور پکڑ رہی ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کمزور لگ رہی ہے۔کمزور اس لئے کہ ان کی حالات پہ گرفت نہیں۔وزیراعظم میں سیاسی سوجھ بوجھ کچھ زیادہ ہوتی، ان کی حکومت کی کارکردگی کچھ بہتر ہوتی، تو کہاں سے مریم نواز نے اتنا چنگھاڑنا تھا اور کہاں سے حمزہ شہباز جیسے آدمی نے ایک نئے لیڈر کے روپ میںسامنے آنا تھا۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ یہ ن لیگ کی اگلی پود کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
جو صورتحال بن چکی ہے اس کا صحیح احاطہ تو نور جہاں کے اس پرانے گانے سے ہوتا ہے ''غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا، تمام رات قیامت کا انتظار کیا‘‘۔ عمران خان وزیر اعظم بنے تو قوم کسی قیامت کی منتظر تھی۔ سادہ لوح لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوچ بیٹھ چکی تھی کہ عمران خان آئیں گے اور زمین ہل جائے گی۔ لٹیروں کا حساب ہوگا، انصاف کا بول بالا ہو گا۔ مسائل کا ادراک ہو گا اور راتوں رات پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرنے لگے گا۔ قوم کے تصورات یا قوم کے نہیں یوں کہئے مڈل کلاسیوں کے تصورات ہمالائی تھے۔ لیکن جو نکلا ہے اس سے مڈل کلاسیوں کے دل بیٹھ گئے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ آگے ہو گا کیا۔ ڈھائی سال میں عمران خان سے کچھ ہوا تو نہیں لیکن ابھی سے تھکے ہوئے لگنے لگے ہیں۔ یہی تاثر اِن کے حالیہ خطاب سے ملتا ہے۔ بات کہنے کو کچھ تھی نہیں بس ایک لحاظ سے رونا روئے جا رہے تھے۔ اِدھر الزام اُدھر الزام لیکن اپنی نا سمجھی اور کمزوریوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں۔ اور تو اور چیف الیکشن کمشنر ان کی تائید سے چنے گئے۔ زیادہ کچھ کہنا مناسب نہ ہوگالیکن جو ن لیگ کے وسیع تر تعلقات کے بارے میں تھوڑی سی جانکاری بھی رکھتے ہیں وہ شاید اس انتخاب کی حمایت نہ کرتے۔ لیکن مردم شناسی تو یہ حکومت پہلے دن سے نہیں دکھا سکی۔ انہیں سمجھ ہی نہ تھی کہ کس کو کہاں لگانا ہے۔ ان کے چیف منسٹروں کی بات رہنے دیجئے۔ عثمان بزدار یا محمود خان کا کتنی بار ذکر کیا جائے ؟ لیکن حکومت آپ کے ہاتھ ایک طویل سفر کے بعد آرہی تھی۔جو آپ کے سیاسی حریف ہیں ان کی پنجاب میں جڑیں بہت گہری اور مضبوط تھیں۔ ہر جگہ انہیں کے پرانے وفادار لگے ہوئے تھے۔ اس صورت حال کے پیش نظرہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک مضبوط اور سیاسی طور پہ شاطر انسان پنجاب کا منصب دا ر لگتا۔لیکن آپ کی نگاہ ِکرم ٹھہری بھی تو کس پہ۔یہاں بات بھلے یا برے آدمی کی نہیں۔ بات حکمرانی کی ہے۔ کہ جس کو آپ نے چنا اس کی حکمرانی کے حوالے سے صلاحیت کتنی تھی۔ لیکن چھوڑیئے، یہ بات کتنی بار دہرائی جائے ؟
شاعر نے تو کہا تھا کہ مینا و ساغر کو کیا بدلنا،بدلنا ہے تو مے کو بدلئے۔ یہاں پہ تو بات ہی اور ہے، مے بدلنا تو دور کی بات ان سے ساغر و مینا تبدیل نہیں ہوئے۔تقریر والی بات کو ہی لے لیجئے۔ کچھ انداز بیان تو مختلف کیجئے۔ کچھ نئے تصورات اپنی گفتگو میں لائیے۔ میڈیا کاایک بڑا حصہ آپ کا ڈھنڈورچی بنا ہوا تھا، آپ کی تعریفوں کے پل باند ھ رہا تھا۔وہ ڈھنڈورچی بھی بیچارے تھک ہار کے بیٹھ گئے ہیں۔ کیونکہ وہی بات ہوئی ہے جو تاریخ میں اکثر ہوتی رہی ہے کہ کسی کو آپ نے دیوتا بنا دیا اور جب وقت آیا تو دیکھا کہ دیوتا کے پیر مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تاریخ میں پہلی بار مڈل کلاسیوں اور پروفیشنل طبقات نے کسی پہ سیاسی اعتماد کیا۔ یہ لوگ تو سیاست سے دور رہتے تھے، کبھی ووٹ ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کرتے تھے۔ عمران خان سے وابستہ امیدیں انہیں سیاست کے ریگزار میں کھینچ لائیں۔عمران خان کے مبینہ طلسم نے انہیں ووٹ ڈالنے پہ مجبور کیا۔ لیکن دو ڈھائی سال میں سب امیدیں بکھر گئیں۔ اِن مڈل کلاسیوں نے سیاست سے پھر کنارہ کشی اختیار کی تو واپس لوٹ کے نہ آئیں گے۔ سیاست کے شاہسوار پھر وہی پرانے لوگ ہوں گے، سندھ میں زرداریوں کی حکمرانی اور پنجاب میں شریفوں کی اجارہ داری۔
عمران خان سے توقعات تو یہ تھیں کہ ماڈرن سیاسی تصورات لے کے آئیں گے۔ کچھ بنیادی قسم کی اصلاحات کی طرف توجہ دیں گے۔ لیکن ان کو سن کے لگتا یوں ہے کہ ان کے پاس کوئی سیاسی خیالات ہیں ہی نہیں۔ سیاسی گفتگو میں مذہب کو لے آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی ذکر یا مذہبی حوالوںکی کوئی کمی ہے کہ آپ اسے پورا کررہے ہیں؟
بہرحال خواب بیگانگی میں رہتے ہوئے انہیں جھٹکے کی ضرورت تھی اور وہ جھٹکا انہیں لگا۔ اب تو سینیٹ کی چیئرمینی بھی داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ اُس انتخاب میں بھی ووٹنگ خفیہ ہو گی۔ خفیہ ہوئی تو پھر سے کمالات ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو منہ کہاں چھپائیں گے اور کیا عذر پیش کریں گے؟ صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے تو اس میں اندھیروں کی مدد نے کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن خود آپ سے کچھ نہ ہو تو اندھیرے کیا اجالے بھی آپ سے بیزار ہو جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved