تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     09-03-2021

ٹینشن

ذرا ذہن پر زور دیں آپ نے ٹینشن کا لفظ پہلی مرتبہ کب سنا تھا۔ زیادہ تر لوگ یہی جواب دیں گے کہ بیس یا تیس سال قبل۔ اس سے پہلے ٹینشن یعنی دبائو اور پریشانی تو ہوتی تھی لیکن یہ لفظ اتنا عام نہ تھا جتناآج ہے۔ٹینشن کیوں ہوتی ہے اور اس کا علاج کیا ہے یہ تو ماہر ڈاکٹر ہی بتاسکتے ہیں لیکن بظاہر اس کی وجوہات میں معاملات زندگی میں توازن کا بگڑ جانا‘حالات اور واقعات ‘بیماریاں‘حسد‘لالچ‘غلط فیصلے وغیرہ شامل ہیں۔ زندگی کا توازن بھی تبھی بگڑتا ہے جب آپ ایک حد کو کراس کرتے ہیں۔میانہ روی میں رہیں اور اعتدال کا مظاہرہ کریں تو توازن کبھی نہیں بگڑتا۔ پھر کچھ لوگوں کو ویسے بھی ٹینشن میں رہنے کی عادت ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ دوسروں کو ٹینشن دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔
آج کے دور میں ٹینشن بڑھنے کی ایک وجہ تو ٹیکنالوجی اور انفوٹینمنٹ کا سیلاب ہے اور دوسرا ہمارا لائف سٹائل ‘لیکن یہ لائف سٹائل بھی انہی مادی چیزوں کی وجہ سے تباہ ہوا۔ماضی میں گھروں میں ٹی وی اور دیہات میں زیادہ سے ریڈیو ہوتا تھا۔ ٹی وی پر بھی ایک دو چینل ہی آتے تھے اور نشریات کا وقت بھی محدود تھا۔ لوگ البتہ رات آٹھ بجے کا ڈرامہ اور نو بجے کی خبریں ضروردیکھتے تھے۔ ان ڈراموں کا معیار آج کے ڈراموں سے کہیں عمدہ تھا۔ پھر خبروں کا بلیٹن۔ وہ بھی بغیر کسی سنسنی خیزی کے۔ الیکٹرانک گیجٹ نہ ہونے کے برابر تھے جس کی وجہ سے بچوں اور بڑوں سبھی کا کتب بینی‘ اخبارات اور رسائل کا رجحان زیادہ تھا۔ ٹی وی کم دیکھنے کی وجہ سے لوگوں کی نظریں بھی کمزور نہیں ہوتی تھیں اور کتابیں وغیرہ پڑھنے سے دماغوں کو زنگ نہیں لگتا تھا۔ اس وقت کی تحریریں بہت پراثر تھیں۔ لوگ اچھی تحریروں کی کٹنگ تک سنبھال کر رکھتے تھے۔ سب ایک دوسرے کے قریب تھے۔ ایک دوسرے کی کی بات سنتے تھے۔ وقت دیتے تھے۔ لائٹ چلی جاتی تو ایک کمرے میں اکٹھے ہو کر باتیں کرتے۔ یو پی ایس کی وجہ سے اب لائٹ جانے کا پتہ نہیں چلتا یوں اکٹھے ہونے کا بہانہ بھی ختم ہوا۔ سہولیات جتنی زیادہ ہوئیں‘ فاصلے اتنے ہی بڑھ گئے۔ اب تو دیہاتی اور شہری زندگی کی تفریق بھی ختم ہو رہی ہے۔ جرائم بھی کم تھے۔ انٹرنیٹ کے آنے سے نئی نسل موبائل فون میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ جب ٹی وی وی سی آر کا زمانہ تھا تو اس میں بھی وقت ضائع کیا جاتا تھا لیکن محدود پیمانے پر۔ موبائل فون میں ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز نے کم پڑھے لکھے افراد کو پیسے کمانے کے موقع تو فراہم کر دیے ہیں لیکن اخلاقیات اور تہذیب کا جنازہ نکل گیا ہے۔ پھر بیہودہ اور فحش حرکتیں اور باتیں کرنے والوں نے بھی سوشل میڈیا پر ڈیرہ جما لیا ہے۔ سٹیج ڈراموں میں جو ذو معنی جملے بولے جاتے تھے یہاں کھلم کھلا فحاشی پھیلائی جا رہی ہے ‘اسے مانیٹر کرنے والا بھی کوئی نہیں۔سٹیج ڈرامے تو پھر کسی انتظامیہ کے تحت ہوتے تھے اور اس کی شکایت کی جا سکتی تھی لیکن انٹرنیٹ پر تو گندگی کا سیلاب روکنے کو کوئی تیار ہے نہ کسی کے بس کی بات۔ نئی نسل کے کچے ذہنوں کے لئے یہ سب کسی کٹھن امتحان سے کم نہیں۔پھر لائف سٹائل کی تباہی اور ٹینشن کی آمد میں رات گئے تک کھابوں کے رواج نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لوگوں کی صحتیں برباد ہو گئی ہیں لیکن وہ رات دس بجے سے پہلے کھانا نہیں کھاتے اور کھا کر فوراً سو جاتے ہیں۔ جدید ممالک جنہیں ہم بڑا فالو کرتے ہیں لیکن ان کے لائف سٹائل پر عمل نہیں کرتے‘ وہاں رات کا کھاناچھ سات بجے تک کھالیا جاتا ہے۔ شام چھ بجے شاپنگ سٹور بھی بند ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں لوگ شاپنگ اور کھانا کھانے کے لئے آٹھ نو بجے نکلتے ہیں یوں جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اسی لائف سٹائل کی وجہ سے نہ صرف ٹینشن کی بیماری عام ہو چکی ہے بلکہ یہ بیماری آگے مزید چار پانچ بیماریاں کھڑی کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ان میں بلڈ پریشر‘ شوگر اور ہارٹ کی بیماریاں شامل ہیں جن کا ہر دوسرا تیسرا بندہ شکار ہو چکا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ سب سے پہلے لائف سٹائل تبدیل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ساتھ میں بتاتا ہے کہ ادویات بھی تبھی اثر کریں گی جب معمولات زندگی میں توازن آئے گا۔ بعض لوگ صرف اپنے معمولات ٹھیک کرتے ہیں تو ان کی صحت میں بہتری آ جاتی ہے۔معمولات زندگی کی بہتری اورٹینشن کا بہترین علاج باوضو رہنا ہے۔اسی طرح نمازوں کا اہتمام کرنا‘روزانہ قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھنا‘ حدیث اور اقوال زریں پڑھتے رہنا بھی آسودگی دیتا ہے۔نیند پوری کرنا انتہائی اہم ہے۔ پیدل چلنا یا ورزش کرنا بھی ضروری ہے چاہے کم وقت کیلئے ہی سہی۔ سب سے اہم بات اپنی نظروں کی حفاظت ہے۔ اس کے لئے ٹی وی انتہائی کم دیکھنا چاہیے۔جبکہ موبائل فون پر سوشل میڈیا سے ممکن حد تک دور رہا جائے۔ جتنا وقت ملے کتابیں رسالے پڑھے جائیں۔ اچھی کتابیں دماغ کی غذا ہوتی ہیں۔ رات کو سرہانے کوئی سفر نامہ ٹائپ ہلکی پھلکی کتاب ضرور رکھیں۔ سونے سے پہلے دس بیس صفحے بھی پڑھیں گے تو ایک دو ہفتوں میں کتاب ختم ہو جائے گی۔ٹینشن سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسے کاموں اور اصحاب کی فہرست بنا لیں جن کی وجہ سے آپ اس کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان سے جتنا بچ سکتے ہیں بچیں۔اپنی ان عادات پر غور کریں جن کی وجہ سے آپ کو ذہنی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات انتہائی چھوٹی چھوٹی باتیں اور عادات غیر محسوس انداز میں انسان کے دماغ کو کچوکے لگا رہی ہوتی ہیں۔ کام کو بلاوجہ طول دینے سے بھی ٹینشن بڑھتی ہے۔ قرضوں سے جتنا بچ سکتے ہیں بچیں۔ کیونکہ قرضے اگر سود پر لئے جائیں تو وہ ویسے ہی بندے کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔تھوڑے میں خوش رہنا سیکھیں۔ دوسروں کی چیزوں اور مال پر نظر رکھنے اور جلنے کڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ نے ہر شخص کی قسمت میں جتنا لکھا ہے اسے مل کر رہنا ہے۔ بندے کا کام کوشش کرنا ہے۔ اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ دوسروں کی ٹانگیں کاٹی جائیں۔جتنا زور دوسروں کو دبانے میں لگائیں گے اس سے آدھا خود کو اٹھانے میں لگانے سے آپ اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ موت کو یاد رکھیں۔ ہر کام آخرت کو ذہن میں رکھ کر کریں۔ سوچیں آپ سے پہلے کتنے آئے کہاں چلے گئے آپ نے کہاں چلے جانا ہے۔ یہ باتیں آپ میں تقویٰ پیدا کریں گی۔ مال و زر کا ہوس کم ہو جائے گا۔ ٹینشن سے بچنے کے لئے ہر طرح کی دعائیں پڑھیں۔ اللہ کے نام روزانہ دہرائیں۔ پرسوز تلاوت سنیں۔چھوٹے چھوٹے صدقے دیں۔ چاہے مال کی صورت میں یا اچھا مشورہ یا بات شیئر کر کے۔کھانا جینے کے لئے کھائیں نہ کہ کھانے کے لئے جئیں۔ دوسروں سے مقابلے کرنے چھوڑ دیں۔جو مانگیں اللہ سے مانگیں۔ اگر وہ کسی اور کو دے رہا ہے تو آپ کو بھی دینے پر قادر ہے۔ اپنی لائن اور اپنی سمت اس جانب کریں جہاں سے اربوں انسانوں کا رزق چلتا ہے۔کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو معافی معانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ معذرت کرنے میں فراخدلی اور پہل کا مظاہرہ کرنے والے لوگ بہت ترقی کرتے ہیں۔اپنی غلطی تسلیم کرنا کوئی ہار یا شرمندگی کی بات نہیں۔ بلکہ یہ آپ کا قد اور آپ کی عزت بڑھاتی ہے۔جبکہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور اپنی انا میں پھنس جانے والا زندگی کی دلدل میں اتر جاتا ہے۔ اچھے دوست بنائیں اور برے دوستوں سے الجھنے کی بجائے اپنا راستہ الگ کر لیں۔بعض لوگ لائف سٹائل بدلنے کا مطلب صرف ورزش سمجھتے ہیں۔ وہ جوگنگ مشین لے آتے ہیں جو دو تین ہفتوں بعد مٹی میں رُل جاتی ہے۔ ٹینشن کا خاتمہ اور لائف سٹائل میں بدلائوکسی مہنگے جم جانے‘ مہنگی جوگنگ مشین لانے‘غذائی کیلوریز کے شیڈول بنانے سے نہیں بلکہ اوپر بیان کردہ باتوں اور معمولات کو اپنانے سے آئے گا۔ یاد رکھیں کہ بلاوجہ ٹینشن لینے سے کسی کا نہیں بلکہ آپ کا اور آپ کے قریبی فیملی ممبرز کا ہی نقصان ہے‘ کسی کا کچھ نہیں جائے گا۔ اس لئے کوشش کریں تو ٹینشن کو ہرانا مشکل نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved