دنیا پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ فطری عمل ہے۔ جب کچھ نہیں تھا تب زندگی سادہ تھی اور دنیا بھی الجھی ہوئی نہیں تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے ذہن سے کام لینے میں مہارت حاصل کی تو بہت کچھ ایجاد اور دریافت ہوتاچلا گیا۔ دریافت اور ایجاد کے عمل نے زندگی کو آسانیاں بھی دیں اور پیچیدگیاں بھی۔ یہ بھی قدرت کے اصول کے تحت ہے۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہے جو چکانا پڑتی ہے۔ ہر دور کے انسان نے یہ قیمت چکائی ہے۔ آج کے انسان کو بھی اس معاملے میں ذرّہ بھر استثنا حاصل نہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے، جو کچھ پائے گا اُس کے عوض کچھ نہ کچھ دینا ہوگا۔ آج ہم سب‘ کبھی کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی‘ ایسی اَپ ڈیٹنگ اور اَپ گریڈیشن کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں جس کا ہماری زندگی سے بہت زیادہ تعلق بھی نہیں۔ ہم چونکہ ماحول کا حصہ ہیں اِس لیے اشتراکِ عمل کی دست بُرد سے زیادہ نہیں بچ سکتے۔ فطری علوم و فنون میں بے مثال پیش رفت نے ابلاغ کے حوالے سے ایسے دور کو جنم دیا ہے جس میں ہم ایک دوسرے سے ہر وقت جڑے رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ چوبیس گھنٹے کا رابطہ اب ہمارے لیے سوہانِ روح ہوچکا ہے مگر کیا کیجیے کہ ع
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ایک ہی چیز سُکھ بھی دے رہی ہے اور پیہم دُکھ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ دل سے رہ رہ کر یہ صدا ابھرتی ہے ؎
کرم آمیز ہوتی ہے ستم کی ہر ادا کیسی
وہی اِک چشمِ غارت گر بنی ہے دِل فزا کیسی
وقت اور حالات کی ستم ظریقی یہ ہے کہ آج کے انسان کا اپنے ہی وجود پر کماحقہٗ اختیار نہیں۔ سہولتوں کا بازار گرم ہے‘ آسانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ایسے میں زندگی کو آسان تر ہونا چاہیے مگر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ ہر گزرتا دن زندگی کی پیچیدگی بڑھا رہا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم میں کچھ کرنے کی صلاحیت و سکت نہیں رہی؟ یا پھر یوں ہے کہ ہم جوش و جذبے سے ، ولولے سے محروم ہوچلے ہیں؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہم میں صلاحیت و سکت بھی ہے اور جوش و جذبہ بھی۔ آج کے انسان کو جن پیچیدگیوں کا سامنا ہے اُن کا سابق ادوار کے لوگوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ کم و بیش ساڑھے تین ہزار سال کی معلوم تاریخ میں انسان ایسا الجھا ہوا کبھی نہیں تھا۔ ایسی الجھن تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھی کہ ع
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں اختیار میں
کس نے سوچا تھا کہ انسان جو آسانیاں یقینی بنانے کی تگ و دَو کرتا رہا ہے وہ جب حقیقت کا روپ دھاریں گی تو نِت نئی مشکلات کو بھی جنم دیتی جائیں گی۔ آج کوئی ایک انسان بھی مکمل ذہنی آزادی سے ہم کنار نہیں۔ سبھی متضاد خیالات اور متضاد اعمال کا مجموعہ بنے پھر رہے ہیں ع
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ تماشا کیا ہے
آج کے انسان کو بہت کچھ کرنا ہے یا یوں کہیے کہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ اپنی زندگی بھی اپنی نہیں رہی۔ ایسا بہت کچھ ہے جو بن مانگے یوں ملتا ہے کہ لینا ہی پڑتا ہے۔ دل و دماغ پر بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ گویا ع
زندگی ہر قدم اِک نئی جنگ ہے
یہ پورا کھیل اب سمجھنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ زندگی ایسا معاملہ نہیں کہ ایک بار دُھونی رماکر بیٹھے اور سب کچھ سمجھ کر اٹھے۔ جو کچھ واقع اور رونما ہوتا جارہا ہے اُسے سمجھتے رہنے کا نام زندگی ہے۔ بہت کچھ ہے جو روز بدل جاتا ہے۔ تبدیلی کائنات کا انتہائی بنیادی اصول ہے اور ہر عہد کے انسان کے لیے بہت حد تک چیلنج بنتا رہا ہے مگر آج کے انسان کے لیے تبدیلی سب سے بڑا چیلنج، بلکہ دردِ سر ہے۔ ہر شعبے میں پیش رفت کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ایک چیز کو سمجھیے تو دوسری آجاتی ہے۔ اُسے سمجھیے تو تیسری، پھر چوتھی، پھر پانچویں ... اور یہ سلسلہ جاری ہی رہتا ہے۔ آج انسان اُس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں اُس کے وجود کا بڑا حصہ معاملات کو سمجھنے کی نذر ہوتا جارہا ہے۔ رئیسؔ امروہوی نے کہا تھا ؎
مشینی دور کی چکّی میں انسان
بہت باریک پستا جا رہا ہے
مشینوں کی مرمّت ہو رہی ہے
مگر مزدور گھستا جا رہا ہے
بات اب مزدوروں تک محدود نہیں رہی۔ آج ہر انسان مشینی دور کی چَکّی میں یوں پِس رہا ہے کہ سب ایک دوسرے کی الجھن سمجھ تو لیتے ہیں مگر کر کچھ نہیں سکتے۔ آج انسان کے وقت کا بڑا حصہ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کو سمجھنے پر صرف یا ضایع ہو رہا ہے۔ کیا یہ ذہنی الجھن ہمارا مقدر ہے؟ کیا اب کبھی اِس سے جان نہ چھوٹ سکے گی؟ کیا اپنی زندگی پر ہمارا اختیار یونہی کم ہوتا چلا جائے گا؟ اِن تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
ہر دور کے انسان نے اپنے عہد کے پیدا کردہ مسائل کا سامنا کیا ہے اور اپنے لیے راہ نکالی ہے۔ ہمیں بھی کچھ ایسا ہی کرنا ہے۔ ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ اب تک کے تمام ادوار سے خاصا مختلف ہے کیونکہ جو کچھ بھی انسان ایجاد کرنا چاہتا تھا وہ ایجاد کیا جاچکا ہے۔ زندگی کو جن آسانیوں کی ضرورت تھی وہ یقینی بنائی جاچکی ہیں، مل چکی ہیں۔ تو پھر اب کیا کِیا جائے؟ زندگی کو آسان بنانے والے معاملات کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات سے کماحقہٗ نِپٹنا ہی ہمارے لیے ایسے مِشن کا درجہ رکھتا ہے جو پوری زندگی پر محیط ہے۔ ایک طرف دنیا ہے جسے سمجھنا ہے۔ حالات و واقعات کی نوعیت، شدت اور اثرات سے آگاہ ہوتے رہنا لازم ٹھہرا ہے۔ دنیا چونکہ ہر آن بدل رہی ہے اِس لیے اِس کا اِدراک بھی پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ تو ہوا تصویر کا ایک رُخ۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ سب کچھ سمجھنے کے بعد اپنے کردار اور ذمہ داریوں کے تعین و اِدراک کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ اِس مرحلے سے کامیاب گزرے بغیر بامقصد زندگی سے متعلق کردار کا تعین ہو نہیں پاتا۔ آسان ترین آپشن یہ ہے کہ انسان خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دے۔ ایسی صورت میں حالات جس طرف بھی لے جائیں اُسی طرف جانا پڑتا ہے۔ یوں زندگی پر کچھ اختیار نہیں رہتا۔ خیر! خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا اپنی اصل میں سِرے سے کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ زندگی وہی جو انسان اپنے لیے یقینی بنائے۔ یہ مکمل طور پر اِدراک و شعور کا معاملہ ہے۔ دنیا کو سمجھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی اور جو کچھ سمجھ میں آجائے اُس کی بنیاد پر اپنے لیے راہ نکالنا ہے تاکہ اپنی مرضی کے مطابق جینا ممکن ہو، اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کی گنجائش پیدا ہو۔
آج سارا کھیل بنیادی طور پر یہ ہے کہ انسان سمجھنے کی منزل سے گزرتا رہے۔ یومیہ بنیاد پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی نظر انداز کرنے کا آپشن موجود نہیں۔ اگر کوئی اِس طور جینا چاہتا ہے کہ دنیا یاد رکھے تو لازم ہے کہ اپنے شعور کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھائے اور زندگی شعوری سطح پر بسر کرے۔ شعوری سطح پر جینے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی ماحول میں ہو رہا ہو اُسے سمجھنے پر توجہ دی جائے اور اِس تفہیم کے مطابق فیصلے کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ زندگی اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھلتی جائے، اِس پر حالات اور دوسروں کی مرضی کا اجارہ کم سے کم رہے۔
وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں۔ حالات کے سمندر میں سبھی کو تیرنا پڑتا ہے۔ جو ایسا کرنے سے انکار کرے وہ بالآخر ڈوب ہی جاتا ہے۔ مکمل شعوری حالت میں جینا اور پورے تیقّن و اعتماد کے ساتھ فیصلے کرکے زندگی کا رخ متعین کرنا ہی سب سے مفید آپشن ہے۔ جو کچھ ماحول میں رونما ہو رہا ہے وہ ہماری زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ بس اِتنا سمجھنا ہے۔ لوگوں اور حالات کو نظر انداز کرنے کی گنجائش نہیں۔ اُنہیں سمجھنے کی صورت ہی میں ہم اپنے لیے کوئی ڈھنگ کی راہ نکال سکتے ہیں۔