تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-03-2021

سُرخیاں‘ متن، موسمِ خوش رنگ اور ادریس بابر

ہرجگہ تبدیلی آ رہی ہے، یہ سلسلہ
رُکے گا نہیں: سردار ایاز صادق
سابق سپیکر قومی اسمبلی اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''ہر جگہ تبدیلی آ رہی ہے، اب یہ سلسلہ رُکے گا نہیں‘‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی کا نعرہ پی ٹی آئی حکومت کا تھا اور جو بھی تبدیلی آئی وہ اسے اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرے گی جیسے ہر آنے والی حکومت سابق حکومت کے مکمل کئے گئے منصوبوں پر اپنی تختیاں لگا دیتی ہے بلکہ ان کا دوبارہ افتتاح بھی کر دیتی ہے، اس لئے اس صورت حال سے بچنے کے لئے کوئی مناسب انتظام کرنا پڑے گا تا کہ ہماری لائی ہوئی تبدیلیوں پر حکومت اپنی تختیاں نہ لگاسکے وگرنہ ہمارے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا جو ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفت و شنید کر رہے تھے۔
اعتماد کا ووٹ تازہ ہوا کا جھونکا ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اعتماد کا ووٹ تازہ ہوا کا جھونکا ہے‘‘ لیکن چونکہ ابھی سردی کا موسم ختم نہیں ہوا اس لئے ہوا بھی بے حد ٹھنڈی ہے اور ٹھنڈ لگ جانے کا خطرہ بھی ہے، اس لئے اس پر زیادہ خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سردی لگنے سے نمونیا وغیرہ کی شکایت بھی ہو سکتی ہے ۔ اس لئے بہتر تھا کہ اعتماد کا ووٹ چند روز ٹھہر کر لے لیا جاتا تاکہ ٹھنڈ وغیرہ لگنے کا احتمال نہ ہوتا اور اس کی باقاعدہ خوشی منائی جاتی؛ تاہم اب بھی اگر اس سے بچ گئے ہیں تو یہ ہمارا بونس ہے جبکہ ویسے بھی سب بونس پر ہی چل رہا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت ذاتی مفاد نظرآتے ہی اصولوں
کو نالے میں پھینک دیتی ہے: ا حسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت ذاتی مفاد نظر آتے ہی اصولوں کو نالے میں پھینک دیتی ہے‘‘ جبکہ ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا، ہم ذاتی مفاد نظر آنے پر اصولوں کو نالے میں نہیں بلکہ اِدھر اُدھر پھینک دیا کرتے تھے کیونکہ ہمیں اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اس طرح نالے کی روانی رُک جاتی ہے ا ور وہ بند ہو جاتا ہے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اس لئے نالوں کو بند کرنے کی کوئی بھی کوشش مستحسن قرار نہیں دی جا سکتی ورنہ بہتر تو یہ ہے کہ بندنالوں کو کھولا جائے نہ کہ چلتے ہوئے نالوں میں کوڑا کرکٹ پھینک کر انہیں بند کر دیا جائے۔ آپ اگلے روز نارووال میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اعتماد کے ووٹ سے وزیراعظم نے اپنی
اخلاقی قوت کو ثابت کر دیا: فواد چودھری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چودھری فواد احمد نے کہا ہے کہ ''اعتماد کے ووٹ سے وزیراعظم نے اپنی اخلاقی قوت کو ثابت کر دیا‘‘ بلکہ کارکنان نے بھی اپنے طور پر اپنی اخلاقی قوت کو ثابت کر دیا تھا اور اخلاقی قوت کی یوں سمجھیے کہ بھر مار ہی ہو گئی جو کسی بھی طور سے خوش آئند نہیں ہے کیونکہ ہر چیز مناسب مقدار میں ہی ہو تو اچھی لگتی ہے، چنانچہ کوشش کی جائے گی کہ اس قوت کو اعتدال پر لانا جائے تا کہ تمام نظام بخیر و خوبی چلتا رہے اور یہ بات حکومت کے اقدمات سے ثابت بھی ہو جائے گی جس کا بے صبری سے انتظار کرنا چاہیے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
دو کے جواب میں دس تھپڑ ماریں گے: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''دو کے جواب میں دس تھپڑ ماریں گے‘‘ البتہ ایک کی خیر ہے کیونکہ وہ تو آدمی مذاق مذاق میں بھی مار دیتا ہے، اس لئے ایک سے زیادہ کی گنجائش نہیں، جیسا کہ ایک بزرگ نے کہہ رکھا ہے کہ اگر کوئی ایک تھپڑ مارے تو اس کے سامنے دوسرا گال پیش کر دو تو اس صورت میں بھی دو سے زیادہ کی گنجائش نہیں نکلتی، ا ور اگر کوئی مذاق پر اُتر آئے اور ایک ایک کرکے تھپڑ مارنا شروع کر دے تو پھر مسئلہ پیدا ہوگا، اس لئے ہمیں بھی اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔ آپ اگلے روز چھ گھنٹے تک جاری رہنے والے پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
موسمِ خوش رنگ
یہ ہمارے ممتاز نقاد اور کالم نویس پروفیسر شاہد صدیقی کی تحریروں کا مجموعہ ہے جسے سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے اور جسے مصنف نے ''زندگی کی پیشانی پر لکھی تحریریں ‘‘قرار دیا ہے جس میں ہرگز کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ کتاب کا کوئی دیباچہ نہیں ماسوائے زاہدہ حنا کی خوبصورت تحریر کے اس ٹکڑے کے جو کتاب کی ابتدا میں ایک صفحہ پر درج ہے۔ کتاب کسی انتساب کے بھی بغیر ہے۔ پسِ سرورق زاہدہ حنا، سہیل وڑائچ، وجاہت مسعود اور وسعت اللہ خان کی مختصر توصیفی آرا سے مزین ہے۔ سہیل وڑائچ کے مطابق ''شاہد صدیقی دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں، اپنی شخصیت کا رعب جمانے کے بجائے گرمجوشی اور حلاوت سے محفل میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ایسے لوگ عطر کی خوشبو بن کر آپ کے دل میں گھر کر جاتے ہیں‘‘۔ کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی تاریخ کا سفر، راولپنڈی کی کہکشاں، سیاست، مزاحمت اور آزادی، زندگی کا حسن لوگ، حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں، روبرو، فلم، آرٹ، اکیسویں صدی اوریادوںکے جھروکے۔ اس پوری کتاب ہی کو اگر حاصلِ مطالعہ کیا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا۔
اور‘ اب ا دریس بابر کے قلم سے دو عدد عشرے:
زندہ رہنا کتنی غیر معمولی بات ہے
دو دن رہ کے دیکھو تمہیں اندازہ ہو
زندہ رہنا کتنی غیر معمولی بات ہے
اک بنیادی چیز ہے، ایک اصولی بات ہے
زندہ رہنا کتنی غیر معمولی بات ہے
گولی مارو! شوق سے کتبے لکھو
زندہ رہنا کتنی غیر معمولی بات ہے
دل کے لئے دنیا کی سیر معمولی بات ہے
زندہ رہنا کتنی غیر معمولی بات ہے
ٹوٹے ہوئے گلدان سے خوشبو جاتی نہیں
زندہ رہنا کتنی غیر معمولی بات ہے
ایک بہادر عورت کی موت
ہمیں یاد رہتا ہے شجرئہ نسب
اپنے محبوب اور نا محبوب سیاستدانوں کا
مکمل ٹریک ریکارڈ ہو گا ہمارے پاس
فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کلاس ہر کرکٹر کا
ہمیں کیا پتا کس کس طرح کے رنگ پسند تھے اُسے
یا، کون سی مُرکی اُس کے کانوں میں آویزاں تھی
ہم نے کبھی اس کا ساتھ دینے کی غلطی نہیں کی
ہم نے تو کبھی اُس کو گالی تک نہیں دی
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں
آج کا مطلع
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے، آدھا بھول گیا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved