تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     10-03-2021

ذمہ دار چہرے وہی ہیں

وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کا کردار متنازع قرار دے دیا ہے۔ سینیٹ اور ڈسکہ کے انتخابات کو لے کر وہ شدید تحفظات کا شکار ہیں‘ بالکل اسی طرح نواز شریف اپنے ہی دورِ حکومت میں ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہو کر قصرِ اقتدار سے نکالے گئے اور آج تک یہی پوچھتے پھرتے ہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا‘‘۔ ڈسکہ انتخابات کے دوران من چاہے نتائج حاصل کرنے کے لیے اختیار کیے گئے ہتھکنڈے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اناڑیوں کی فوج ایسا اندھیر مچانے جا رہی ہے جو بند آنکھ سے بھی صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس ضمنی انتخاب کو متنازع بنانے کا ذمہ دار انتظامی افسران کو ٹھہرانے کے بعد انہیں بَلی کا بکرا بناکر عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ کون نہیں جانتا کہ حکومت کے وزیر اور مشیر انتخابی حلقے میں کیوں ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے اور متوقع نتائج سے گھبرا کر بلوہ کرنے والوں کا انتظام کس کا تھا اور فائرنگ ''ایڈونچر‘‘ کا ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
حکمرانوں کا بھی کیا مائنڈ سیٹ ہے‘ معاملات حسبِ منشا چل رہے ہوں تو سب ٹھیک ہے‘ جہاں توقع اور خواہشات کے برعکس حالات رونما ہوئے وہاں یہ سبھی حکومتی اداروں پر بھی تنقید کرنے سے کبھی باز نہیں رہے۔ جناب وزیراعظم سینیٹ کے الیکشن کو لے کر شدید ''اَپ سیٹ‘‘ ہیں اور اپنی صفوں میں''مزاحمت‘‘ کے ووٹ کا غصہ الیکشن کمیشن پر نکال رہے ہیں۔ اگر حفیظ شیخ صاحب کامیاب ہو گئے ہوتے تو الیکشن کمیشن کی نہ صرف کارکردگی کو سراہا جاتا بلکہ شفاف انتخابات کروانے کا کریڈٹ بھی الیکشن کمیشن کو ہی دیا جاتا۔ نتائج چونکہ خواہشات کے برعکس آئے اس لیے ان انتخابات کو شفاف کیسے کہہ سکتے ہیں؟
گزشتہ چند دہائیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مملکتِ خداداد پر ہمیشہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کی حکومت رہی ہے۔ دورِ حکومت کسی کا بھی ہو‘ روزِ اوّل سے لمحۂ موجود تک‘ قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے ساتھ کم و بیش وہی چہرے ہر دور میں شریک اقتدار ہوکر بوئے سلطانی کے شوق عوام پر پورے کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ سبھی چہرے ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود انہی ادوار کے طرزِ حکمرانی پر بے حسی کے ساتھ تنقید کے تیر برساتے پھرتے ہیں۔ جوں جوں چیئرمین سینیٹ کا انتخاب قریب آ رہا ہے سیاسی سرکس میں نئے آئٹمز کے ساتھ ساتھ ڈرامائی خاکے بھی شامل ہو چکے ہیں۔ اکثر بازیگر کرتب دکھانے کے ساتھ ساتھ ڈرامہ بھی پرفارم کر رہے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند مستقل بازیگروں پر بات کرتے ہیں جو سابق ادوار میں شریکِ اقتدار بن کر موجیں اُڑاتے رہے اور آج انصاف سرکار کا حصہ بن کر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس میں سابق حکمرانوں کے لتے نہ لیتے ہوں۔ وزیر ہوا بازی کو ہی لیجئے ‘وہ کس طرح قلابازی لگا کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور کیسے سابقہ ادوار میں اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے۔ 1985ء‘ 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے‘ مشرف دور میں شوکت عزیز کی کابینہ میں محنت و افرادی قوت کے وزیر بنے اور اب انتہائی محنت سے عوام کو یہ بتاتے پھرتے ہیں کہ ساری خرابیاں سابقہ ادوار میں پیدا کی گئی ہیں۔
خسرو بختیار انصاف سرکار کے اکنامک افیئر کے وزیر ہیں‘ 1997ء میں مسلم لیگ (ن) سے وابستہ تھے۔ 2002ء کے الیکشن میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے اور شوکت عزیز کی کابینہ میں امورِ خارجہ کے وزیر مملکت بنے۔ 2018ء میں جہانگیر ترین کے ہاتھ پر بیعت کر کے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں تحریکِ انصاف کا حصہ بنے اور اب سابقہ ادوار کو ہدفِ تنقید بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسی طرح انصاف سرکار کے اتحادی اور شریک اقتدار شیخ رشید احمد چار سابقہ ادوار میں وزارت کے مزے لوٹنے کے بعد پانچویں مرتبہ وزیر بن کر سابق حکمرانوں پر جس شدت سے تنقید کرتے نظر آتے ہیں اسی طرح وہ عمران خان کو بھی کبھی آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔
انصاف سرکار کے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری پیپلز پارٹی دور میں زکوٰۃ و عشر کے وزیر رہے۔ وہ بھی سابقہ ادوار کو خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ میاں محمد سومرو سابقہ ادوار میں سینیٹ کی چیئرمینی اور سندھ کی گورنری کے مزے لوٹنے کے باوجود آج انصاف سرکار میں وزیر بن کر یہی سمجھتے ہیں کہ ساری خرابیاں اور بے قاعدگیاں سابقہ ادوار میں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ عمر ایوب بھی انصاف سرکار کے وزیر اور شریک اقتدار ہیں۔ ان کے دادا ایوب خان اقتدار میں کیا آئے کہ ان کا خاندان ہر دور میں قائد اور پارٹی کی تبدیلی کے ساتھ آج بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ انہوں نے 2002ء کا الیکشن (ق) لیگ کے ٹکٹ سے لڑا‘ شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر مملکت رہے۔ (ق) لیگ پر زوال آیا تو مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے، 2018ء کے الیکشن سے چند ماہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ملک و قوم کے لیے عظیم خدمات پر انہیں وفاقی وزیر کا عہدہ عطا کیا گیا۔ وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ساری بربادی اور خرابی سابقہ ادوار کی وجہ سے ہے۔ اعظم سواتی ایک بار پھر وفاقی کابینہ کی زینت بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی دور میں وفاقی وزیر رہے اور اب کس طرح سابق ادوار کو تنقید کا نشانہ بناتے پھرتے ہیں۔ سید فخر امام جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور کئی ادوار میں وفاقی وزیر بھی بنے جبکہ ان کی اہلیہ عابدہ حسین نواز شریف کے پہلے دور میں سفیر اور پھر وزیر رہی ہیں۔ مشرف دور میں ان کی اہلیہ اور صاحبزادی بھی شریک اقتدار رہیں‘ الغرض یہ خاندان ہر دور میں اقتدار کے مزے لیتا رہا ہے۔ طارق بشیر چیمہ انصاف سرکار کے اتحادی اور شریک اقتدار ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی سے منسلک تھے‘ بہاولپور کے ضلعی ناظم رہے‘ رکن صوبائی اسمبلی رہے‘ پنجاب کے وزیر خوراک وزراعت رہے‘ 2016ء میں (ق) لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے اور اب حکومت کے اتحادی ہیں۔ فواد چوہدری مشرف اور پیپلز پارٹی‘ دونوں کے ادوار میں اقتدار کے مزے لیتے رہے ہیں۔ اب انصاف سرکار کے وزیر ہیں اور سابقہ ادوار کو خرابی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فروغ نسیم جو انصاف سرکار میں کبھی وزیر تو کبھی وکیل ہوتے ہیں‘ ان کی جماعت بھی ہر حکومت میں شامل رہی ہے ‘ مگروہ بھی کس دیدہ دلیری سے سابقہ حکمرانوں پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح فہمیدہ مرزا پیپلز پارٹی دور میں قومی اسمبلی کی سپیکر رہیں‘ زبیدہ جلال مشرف دور میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں۔ فردوس عاشق اعوان پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے ادوار کے بعد اب انصاف سرکار کی ترجمانی پر مامور ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کی تو بات ہی نرالی ہے۔ ہر دور میں مجبوری بن کر حکمرانوں کو مجبور کرتے رہے ہیں۔ سینیٹ الیکشن ہارنے کے باوجود جیتے ہوئے لشکر میں موجود ہیں جبکہ ماضی کے اکثر بدترین حریف آج حلیف بن کر شریک اقتدار ہیں۔
سیاسی سرکس ایک بار پھر ''کھڑکی توڑ ہفتہ‘‘ لے رہا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کوئی بھی منتخب ہو‘ کھڑکی توڑ ہفتہ ہر دور میں عوام کی کمر توڑنے کا باعث ہی بنتا رہا ہے۔ سیاسی سرکس میں بازیگروں کی باریاں ہر دور میں عوام کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوتی رہی ہیں۔ خدا جانے یہ جان لیوا امتحان کب ختم ہوگا؟ ختم ہوگا بھی یا نہیں؟ اس کا جواب تلاش کرتے کرتے عوام بھی مایوسیوں کے اندھیروں میں گم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں میجر رشید وڑائچ کے وہ پوسٹر بے اختیار یاد آتے ہیں جو انہوں نے 90ء کی دہائی میں حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی اور عوام کی حالتِ زار کے پیش نظر شہر بھر کی دیواروں پہ لگوا ڈالے تھے۔ ان پوسٹرز پر مسیحاؤں سے کی جانے والی اپیل جلی حروف میں کچھ یوں تھی کہ ''مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘۔ آج بھی تقریباً 30 برس بھگتنے کے باوجود عوام کی حالتِ زار جوں کی توں اور ذمہ دار چہرے بھی وہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved