ہفتے کی صبح کو جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد میں دو، اڑھائی گھنٹے باقی ہیں۔ ارکان اپنے ایوان میں جمع ہوں گے، اور وزیر اعظم عمران خان کے حق میں پیش کی جانے والی تحریک اعتماد پر ووٹ ڈالیں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی یہ قرارداد پیش کریں گے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد اِس وقت 340 ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 171 ارکان نے شاہ محمود قریشی کی ہاں میں میں ہاں ملائی تو وزیر اعظم عمران خان اپنے عہدے پر برقرار ر ہیں گے۔ اگر مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کیے جا سکے تو پھر وہ اپنے اعلان کے مطابق اپوزیشن بنچوں پر آ بیٹھیں گے، اور قومی اسمبلی کو (بعد ازاں) اپنا نیا قائد چننا پڑے گا۔ عمران خان کی سیاست ایک نیا موڑ مڑ جائے گی۔ انہوں نے دو عشروں کے لگ بھگ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا ہے، اور حکومتوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اپوزیشن ان کے مزاج میں اتنا رچ بس گئی ہے کہ بہت سے مبصرین کے بقول انہوں نے وزیر اعظم کے طور پر بھی اپنی اپوزیشن کی اپوزیشن پر زیادہ توجہ دی ہے، اور اس حوالے سے اپنا کردار کمزور نہیں ہونے دیا۔ انتخابی مہم کے دوران جس طرح اپنے حریفوں کے لّتے لیتے، اور ان کے خلاف چومکھی لڑتے رہے، اُسی طرح کی محاذ آرائی، انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی جاری رکھی ہے۔ ان کے بعض مداح اس حوالے سے اپوزیشن کو بھی ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں کہ اس نے اول روز ہی سے ان پر پھبتیاں کسیں، اور وہ احترام دینے سے انکاری رہی جو قائدِ ایوان کا استحقاق ہے۔ وزیر اعظم جو بھی ہو، عوام ہی اُس کی طاقت ہوتے ہیں، وہ انہی سے ووٹ لے کر اِس منصب تک پہنچتا ہے، اور پارلیمانی سیاست میں اُس کا کردار مرکزی سمجھا جاتا ہے۔ ہر ادارے اور ہر منصب دار کو اس کا احترام اور اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ صدرِ مملکت بھی پروٹوکول میں اولیت کا شرف رکھنے کے باوجود اس کی مشاورت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب مسلسل بحرانوں اور طوفانوں کی زد میں رہا ہے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان‘ جو کہ تحریک پاکستان کے نامور رہنما تھے‘ گولی لگنے سے شہید ہوئے۔ انہوں نے چار برس تک اس منصب کو رونق بخشی۔ اس کے بعد کسی وزیراعظم کو چین نصیب نہیں ہوا۔ عہدے کی میعاد لشٹم پشٹم پوری کر لی، تو بھی اطمینان و سکون کی تلاش میں وہ سرگرداں ہی رہا۔ 1958ء کے مارشل لا نے آ کر اس منصب ہی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ ایک ایسا دستور قوم پر مسلط کیا گیا، جس میں وزیراعظم کا منصب ہی نہیں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا وزیراعظم بھی موجود ہے، جس کی نامزدگی کا اعلان تو ہوا لیکن اسے حلف اٹھانا نصیب نہ ہو سکا۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔ اس وقت کے فوجی صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے انہیں وزیراعظم بھی قرار دے دیا، لیکن اس اسمبلی کا اجلاس ہی منعقد نہ ہو پایا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا، نتیجتاً ملک دولخت ہو گیا۔ مغربی پاکستان کو نیا پاکستان قرار دے کر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم وزارتِ عظمیٰ کا منصب حاصل کر گزرے، 1973ء میں ایک متفقہ آئین بھی تشکیل دے دیا گیا۔ انہوں نے پانچ سال پورے بھی کر لیے، لیکن انتخابات میں دھاندلی کا الزام ان کو لے ڈوبا۔ بذریعہ مارشل لا ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے، وزیراعظم کا منصب انہی پانیوں میں ہے۔
اِس وقت دو ایسے سابق وزرائے اعظم پاکستان کو میسر ہیں، جو عدالتی حکم ناموں کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے رخصت کیے گئے۔ یوسف رضا گیلانی توہین عدالت کے مرتکب قرار پائے تو نواز شریف دستور کی دفعہ 184(3) کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کا جو اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے، اس کے ذریعے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو گئے۔ سینیٹ کے انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے اپوزیشن کو نیا حوصلہ دیا ہے، جبکہ حکومت کو ہلا ڈالا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس اسی مقصد کے لیے طلب کر لیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم کے خلاف رائے کا اظہار کرنے کے لیے کوئی شخص ایوان میں نہیں تھا۔ مبصرین کی اکثریت اِس بات پر متفق ہے کہ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیں گے، اور ان کی ڈولتی کشتی ایک بار پھر سیاست کے سمندر میں رواں دواں ہو جائے گی۔ وزیر اعظم کی یہ کامیابی بھی ان کی مشکلات میں شاید کمی نہ کر سکے۔ حریفان سیاست ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہیں، اور پاکستانی سیاست کا یہ المیہ ایسا ہے کہ جو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے اتحادی ایک سیاسی حقیقت ہیں، ان کا ووٹ بینک موجود ہے، ان کے مداح گلی گلی پائے جاتے ہیں، اور اُن کے لیے نعرہ زن ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن اپنی حیثیت اور طاقت رکھتی ہے، اس میں شامل جماعتیں اپنا حلقہ انتخاب رکھتی ہیں، اور ان کی حمایت میں سرشار مرد و زن بھی گوشے گوشے میں موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ہوں یا اپوزیشن کے خان بہادر، دونوں میں سے کسی کے پاس بھی ویٹو نہیں ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھنا اور اسے نبھانا ہو گا۔ اگر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے شخص کی تنہا پرواز ممکن نہیں ہو سکی، اگر وزیراعظم نواز شریف کی قومی اسمبلی میں عددی اکثریت ان کی مشکلات کا ازالہ نہیں کر سکی، تو وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں چند ووٹوں کی اکثریت سے کیسے چین کی بانسری بجا سکیں گے۔ جمہوریت ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا نام ہے، ایک دوسرے کے احترام کا نام ہے، ایک دوسرے سے مکالمے کا نام ہے۔ یک طرفہ ٹریفک جو بھی چلائے گا، حادثے اس کے تعاقب میں رہیں گے۔ وزیراعظم پر اعتماد کے اظہار کے بعد بھی یہ حقیقت وہیں ہے، جہاں رائے شماری سے پہلے تھی۔
ارشاد نامہ
پاکستان کے سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی خود نوشت ''ارشاد نامہ‘‘ پاکستانی سیاست، عدالت اور صحافت کے لیے توجہ طلب ہے۔ تین سو دس صفحات کی اس کتاب میں بہت کچھ ایسا موجود ہے جس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ چیف جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھا کہ چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی مرحوم فوجی حکم کے تحت از سرِ نو حلف اٹھانے پر تیار نہیں تھے۔ جب اس مارشل لا کو چیلنج کیا گیا تو فل کورٹ نے انہی کی سربراہی میں اس درخواست کی سماعت کی، اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو سندِ جواز عطا کر دی۔ انہوں نے جنرل ضیاالحق کے دور میں فیصلہ کیے گئے نصرت بھٹو کیس میں اضافہ یہ کیا کہ جنرل پرویز مشرف کو تین سال کے اندر انتخابات کا انعقاد کرنے کا پابند کر دیا، نتیجتاً جمہوری عمل کا ازسر نو آغاز ممکن ہوا۔ تاریخ کے واقعات اور مختلف عدالتی فیصلوں کے بارے میں ہر شخص اپنی رائے رکھنے کا مجاز ہے، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بعض فیصلوں نے ہماری اجتماعی زندگی کو بڑی شدت سے متاثر کیا ہے۔ جسٹس ارشاد حسن خان نے بھی اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے فراست اور مہارت کا زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ان کی خود نوشت کو توجہ سے پڑھا جائے گا۔ ماضی کو زندہ تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے دہرانے سے گریز کرنے کا عہد تو کیا جا سکتا ہے کہ ماضی سبق حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے، بار بار دہرانے کے لیے نہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)