9ھ کے آخر میں ایک خوب رو، رعب دار شخصیت کے حامل عرب سردار آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آتے ہی شکایت کے انداز میں عرض کیا کہ آنحضورﷺ کا ایلچی جو زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے گیا تھا‘ ان سے ملے بغیر ہی واپس چلا آیا۔ بعد میں ان کے قبیلے میں یہ خبر پہنچی کہ آنحضورﷺ اس قبیلے کے خلاف چڑھائی کر دیں گے کیونکہ حضورﷺ کو رپورٹ ملی کہ اس قبیلے نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا ہے۔ عرب سردار نے عرض کیا ''یا رسول اللہﷺ ہم اسلام کے کسی بھی حکم اور دینی فرض سے سرتابی کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔آنحضورﷺ نے معزز سردار کا بڑا احترام کیا اور ان کی وضاحت قبول کر لی۔ ان کی تائید میں سورۃ الحجرات کی آیات نمبر چھ اور سات نازل ہوئیں۔ یہ سردار تھے حارث بن ابی ضرار‘ جو آنحضورﷺ کے صحابی اور سسر بھی تھے۔ وہ ام المومنین حضرت جویریہؓ کے والد اور قبیلہ بنو المصطلق کے رئیس تھے۔
آنحضورﷺ کی زندگی میں غزوۂ بنو المصطلق بہت اہم واقعہ ہے۔ اس سفر میں حضرت عائشہ صدیقہؓ پر افک کا بہتان باندھا گیا تھا۔ اس غزوہ میں آنحضورﷺ کو بنو المصطلق کے مقابلے پر فتح و کامرانی حاصل ہوئی۔ آپﷺ فتح کی خوشیاں سمیٹ کر واپس پلٹے لیکن راستے میں منافقین کے اٹھائے ہوئے فتنے نے اہل ایمان کی خوشیاں غم میں بدل دیں۔ بعد میں واقعہ افک کے ذمہ داروں کو قرآن نے جھوٹا قرار دے کر سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی پاکدامنی پر مہر لگاکر ان کی شان بلند تر کر دی۔
اس جنگ کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ اس میں بنو المصطلق کے سردار کی بیٹی جویریہ (جن کا نام اسلام سے قبل برہ بنت حارث تھا) بھی جنگی قیدی بن گئیں۔ ان کے والد سردار تھے اور اپنے قبیلے کے علاوہ دیگر قبائل میں بھی ان کی بڑی عزت تھی۔ ان کے والد نے اپنی صاحبزادی کی بہت اچھی تربیت کی تھی۔ وہ آدابِ مجلس اور فنِ گفتگو میں بڑی ماہر تھیں۔ قبیلے کی شکست اور پھر اپنی گرفتاری کے غم سے نڈھال تھیں۔ انہیں ایک ہی بات سے تسلی ملتی تھی اور وہ یہ کہ فاتحین روایتی قسم کے قبائل سے بالکل مختلف تھے۔ انہیں ان کا اخلاق و کردار قابلِ رشک اور ان کے سردار کی سیرت نہایت پُرکشش نظر آئی تھی۔
معزز سردار کی بیٹی کے لیے غلامی قبول کرنا بڑا مشکل تھا۔ مالِ غنیمت اور لونڈیاں تقسیم ہوئیں تو حضرت جویریہؓ مشہور صحابی حضرت ثابتؓ بن قیس کے حصے میں آئیں۔ حضرت ثابتؓ بہت بلند مرتبہ صحابی تھے۔ وہ آنحضورﷺ کے مقرر کردہ مشہور خطیب بھی تھے۔ دیگر قبائل کے خطبا کا مؤثر جواب دیا کرتے تھے۔ اللہ نے ان کی آواز میں گرج اور ان کے الفاظ میں جادو بیانی پیدا کر رکھی تھی۔ انہیں یہ احساس تھاکہ ان کے حصے میں آنے والی لونڈی شریف زادی ہے۔ حضرت ثابتؓ خود فقر و فاقہ میں زندگی گزار تے تھے۔
سیدہ جویریہؓ نے اپنے مالک سے درخواست کی کہ وہ ان سے قیمت وصول کر لیں اور انہیں آزاد کر دیں۔ حضرت ثابتؓ نے رضا مندی ظاہر کی اور قیمت طے ہو گئی۔ ظاہر ہے حضرت جویریہؓ کے پاس اس وقت ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہ تھا لیکن وہ جانتی تھیں کہ اللہ کے رسولﷺ کبھی کسی سوالی کو نامراد نہیں لوٹاتے۔ ان کے دل میں ایک بار یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ سوالی تو خود ہمارے دروازے پر آکر سوال کیا کرتے تھے اور ہم ان کی جھولی بھرا کرتے تھے۔ اب میں کیسے سوالی بن کر ہاتھ پھیلائوں لیکن حالات کا تقاضا یہی تھا۔ چنانچہ وہ ہمت کر کے آنحضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ''میں مصیبت کی ماری ایک بدحال عورت ہوں۔ آزادی حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ مالک سے مکاتبت ہو گئی ہے مگر میرے پاس کچھ نہیں۔ آپﷺ اس مصیبت میں میری مدد فرمائیں‘‘۔ سوال کرنے کا انداز بڑا مہذب و مؤثر تھا۔ اللہ کے رسولﷺ جانتے تھے کہ جویریہ نجیب الطرفین شریف خاتون ہے۔ آپﷺ کے پیش نظر قبیلہ بنو المصطلق میں دعوتِ اسلام کے راستے ہموار کرنا بھی تھا۔ آپﷺ نے فرمایا ''اگر تم پسند کرو تو میں مکاتبت کی رقم ثابت کو ادا کر دوں اور تم سے نکاح کر لوں‘‘۔ حضرت جویریہؓ کے لیے اس پیش کش سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی تھی۔ وہ راضی ہو گئیں۔
یوں انہیں آزادی بھی ملی اور ام المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہو گیا۔ وہ نہایت خوش بخت خاتون تھیں۔ سعادت ان کا مقدر تھی۔ ان کے حرم نبویﷺ میں داخل ہوتے ہی تمام انصار و مہاجرین نے بلا توقف اعلان کر دیا کہ اب رسول اللہﷺ کے سسرالی رشتے داروں کو قید اور غلامی میں کیسے رکھا جا سکتا ہے؛ چنانچہ ایک خاتون کی برکت سے قبیلے کے تمام اسیران کو آزادی مل گئی۔ اس واقعہ سے حضرت جویریہؓ کی قدر و منزلت پورے قبیلہ بنو المصطلق میں پہلے سے بھی بڑھ گئی۔ ساتھ ہی انصار و مہاجرین کے نزدیک آنحضورﷺ کا مقام و مرتبہ بھی سب اہل عرب کو معلوم ہو گیا۔
حضرت جویریہؓ کے والد چونکہ بڑے سردار تھے اس لیے اپنی بیٹی کی گرفتاری اور غلامی پر انہیں بڑی پریشانی اور عار محسوس ہوئی۔ اللہ کی طرف سے انسانوں کی قسمتوں کے فیصلے عجیب انداز میں ہوتے ہیں۔ حضرت جویریہؓ کے والد حارث بن ابی ضرار بہت سا مال و اسباب لے کر مدینہ آئے۔ وہ اپنی بیٹی کو رہا کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے آنحضورﷺ سے کہا ''جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں ایک بڑا عرب سردار ہوں۔ مجھے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ میری بیٹی کو لونڈی بنایا جائے۔ آپﷺ جتنا چاہیں مال لے لیں اور میری بیٹی کو آزاد کر دیں‘‘۔ آپﷺ نے اپنی عادت و سنت کے مطابق عرب سردار کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور عزت و احترام سے بٹھایا۔ پھر اس مہمان سردار کی بیٹی کے بارے میں بات چیت کرنے سے قبل فرمایا کہ ٹھیک ہے تم اچھے مقصد کے لیے آئے ہو لیکن وہ دو اونٹ جو تم نے وادی عقیق میں چھپا دیے ہیں‘ وہ کیوں چھپائے ہیں۔ حارث کے لیے یہ بات حیران کن تھی۔ اس نے تعجب سے پوچھا: آپﷺ کو کیسے معلوم ہوا؟ آپﷺ نے فرمایا: مجھے میرے رب نے بتایا ہے۔ حارث امام الانبیاﷺ کی عسکری قوت اور اخلاقی برتری کا تو پہلے ہی قائل تھا اب اس کو یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کے سچے رسولﷺ ہیں؛ چنانچہ اسی وقت آنحضورﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے آپ کو اسلام کے سپرد کر دیا۔ اب اگلا موضوع شروع ہوا تو آنحضورﷺ نے فرمایا اپنی بیٹی سے پوچھ لیں‘ وہ جو کہے اسی پر عمل ہو گا۔ اسی دوران انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی لونڈی نہیں بلکہ آنحضورﷺ کی معزز زوجہ مطہرہؓ ہیں تو قبولِ اسلام کی خوشی کے ساتھ ان کی خوشی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ یوں پورا قبیلہ بنو المصطلق اسلام کی آغوش میں آ گیا۔
حضرت جویریہؓ آنحضورﷺ سے بہت محبت کرتی تھیں، ان کی پاکیزہ عادات اور اخلاق کی وجہ سے خود آپﷺ بھی ان کے بہت قدر دان تھے۔ آنحضورﷺ ان کی عبادت گزاری اور تقویٰ کو دیکھ کر بھی بہت خوش ہوا کرتے اور ان کے حق میں دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ یہ بات کہ آنحضورﷺ کے خاندان کے لیے زکوٰۃ و صدقات حرام ہیں‘ اسلام کا بہت واضح اور محکم حکم ہے لیکن کوئی شخص اگر ہدیہ کے طور پر کوئی چیز بھیجتا تو آنحضورﷺ اسے قبول فرماتے اور کھا لیتے۔ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جویریہؓ کی ایک کنیز کو صدقے کا گوشت ملا، اس نے وہ حضرت جویریہؓ کو ہدیہ کر دیا۔ سیدہ جویریہؓ کا خیال تھاکہ چونکہ یہ بنیادی طور پر صدقے کا گوشت ہے اس لیے اہل بیت کے لیے جائز نہیں۔ آپﷺ جب گھر تشریف لائے اور کھانے کو کچھ مانگا تو ام المومنین نے حقیقت واقعہ بیان کی۔ آپﷺ نے فرمایا: جسے صدقہ دیا گیا تھا اسے پہنچ گیا‘ ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے، اس لیے جائز ہے۔
قبیلہ بنو المصطلق کے لوگ مدینہ آتے تو فخر محسوس کرتے تھے کہ ان کی بیٹی آنحضورﷺ کے گھر میں ہے۔ حضرت جویریہؓ بھی ان کی بڑی تکریم کیا کرتی تھیں۔ انہی کی وجہ سے قبیلہ بنو المصطلق میں اسلام تیزی سے پھیلا۔ آپؓ آنحضورﷺ کی حیات طیبہ میں بھی بہت زیادہ نفلی روزوں اور نمازوں کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ آپﷺ کے وصال کے بعد تو یہ شغف اور بھی بڑھ گیا۔ آخری عمر میں زیادہ مشقت برداشت کرنا مشکل ہوگیا تو اللہ کا خصوصی شکر ادا کرتی تھیں کہ نبیِ مہربانﷺ نے ان کو ایک مرتبہ کچھ کلمات خصوصی طور پر سکھائے تھے اور فرمایا تھاکہ یہ کلمات پڑھتی رہا کرو، ان سے تمہیں نفلی عبادات سے بھی زیادہ ثواب و اجر ملا کرے گا‘‘۔ یہ کلمات ہر بندۂ مومن کے معمولات کا حصہ ہونے چاہئیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضٰی نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ‘‘ (مسلم: 6913)۔ (میں خدا کی پاکی بیان کرتا ہوں اُس کی حمد کے ساتھ، اس کی مخلوقات کے برابر، اس کی رضامندی کے برابر اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر)۔ حضرت جویریہؓ زندگی بھر مدینہ ہی میں مقیم رہیں اور 50ھ میں وفات پائی تو جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔ ان کی عمر 65 سال سے زائد تھی۔