تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-03-2021

سرخیاں، متن، ڈاکٹر صغرا صدف اور افتخار شوکت

حکومت معذور خواتین کو قومی دھارے
میں لانے کیلئے کوشاں ہے: اسد قیصر
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ''حکومت معذور خواتین کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کوشاں ہے‘‘ جبکہ غیر معذور اور ٹھیک ٹھاک خواتین کو اپنے پائوں پر خود کھڑے ہونا چاہیے بلکہ انہیں چاہیے کہ حکومت کے لیے بھی کچھ کریں جو متعدد معاملات میں اپنے ناتواں ہونے کا ثبوت دے چکی ہے جن میں مہنگائی، بے روزگاری اور امن و امان کا مسئلہ بطور خاص شامل ہیں، حتیٰ کہ وہ اپوزیشن کو کنٹرول کرنے سے بھی معذور ہے جو حکومت کے لیے باقاعدہ ایک خطرے کی صورت اختیار کر چکی ہے، جبکہ اسے اس گرداب سے صرف خواتین ہی نکال سکتی ہیں اس لیے انہیں آگے بڑھ کر اس قومی خدمت کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز سبزہ زار میں خواتین سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہمارا مقصد مقتدرہ کے سیاسی
کردار کا خاتمہ ہے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہمارا مقصد مقتدرہ کے سیاسی کردار کا خاتمہ ہے‘‘ جو پوری مستقل مزاجی کے ساتھ ہمیشہ ہمیں اقتدار میں لاتی تھی لیکن یکا یک اس نے آنکھیں پھیر لیں اور باقاعدہ سیاسی کردار شروع کر دیا اور ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا جس کی ہمیں ہرگز کوئی عادت نہ تھی اور اب بھی کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے انکاری ہے اس لیے ہماری خواہش ہے کہ وہ اپنا سابقہ کردار بحال کرے۔ آپ اگلے روز فون پر آصف علی زرداری کو پی ڈی ایم امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر مبارکباد دے رہے تھے۔
پنجاب میں ہماری اکثریت ہے،
حکومت بنائیں گے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں ہماری اکثریت، حکومت بنائیں گے‘‘ چونکہ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے جو اگر ادا کر دی جائے تو ہر مسئلہ آن کی آن میں حل ہو جاتا ہے اور اگر آدمی کو خدا نے دولت سے مالا مال کر رکھا ہو تو اسے اچھے کاموں میں صرف کرنے سے احتراز نہیں کرنا چاہیے اگرچہ پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کے اخراجات کے لیے مطالبات کی بھرمار کر رکھی ہے، نیز متعدد عہدوں بالخصوص انتظامیہ میں ہمارے ہاتھ کے لگائے ہوئے افسروں کی پوری کھیپ موجود ہے، جو اب اعلیٰ عہدوں پر ہیں اور ہمارا کام آسان کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں گفتگو کر رہی تھیں۔
اپوزیشن کی رہی سہی کسر چیئر مین سینیٹ
کے انتخاب میں نکال دیں گے: فواد چودھری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کی رہی سہی کسر چیئر مین سینیٹ کے انتخاب میں نکال دیں گے‘‘ اگرچہ پہلے بھی کسر ہماری ہی نکلی تھی اوراب رہی سہی بھی نکل سکتی ہے کیونکہ ارکانِ اسمبلی نے ثابت کر دیا ہے کہ ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور جو فریق گُڑ زیادہ ڈالے گا، میٹھا بھی اس کا زیادہ ہوگا، جبکہ ہمارے گُڑ میں تو مٹھاس پہلے ہی کم ہے اور سارا شربت ہی پھیکا رہ جاتا ہے، اس لیے ہمیں زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے بظاہر تو یہی نظر آ رہا ہے کہ رہی کسر ہماری ہی نکلے گی، بشرطیکہ کوئی کرشمہ نہ ہو گیا۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
ہمیں پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا چاہیے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے کرتا دھرتا مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہمیں پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا چاہیے‘‘ اگرچہ میں شروع سے ہی یہ کہہ رہا ہوں لیکن کوئی اپنی سیٹ چھوڑنے پر تیار ہی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ عزیز و اقارب بھی یہ بات سننے کو تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ اب تک ہم نے کون سا میدان مار لیا ہے جو استعفے دے کر مار لیں گے اور اب تو دلجوئی کا یہی سامان رہ گیا ہے کہ لانگ مارچ کا خرچ کسی طرح اکٹھا ہو جائے جس کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکانِ اسمبلی کے ذمے مختلف مقدار میں یہ ٹاسک لگا بھی دیا ہے جس کے لیے ہم ابھی سے پُر امید ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر صغرا صدف کی پنجابی اور افتخار شوکت کی اردو غزل:
آکھ نمانی سُنجم سُنجے خالی پلے ہوئے
سفنے ویچن والیاں پچھے نس نس جھلے ہوئے
اوہدے ولّے تخت مُراداں شملے چانن روزی
فکراں بُھکھاں تے جگراتے ساڈے ولّے ہوئے
دیکھ ای رہی آں اج نواں ای اِکلاپے دا رنگ
اِکّو گھر دے سارے جی نیں کلّم کلّے ہوئے
روٹی دی تُھڑ ہے تے چھلا پتل دا مُل پتل
چُلھے دے وچ پاواں تیرے تحفے گھلے ہوئے
باری کھول کے ویکھی جاواں جن پھریا اے کوئی
خوف دے ہتھوں کیسراں خالی گلی محلے ہوئے
اوہ کہندا سی مری گل تے ای بھرواسا رکھیں
کم سوتے ہو جاون گے، کم سوتے ہوئے
حُقہ ٹھنڈا ہو جاوے تے جُثہ ونھن والا
چاہندا اے ہر تھاں ای اوہدی بلے بلے ہوئے
٭......٭......٭
وہ جو لوگ دل کی کتاب تھے وہ کہاں گئے
جو محبتوں کا نصاب تھے وہ کہاں گئے
وہ جو حُسن تھا وہی حُسن حُسن نہیں رہا
جو عشق کے سبھی باب تھے وہ کہاں گئے
وہ جو ہم نے سوچا تھا ویسا کچھ بھی نہیں یہاں
جو ہماری آنکھوں کے خواب تھے‘ وہاں کہاں گئے
وہ جو دوست اچھے تھے، خُوب اچھے تھے کیا ہوئے
جو ذرا ذرا سے خراب تھے وہ کہاں گئے
بھلا کیا ہوئے سبھی جگنوئوں کے وہ قافلے
وہ جو تتلیاں، جو گلاب تھے وہ کہاں گئے
مرے ذہن میں یہ سوال کیسے سوال ہیں
جو مرے لبوں پہ جواب تھے وہ کہاں گئے
آج کا مطلع
کام آئی نہ کچھ دانش و دانائی ہماری
ہاری ہے ترے جھوٹ سے سچائی ہماری

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved