ایک زمانے سے ہم مُعلّق پارلیمنٹ کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ تنہا، اپنی مرضی کے مطابق حکومت قائم کرسکے۔ جمہوریت کو تقویت بخشنے کے نام پر سیاسی جماعتوں ہی نے جو کچھ اس قوم کے ساتھ کیا‘ وہ بھی آمریت کے ستم ہائے ناروا سے کم نہیں۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے تک معاملہ پہنچ ہی نہیں پاتا۔ پہنچے بھی کیسے کہ جو حکومت کسی نہ کسی طور قائم ہو پاتی ہے اُس کی ساری توانائی اپنی بقا یقینی بنانے پر صرف ہو جاتی ہے۔ ملک بھر میں چند ہی علاقے یا شہر ایسے ہیں جن کی تعمیر و ترقی پر بھرپور توجہ دی جاتی رہی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باوجود اُتنی توجہ نہیں پارہا جتنی ملنی چاہیے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں اُن علاقوں کا حال کیا ہوگا جو دور اُفتادہ ہیں اور ترجیحات میں بھی شامل نہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی نے کراچی اور چند دوسرے شہروں کو فیصلہ سازوں کی نظر میں وہ مقام نہیں دیا جو ملنا چاہیے تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سے توقعات وابستہ کرنے کے معاملے میں بھی اہلِ کراچی اپنی ''روایت‘‘ سے دستبردار نہ ہوئے۔ جب بھی وفاق میں حکومت قائم ہوتی ہے تب اہلِ کراچی سوچتے ہیں کہ شاید اب اُن کے دِن پھرنے والے ہیں، اُن کے مسائل کے حل ہونے کی منزل آگئی۔ کچھ ہی دنوں میں ثابت ہوتا ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
وزیراعظم نے اہلِ کراچی سے بہت سے وعدے کیے تھے۔ شہرِ قائد کے مکینوں نے سوچا کہ سیاست میں تبدیلی تو آئی ہے‘ روایتی سیاسی گھرانوں سے ہٹ کر کوئی اقتدار کی بلند ترین مسند پر متمکن ہوا ہے تو شاید اب کچھ نیا ہوجائے، بات بن جائے، دال گل جائے۔ بات بنی نہ دال ہی گَل پائی۔ یہ اگر ہو بھی تو کیسے؟ وزیراعظم کی اب تک کی تگ و دَو سابق ادوارِ حکومت کی پیدا کردہ مشکلات کے اِدراک اور اُن کا گلہ کرتے رہنے تک محدود رہی ہے۔ کرپشن ختم کرنے کے نام پر اُنہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ اُن کی نیت کے اخلاص اور تجربے کی قلّت کو بخوبی بیان کرتا ہے۔ رہی سہی کسر ''کور سرکل‘‘ نے پوری کردی ہے۔ جو لوگ رفقائے کار کی شکل میں انہیں گھیرے ہوئے ہیں وہ معاملات کی تفہیم تک پہنچنے نہیں دیتے، بلکہ ''حالتِ استفہام‘‘ میں رکھتے ہیں۔ بہت کچھ ہے جو کسی طور ہونا نہیں چاہیے مگر ہو رہا ہے۔ پریشان کن حالات میں وزیر اعظم کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ نہیں کر پارہے اور اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ اُن کے رفقائے کار اُنہیں عمل پسندی کی راہ پر زیادہ دور چلنے نہیں دیتے۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ حکومت کے قیام کو ڈھائی سال ہونے کو آئے ہیں‘ اب شاید کچھ بہتری آئے کہ اب تک تو وزیر اعظم نے طریقِ کاربھی اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا۔ یہ عوام کی خام خیالی تھی۔ اُن کا ایسا نصیب کہاں کہ کوئی اُن کے مسائل سمجھ لے اور حل کرنے کے لیے مطلوب اخلاص کے ساتھ میدانِ عمل میں بھی قدم رکھے! حکومت نے اگر کراچی کے حوالے سے کچھ سوچ بھی رکھا تھا تو اب اُس پر عمل نہیں کر پائے گی۔ اقتدار کے ایوانوں میں رسہ کشی بڑھ گئی ہے۔ حکومت کے باقی ڈھائی سال اب اگر صرف ہوں گے تو صرف اقتدار بچانے پر۔ جو حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی سطح سے بلند نہ ہو پائے وہ عوام کے مسائل حل کرنے پر کیا توجہ دے گی؟ عوام تو اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کراچی کے انتہائی پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لیے جو لوگ میدان میں ہیں وہ چونکہ اقتدار کے ایوانوں میں نہیں اس لیے کچھ زیادہ کر نہیں کرسکتے۔ جماعت اسلامی نے شہرِ قائد کے دیرینہ مسائل حل کرانے کے لیے طویل مدت تک جدوجہد کی ہے۔ یہ تحریک اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے شہرِ قائد کے بنیادی اور پیچیدہ مسائل کی طرف اہلِ اقتدار و اختیار کی توجہ منعطف کرانے کے حوالے سے طویل جدوجہد کی ہے۔ عوام کا استحصال کرنے والے اداروں کے خلاف بھی اُن کا موقف جاندار رہا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال نے بھی اہلِ کراچی کو اُن کے حقوق دلانے کا ڈول ڈالا ہے۔ یہ پارٹی بھی اقتدار کے ایوان میں نہیں اس لیے ایک خاص حد تک ہی جاسکتی ہے۔
مردم شماری میں کراچی کی آبادی کے حوالے ماری جانے والی ڈنڈی کے خلاف جو لوگ آواز اٹھارہے ہیں اُن میں اب کراچی واٹر بورڈ کے سابق ڈی ایم ڈی محمد اسلم خان بھی شامل ہیں۔ وہ کراچی کے مسائل پر بات کرنے والی اُن شخصیات میں سے ہیں جو بیورو کریسی کا حصہ بھی رہی ہیں یعنی وہ اُس کے طریقِ واردات کا فہم بھی رکھتے ہیں۔ اُن سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ شہرِ قائد کو ایک بار پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ آبادی ہے کہ بے ہنگم طور پر بڑھ رہی ہے۔ مسائل صرف بڑھ نہیں رہے بلکہ پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں سے آنے والوں کے آباد ہونے سے بنیادی ڈھانچے پر دباؤ ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔ کراچی کے مسائل حل کرنے کی تحریک چلانے والوں کا مطالبہ ہے کہ کراچی کی حقیقی آبادی کو تسلیم کرکے اُس کے تناسب سے وسائل اور ملازمتوں میں حصہ دیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمن، سید مصطفی کمال، اسلم خان اور دوسرے بہت سے افراد نے شہرِ قائد کے مسائل حل کرانے سے متعلق جو بھی جدوجہد کی ہے وہ اپنی جگہ اور وفاق کے پالیسی میکرز کی ترجیحات اپنی جگہ۔ اُنہیں اس بات سے بظاہر کچھ خاص غرض نہیں کہ توجہ نہ دیے جانے کی صورت میں شہر کا کیا بنے گا۔
کراچی میں کم و بیش ڈیڑھ کروڑ افراد کو یومیہ بنیاد پر حرکت پذیر ہونا پڑتا ہے۔ کام پر جانا اور واپس آنا بھی اب اچھے خاصے دردِ سَر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شہر چونکہ بہت پھیلا ہوا ہے اِس لیے لوگوں کو مختلف کاموں کے لیے یومیہ بنیاد پر دسیوں کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے چونکہ اب تک معیاری ماس ٹرانزٹ سسٹم کا اہتمام نہیں کیا اِس لیے لوگ ٹوٹی پھوٹی بسوں میں دھکّے کھانے پر مجبور ہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا بھی یہی حال ہے۔ لاکھ توجہ دلائیے، وفاق و صوبائی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دونوں اپنی اپنی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر تماشا دیکھنے کی عادی ہیں۔ صرف وعدے اور دِلاسے ہیں۔ جن سے کچھ اُمید وابستہ کی جاتی ہے وہ چکنی چپڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں۔ جولائی اور اگست میں جب طوفانی بارشوں نے کراچی کو ڈبو دیا تھا تب ملک کے بڑوں کی جانب سے کراچی آکر یقین دلایا گیا تھا کہ کراچی کے لیے 1100 ارب روپے کا پیکیج لایا جارہا ہے جس کے ذریعے شہر کو نئی زندگی عطا کی جائے گی۔ سوال بنیادی ڈھانچے کی درستی کا ہے۔ کاروباری برادری کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کراچی کے تمام مسائل حل کردیے جائیں گے اور کاروبار دوست ماحول فراہم کیا جائے گا۔ اہلِ کراچی اُس پیکیج کے اب تک منتظر ہیں۔ اب ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ؎
غلط ہو آپ کا وعدہ کبھی، خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
ہاں! اِتنا ضرور ہے کہ 1100 ارب روپے کے پیکیج کا وعدہ یاد کر کر کے اہلِ کراچی کے دِل ''اکھیاں اُڈیک دِیاں، دِل واجاں ماردا‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہیں۔ وقت گزرتا جارہا ہے اور اُمیدوں کی دیواروں کا رنگ اُکھڑتا جارہا ہے۔ ایسے میں لے دے کر بس یہی کہا جاسکتا ہے ؎
فراقِ یار کا اب تک خمار باقی ہے
حیات ختم ہوئی، انتظار باقی ہے