تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     07-03-2021

پاوری سفارت کاری

ایسا لگتا ہے جیسے کوئی توہین سرزد ہوگئی ہو۔ ایک بھارتی موسیقار‘یشراج مکھتے نے پاکستانی 'پاوری گرل‘ کی ویڈیو کی موسیقی بنائی۔ کیا اُس پر پابندی لگادی گئی ؟ نہیں‘ اُسے گرفتار کرلیا گیا ؟ نہیں۔ سماجی بائیکاٹ ہوا؟ نہیں۔ اُس کی مذمت کی گئی ؟ نہیں۔ ممکن ہے کہ میں قبل ازوقت بات کررہی ہوں‘ لیکن ابھی صرف دو ہفتے ہوئے ہیں اور یہ ویڈیو بھارت کے تمام چینلز‘ فیس بک اوریوٹیوب پر غائب ہوچکی ہے اور بھارت میں ''پشراج کو گرفتار کیا جارہا ہے‘‘کاٹرینڈ لاکھوں میں ہے ۔ یہ ناقابل ِیقین دکھائی دیتا ہے ۔ امید رکھیں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر بھارت میں تاخیر سے ردعمل آتا ہے تو بھی اسے خیر کی خبر ہی سمجھنا چاہیے ‘ خاص طور پر اُس ماحول میں جب بھارت یہ طے کرچکا ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی ہر چیز کو مسترد کیا جائے گا‘ اسے شہریوں کے ذہنوں میں جگہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔بھارت میں پاکستان سے نفرت کے بیج اتنے گہرے بودیے گئے ہیں کہ لبرل اور ذہین افراد کے ذہن بھی اس سے متاثر ہوچکے ہیں ۔
بھارت کی نیشنل سکیورٹی پالیسی پاکستان کے ساتھ نفرت‘ الزام اور پابندی کے گرد گھومتی ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی بھی سطح پر سفارتی ردعمل ناممکن ہوجاتا ہے ۔ یورپی یونین کی ڈس انفولیب رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو ایک ''دہشت گرد ریاست‘‘ قرار دینے کے لیے بھارت کتنی محنت‘ رقم اور کوشش استعمال کرتا رہا ہے ۔ اور یہ سلسلہ دو عشروں سے جاری ہے۔ اچھے وقتوں میں پاکستانی اور بھارتی کھیل ‘ موسیقی اورثقافت کے نام پر اکٹھے ہوئے ہیں ۔ کچھ وقت کے لیے دشمنی‘ جنگوں اور اموات کو بھلا دیا گیا ‘ تاہم مودی سرکارکی مرکزی سٹریٹجی جارحیت کے ذریعے بالا دستی قائم کرنا ہے ۔ اس کا اظہار نہ صرف بالاکوٹ حملے کی صورت میں ہوا بلکہ ہر ہفتے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے ۔دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان جنگ بندی کا عزم بھولی بسری یاد کی طرح ہے ۔ مودی کی توسیع پسندفطرت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کورونا وبا کے دوران بھی اُنہوں نے چینی علاقے پر قبضہ کرنے اور نیپال اور بھوٹان پر دھونس جمانے کی کوشش کی ۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے ''لوگوں کی طاقت طاقتو ر لوگوں سے بڑھ کر ہوتی ہے ‘‘یہی وجہ ہے کہ نرم طاقت کا اثر طاقت کے استعمال سے زیادہ ہوتا ہے ۔ نرم طاقت کی سفارت کاری اَنا اور سرحدوں سے ماورا ہوتی ہے ۔ ''پاوری ہورہی ہے ‘‘ کا بھارت اور پاکستان میں مشترکہ ٹرینڈ ظاہرکرتا ہے کہ جب کوئی چیز عوام کے دل و دماغ کو مسخر کرلیتی ہے تو کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی ۔ نرم طاقت بھی سفارتی عوامل رکھتی ہے ۔ آئیے کچھ ایسے عوامل کا جائزہ لیں جنہیں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے :
1۔ ڈیجیٹل سفارت کاری۔ یہ ورچوئل دنیا ہے ۔ کوویڈ وبانے آن لائن کام کو ایک حقیقت بنا دیا ۔ گھر سے کام کرنا‘ ہوم ڈلیوری‘ آن لائن میٹنگ‘ زوم پر ملاقاتیں اب معمول بن چکی ہیں ۔ اس پیش رفت نے فاصلہ ختم کردیا ۔ گھر پر رہتے ہوئے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر دوسروں سے رابطے بنائے اور بڑھائے ۔ پاوری گرل ویڈیو سرحد کے دونوں طرف ہر عمر کے افراد میں مقبول ہوئی ۔ فلمی ستاروں سے لے کر کرکٹ کے کھلاڑیوں تک ہر کوئی ''پاوری‘‘ کرتا دکھائی دیا ۔ عام طور پر بھارتی اداکار اور مشہور شخصیات پاکستانی مواد سے گریز کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں لیکن مودی کے پھیلائے خوف کے باوجود دپیکا پڈکون ‘شاہد کپور اور رتیش دشپانڈے نے انسٹاگرام پر اپنی ''پاوری‘‘شیئر کی ۔ اترپردیش کی پولیس نے بھی پاوری کو اپنے اشتہار میں استعمال کیا ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی وسیع پسندیدگی نے مودی سرکار کوپریشان کردیا کہ اس سے کیسے نمٹیں ؟ اگر دونوں ممالک کے درمیان رابطے کی بات کی جائے تو دونوں ایک ہی زبان بولتے ہیں ۔ دونوں کے ہاں انگریزی کا 'حشر‘ بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بے ضرر سی ویڈیو نے خوشی کے متلاشی بر صغیر کے عوام کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ایک ڈیجیٹل پلیٹ فورم MemeFest کے ذریعے دونوں ممالک کے افراد کو مل کر باہمی دلچسپی کے موضوعات پر memesتخلیق کرنے کی دعوت دی جا سکتی ہے ۔ اس پر عوام کی رائے لی جاسکتی ہے ۔ ایس سرگرمیاں بھارتی حکومت پر جارحیت کی آنچ دھیمی کرنے کے لیے دبائو ڈالیں گے ۔
2۔ کھیل کود کی سفارت کاری۔ دونوں ممالک کو قریب لانے میں کرکٹ ڈپلومیسی کا بہت بڑا کردارہے ۔ اسی وجہ سے پرویز مشرف نے 2005 ء میں بھارت کا دورہ کیا ۔ درحقیقت ویرات کوہلی بھی 'پاوری گرل‘ کا memes استعمال کر گزرے ۔ اگلا عالمی کپ رواں برس بھارت میں کھیلا جارہا ہے ۔ اگر یہ پاکستان میں ہوتا تو بھارت یہاں نہ آتا۔ پاکستان نے بی سی سی آئی سے اپنے کھلاڑیوں ‘ سٹاف اور شائقین کو ویزا اور تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی چاہی ہے ۔ اگر یقین دہانی کرائی جاتی ہے تو اس سے برف پگھلنے کے امکانات ہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ دنیا میں اس سے طاقت ور تاثر کیا ہوسکتا ہے جو پاکستانی شائقین ویرات کوہلی کو قذافی سٹیڈیم میں اور بھارتی شائقین بابر اعظم کو فیروز شاہ کوٹلہ میں کھیلتے دیکھ کر محسوس کریں ۔
3۔ تارکین ِوطن کی سفارت کاری: ایک اور مؤثر پلیٹ فارم بیرونی ممالک ‘ جیسا کہ امریکااور برطانیہ میں مقیم پاکستانی اور بھارتی باشندے ہیں ۔ وہ پرامن طریقے سے مل کر رہنے کی مثال قائم کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی پروفیشنل ایسوسی ایشن کو ایک تحریک کی ضرورت ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک کو قریب لایا جاسکے ۔ یہاں ایک بار پھر سوشل میڈیا کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ کوویڈ کے دنوں میں زوم میٹنگز نے دور رہنے والوں کو بھی اکٹھا کردیا ۔ فورمز کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بحث و مباحثے کا آغاز کرنا چاہیے کہ اس عالمی وبا نے کس طرح ممالک کو اکٹھا ہونے پر مجبور کردیا ہے ۔
4۔ مذہبی سفارت کاری۔ کرتارپور راہداری نے بھارت کی سکھ برادری کے ساتھ حیرت انگیز روابط قائم کیے ہیں ۔ کٹاس راج اور دیگر مقامات پر ہندو مندروں کی بحالی کا کام جاری ہے ۔ اس سفار ت کاری کو توسیع دینے کی ضرورت ہے ۔ اس سے بھارت پر دبائو آئے گا کہ وہ بھی اس خیرسگالی کا جواب دے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ناممکن دکھائی دے ۔ مودی تہیہ کرچکے ہیں کہ کشمیر اور بھارت میں اقلیتوں کو دبائے رکھنا ہی واحد حل ہے ‘ انہوں نے اس کے لیے یہ جواز گھڑ رکھا ہے کہ بھارتی پاکستان سے نفرت کرتے ہیں اورہندوتوا بالادستی کے خواب میں معاشی ترقی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ کورونا وبا کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے اور اس کی وجہ سے تباہی ہونے کے باوجود مودی کی مقبولیت 70 فیصد سے زیادہ رہی ‘ اس کی وجہ چین اور پاکستان مخالف مہم جوئی کے کھولتے ہوئے جذبات ہیں ‘ مگر دہلی میں طلبااحتجاج کے بعد اب کسانوں کے احتجاج کا حکومت پر سخت دبائو ہے ۔ اس احتجاج کی حمایت کرنے والی گلوکارہ ریحانہ کے خلاف بھارتی حکومت نے ردعمل دیااور اس کا ٹوئٹر اکائونٹ معطل کردیا گیا۔ اس سے مغربی دنیا میں اشتعال پیدا ہوا۔
بھارت اور بھارتیوں کو انسانی اقدار اپنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ تبدیلی صرف اس صورت ممکن ہوسکے گی جب سرحد کے دونوں طرف سے ایک مشترکہ کمیونٹی قدم بڑھائے اور آوازاتنی بلند کرے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ''پاوری ہورہی ہے‘‘ فیشن نئی قسم کی سفارت کاری کاراستہ کھول رہا ہے ۔ یہ نہ تو بیک ڈور سفارت کاری ہے اور نہ ہی فرنٹ ڈور‘ یہ ساتھ ساتھ چلنے والے رابطے ہیں ۔ ایسی سفارت کاری ماضی کی سیاسی اور قانونی رکاوٹوں سے گزر کر بنیادی انسانی جبلت کو بے ضرر لطف سے آشنا کرتی ہے ‘ اور سب مل کر ''پاوری‘‘ کرتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved