19 مئی 2015ء کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ''گیس انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول بل 2014ء‘‘ پیش کیا تو اس کا لب لباب اس ایک سطر میں پنہاں تھا کہ ''Gas Consumers will pay Rs 100 Billion More‘‘۔ جب یہ پیش کیا گیا تو اس بل پر اپوزیشن جماعتوں‘ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی وغیرہ نے شدید احتجاج کیا مگر نواز حکومت نے اپنی ''فرینڈلی‘‘ اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بھر پور معاونت سے یہ بل فوری منظور کروا لیا۔ 15 اکتوبر 2016ء کو ایک انگریزی جریدے نے ''SSGC, SNGPL asked to collect Rs100 bn more from consumers‘‘ کے عنوان سے اس سکینڈل کا پردہ فاش کیا کہ کس طرح گیس کمپنیوں کو ایل این جی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات عوام سے وصول کرنے کا کہا گیا اور کس طرح نت نئے ٹیکسز لگا کر عوام کی جیبوں سے 100 ارب روپے نکلوائے گئے۔
گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں مہنگائی اور غریب عوام کے بچوں کی سکول فیسوں پر احتجاج کرتے نظر آئے، جبکہ اسی روز صبح پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی بھی مہنگائی کا رونا روتے دکھائی دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی‘ دونوں کے ادوارِ حکومت میں بار بار مہنگائی ہوئی اور جی بھر کے ہوئی بلکہ ایک مرتبہ تو ایسا ہوا کہ اشیائے خور و نوش کے علاوہ گھریلو استعمال کی اشیا بھی انتہائی مہنگی ہو گئیں۔ اس پر لاہور کارپوریشن کے باہر صفائی ورکرز کے احتجاجی جلوس میں لگنے والے ''سو روپے کی بوہکر، پانچ سو کی بالٹی... ہائے ہائے پیپلز پارٹی‘‘ کے انوکھے نعرے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوں گے۔
اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں قوم کو بار بار یاد دلاتی رہتی ہیں کہ ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کی بنیادی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے، علاوہ ازیں بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی اس ضمن میں خاصا کردار ادا کرتی ہیں لیکن نجانے کیا وجہ ہے کہ جب یہ جماعتیں خود اقتدار سنبھالتی ہیں تو بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں جھجکتیں۔ بجلی، گیس، تیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ آج مہنگائی کا رونا رونے والی سب جماعتوں کے ''سنہری دور‘‘ میں بھی عوام کا مقدر بنا رہا بلکہ مسلم لیگ نواز کے دور میں قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ وزارتِ خزانہ کے عائد کردہ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ سمیت نئے ٹیکس بھی عائد ہوتے رہے۔ اس سے پہلے پٹرولیم مصنوعات پر لیے جانے والے کاربن ٹیکس کا قصہ بھی سب کو یاد ہی ہو گا کہ جب عدالت نے استفسار کیا کہ یہ ٹیکس اب تک کہاں خرچ ہوا تو پیپلز پارٹی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، جبکہ کاربن ٹیکس پر سیلز ٹیکس بھی عوام ہی سے وصول کیا جا رہا تھاحالانکہ ٹیکس پر ٹیکس غیر قانونی ہے، اس پر عدالت نے اس ٹیکس کو معطل کیا تو حکومت نے اگلے ہی روز لیوی کے نام سے ایک نیا ٹیکس عائد کر دیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی مزید بات کریں تو اس دور میں بہت سے مرکزی محکموں کے فنڈز روک دیے گئے تھے جس سے ایک لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوئے تھے جبکہ قیمتیں بڑھنے اور روپے کی قدر کم ہونے اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد لوگوں پر رزق کے دروازے تنگ کر دیے گئے تھے۔ وہ دورِ حکومت آج بھی بہت سے افراد کے لیے ایک ڈرائونے خواب کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ 4 مارچ کو صبح قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر حکومت پر الزامات کے تیر برسانے والے بھول گئے کہ یہ شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف ہی تھے جن کی وزارتِ پٹرولیم اور وزارت بجلی کے ادوار میں غریب عوام پر سینکڑوں ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا سنہری کارنامہ سرانجام پایا تھا۔ درست ہے کہ ''دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘۔
دوسری طرف اس میں بھی کسی قسم کا شک یا کوئی مغالطہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں بھی ملک بھر میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر حکومت اس کی ذمہ داری عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھنے پر ڈالتی ہے تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ پوری تیاری سے میدان میں اترتی اور اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے پاس چلی جاتی تو شاید نہ ڈالر نے اس حد تک بڑھنا تھا اور نہ ہی ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا جواز پیدا ہونا تھا۔ یہ موجودہ حکومت کی ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ محض اس لئے بھگتنا پڑا کہ وزیراعظم صاحب اپنے آئی ایم ایف نہ جانے کے دعوے کے بعد کوئی فیصلہ کرنے میں شش و پنج کا شکار رہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا بھی اپنی معیشت کی بحالی کیلئے اپنے حریف چین کی مدد کے حصول پر مجبور ہو چکا ہے تو موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے میں اتنی پس و پیش سے کام کیوں لینا پڑا؟اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں مثلاً گندم اور چینی کی قیمتوں کے بڑھنے میں حکومت کی غلطیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اگر اس وقت اپوزیشن جماعتوں کا حافظہ کمزور ہو چکا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں علم ہے کہ عوام کا حافظہ ان سے بھی زیا دہ کمزور ہے اور یہ ہمیشہ اسی دیوار کے نیچے بیٹھنا اور کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں جس کے ملبے تلے پہلے بھی کئی بار دب چکے ہیں۔ اگر مشرف حکومت اور میاں نواز شریف کے ''سنہری دورِ حکومت‘‘ کا موازنہ کیا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ لیگی حکومت نے عوام سے کسی چیز کا بدلہ لیا ہے۔ نت نئے ٹیکسز، ملکی قرضے کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دینا اور ملکی جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد سے زیادہ کا قرض لے لینا، بھاری سودی معاہدے اور اکائونٹ خسارے میں افسوس ناک حد تک اضافہ اور سب سے بڑھ کر 'ڈنگ ٹپائو‘ پالیسیاں، اگر عوام کو یہ سب یاد رہتا تو آج یہ لیڈران عوام کی حالتِ زار کا ماتم کرتے دکھائی دیتے؟ مشرف دورِ حکومت میں گندم 700 روپے من تھی، مگر نجانے کیا وجہ بنی کہ پنجاب میں مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالتے ہی یکدم چھلانگ لگاتے ہوئے گندم کی قیمتیں بارہ سو روپے من کر دیں۔ گندم کے بعد ہر گھر میں چاول سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے، جو مشرف دور میں 70 روپے کلو تک تھا، مگر لیگی دورِحکومت میں چاول کی قیمت بڑھا کر 110 روپے فی کلو کر دی گئی۔ اسی طرح بجلی کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت بجلی پانچ سے سات روپے فی یونٹ تھی لیکن آج عمران خان حکومت پر مہنگائی کا ملبہ ڈالنے والے اور غریبوں کی دہائیاں دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں دو گنا اضافہ کیسے ہوا؟ اگر چینی کی ہوشربا قیمتوں کی بات کریں تو یہ اس ملک کے عوام پر سب سے بڑا بوجھ ہے جسے ہر دور میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اگر آج چینی مہنگی ہونے سے تحریک انصاف کے اراکین کی شوگر ملوں کو فائدہ پہنچنے کی باتیں کی جا رہی ہیں تو سب سے زیادہ شوگر ملیں تو دو بڑے سیاسی خاندانوں کی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج غریبوں سے ہمدردی جتانے والے اور ان کو پہنچنے والی تکالیف پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والوں کے اپنے دورِ حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ وہ آٹا جو مشرف دورِ حکومت میں 18 روپے کلو تھا‘ نواز لیگ دور میں بڑھ کر 40 روپے فی کلو تک پہنچ گیا تھا۔ اگر ڈالر کی بات کریں‘ جس کے متعلق کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس کے اتار چڑھائو سے ہی مہنگائی کی شرح متاثر ہوتی ہے تو پھر یہ تسلیم کرتے ہوئے زبان کیوں لڑکھڑا جاتی ہے کہ ڈالر جو مشرف حکومت میں چالیس سے ساٹھ روپے تک رہا‘ مسلم لیگ کی حکومت میں 122 تک پہنچ چکا تھا اور اب خیر سے ایک سو ساٹھ روپے پر پہنچ چکا ہے۔ لیگی رہنمائوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ مشرف حکومت میں لاہور سے کراچی تک کا جو فضائی کرایہ پانچ ہزار روپے تھا وہ یکایک بڑھ کر بارہ ہزار تک جا پہنچا‘ تو اس کے پیچھے کون سے سیاستدان کی فضائی کمپنی تھی۔ مہنگائی کی بات کریں‘ ضرور کریں مگر اس کی آڑ میں حقائق کو مسخ نہ کریں۔