حیراں ہوں 'تبدیلی‘ کیا سے کیا ہو جائے گی۔
شاعر سے نہایت معذرت کے ساتھ اس مصرع کو بگاڑنا پڑا کیونکہ اخلاقیات کا درس دینے والی اور سیاست کو چوروں، ڈاکوؤں سے پاک کرنے کا نعرۂ مستانہ بلند کرنے والی جماعت، پاکستان تحریک انصاف نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اتحادی بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ جی ہاں وہی جے یو آئی (ف) جو ایک روز پہلے تک تبدیلی کے دعوے داروں کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرکے کروڑوں، اربوں کی کرپشن کرنے والی جماعت تھی‘ لیکن سینیٹ میں اپنا چیئرمین بنانے کے لیے ووٹ کم پڑے تو مبینہ طور پر اس کرپٹ جماعت کے تمام داغ دھل گئے۔ اس جماعت کے سربراہ کو طنزیہ لقب بھی دیا جاتا تھا اور تبدیلی والے کہتے تھے: اس بار اسمبلی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے گناہ ابھی یقینی طور پر نہیں دھلے کیونکہ اگر مولانا فضل الرحمن نے تبدیلی والوں کو منفی جواب دیا (جیساکہ مولانا عبدالغفور حیدری کہہ بھی چکے ہیں) تو ایک بار پھر زوروشور سے وہی پروپیگنڈا شروع ہو جائے گا، ساتھ ہی کشمیر کمیٹی اور منسٹرز انکلیو کا بنگلہ بھی سوشل میڈیا واریئرز کا پسندیدہ ہتھیار ہوگا۔
آپ اسے مؤقف سے رجوع کہیں یا تبدیلی والوں کا یُوٹرن، یہ نیا ہرگز نہیں۔ پہلے پنڈی کے ایک سیاستدان کو حقارت سے کہا جاتا تھا کہ اسے تو میں چپڑاسی بھی نہ رکھوں لیکن وہی سیاستدان اب ایک نشست کی جماعت کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی حکومتی اتحادی اور کابینہ کا رکن ہے۔ پنجاب کی سیاست کے چوہدریوں کو بھی ڈاکو اور چور کہا گیا لیکن پھر ضرورت پڑنے پر ان کے ساتھ نہ صرف اتحاد ہوا بلکہ ان کی پسند کے عہدے بھی ان کی جھولی میں ڈالے گئے۔ ایک بار اتحادی بنانے کے بعد انہیں نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی تو معمولی ردعمل پر انقلاب کے داعی گھٹنوں پر آ گئے تھے۔ کراچی کی جماعت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے خود لندن جانے والے بعد میں اسی جماعت کے ممبروں کو وزارتیں دینے پر مجبور ہوئے اور کہا گیا کہ ان جیسے نفیس سیاستدان کم کم ہیں۔
سینیٹ الیکشن میں کروڑوں کی بولی لگنے کے دعوے کرنے اور ارکان کو بکاؤ مال کہنے والے اتنے خود دار بنتے ہیں، تو یہ بھی بتائیں کہ سینیٹ میں خرید و فروخت کی ویڈیوز سامنے لا کر سیاست اور پارلیمان کو بے توقیر کرنے کی کوشش کس نے کی؟ اور خود کو پاک باز کس نے بتایا؟ پہلی بات یہ کہ ووٹ بیچنے والے بھی تبدیلی ہرکارے تھے، خریدنے والے بھی تبدیلی ہرکارے تھے، منڈی بھی تبدیلی ہرکاروں کے گھر لگی۔
ویڈیو کا ذکر آیا ہے تو اس سینیٹ الیکشن میں ایک 'سٹنگ آپریشن‘ کرکے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی بھی ویڈیو بنائی گئی۔ اس ویڈیو کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو ایک بار پھر کرپٹ اور غیرقانونی عمل کا مرتکب ٹھہرا کر پارلیمان سے باہر کرنے کی کوشش ہوئی۔ اسی کوشش میں تبدیلی والے الیکشن کمیشن کے سامنے جانے کی غلطی کر بیٹھے۔ سماعت کے دوران تبدیلی ہرکاروں کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کم از کم3 ویڈیوز پیش کیں جن میں انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حزب اختلاف کے رہنما سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی پر اثر انداز ہوئے اور پیسے کے استعمال اور دوسرے طریقوں سے یوسف رضا گیلانی کے لیے ووٹ حاصل کیے۔ الیکشن کمیشن نے وکیل کو یاد دلایا کہ اگر رشوت کا کیس ہے تو رشوت دینے اور لینے والے دونوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے، جذبات سے نہیں قانون کے مطابق بات کریں، ہر بندہ اپنے کام کا ذمہ دار ہے، آپ نے جس کا نوٹیفکیشن رکوانا ہے، ویڈیو میں تو اس کا ذکر نہیں، ویڈیو میں پیسوں کا بھی کہیں ذکر نہیں۔
تبدیلی والوں سے غلطی یہ ہوئی کہ ان کا خیال تھا کہ جس ادارے پر ان کے کپتان نے الزامات عائد کئے اور اس کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی، شاید دباؤ میں آ کر وہ کوئی فیصلہ کر دے گا لیکن الیکشن کمیشن نے قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے دی اور ہدایت کی کہ درخواست میں دوسرے فریق کو بھی نامزد کریں۔ اگر اس ہدایت کے بعد تبدیلی والے دوبارہ الیکشن کمیشن کا رخ کریں گے تو اپنے ہی ارکان اسمبلی کو نااہل کرا بیٹھیں گے۔ یوں صیاد اپنے ہی دام میں پھنس گیا ہے۔
بات صرف یہیں ختم نہی ہوتی۔ ابھی تو ایک بڑا مقدمہ الیکشن کمیشن کے سامنے ہے اور وہ ہے فارن فنڈنگ کا کیس۔ تبدیلی والوں نے اپنے مخالفین کو مافیا ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اپنے خلاف مقدمات پر اداروں کو دھمکیاں دینا بھی مافیا کا ہی سٹائل ہے، اب اگر فارن فنڈنگ کیس پر کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو کہیں الیکشن کمیشن کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ شروع ہو جائے۔
ہمارے ہاں صورتحال کچھ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سیاسی اخلاقیات کا درس کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے اب مناسب نہیں لگتا، خواہ وہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہوں یا حکمران اتحاد۔ سیاست میں بداطواری اب ایوانوں سے نکل کر باہر آ چکی ہے۔ سینیٹ الیکشن کے روز پارلیمنٹ لاجز کے باہر کیا ہوا سب نے دیکھا۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانے والے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں‘ سب کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ گندگی پھیلانے میں کس کا کتنا حصہ ہے؟ جب کسی جماعت کا لیڈر دوسری جماعت کے لیڈروں کو چور ڈاکو کہتا ہے تو اس کا اثر نچلی سطح پر دوچند ہوکر پہنچتا ہے۔ ایک دوسرے پر اچھالا گیا سیاسی کیچڑ اب ہر کسی کا پیچھا کرتا دکھائی دے گا۔ آج سوشل میڈیا پر احسن اقبال اور مرتضی جاوید عباسی کو جوتا مارے جانے کی تصویر فخر سے شیئر کرنے والے بھی پچھتائیں گے۔ آج اگر اپوزیشن کے رہنماؤں کو اسلام آباد کی پولیس تحفظ نہیں دے رہی تو کل اسی حکمران اتحاد نے بھی اپوزیشن میں بیٹھنا ہے۔ اقتدار دائمی نہیں ہوتا لیکن کرسی کے سرور میں ایسی سچائیاں کسی کو یاد نہیں رہتیں۔
سیاستدانوں کا کام صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ قوم کی تشکیل بھی ہے۔ آج اگر کوئی حکمران کہتا ہے کہ مجھے عوام اچھے نہیں ملے، کوئی ٹیکس دینے اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو تیار نہیں تو اس کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس نے قوم کی تشکیل کے لیے کوئی کردار ادا کیا؟ کیا بجلی کے بل پھاڑ کر اور ٹیکس ادا نہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے سوچا تھا کہ قوم کو کدھر لے جایا جا رہا ہے؟ سیاسی جماعتوں کے ترجمان کس طرح کی زبان سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں پر استعمال کرتے ہیں، کسی کو عمر کے طعنے دیئے جاتے ہیں تو کسی کو اس کی شکل و صورت بہتر بنانے کے لیے پلاسٹک سرجری کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایسا ہی معاشرہ چاہتے ہیں جس میں کسی کو سربازار رسوا کرنا اور پھر اس پر داد طلب کرنا قابل ستائش ہو؟
عوام کا حافظہ بھلے ہی کمزور ہوتا ہے لیکن برا ہو الیکٹرانک میڈیا والوں کا، جو سیاستدانوں کا کہا ایک ایک لفظ سنبھال کر رکھتے ہیں اور وقت آنے پر انہیں آئینہ دکھا دیتے ہیں۔ فلم مجبور میں کشور کمار کی آواز میں امیتابھ بچن پر فلمایا گیا گانا آج الیکٹرانک میڈیا کے دور میں سیاستدانوں پر مکمل فٹ بیٹھتا ہے:
آدمی جو کہتا ہے، آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں
آج جب سیاستدانوں کے پرانے بیانات ٹی وی سکرینوں پر چلتے ہیں تو اس گانے کے مصرعوں کی معنویت اجاگر ہوتی ہے اور گانے کے یہ بول حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتے ہیں اور سیاست میں اس کی معنویت اور حقیقت کو ٹی وی سکرینوں پر روز ثابت کیا جاتا ہے۔