چند راتیں پہلے کی بات ہے‘ رات گئے لاہور کے آسمان پر بادل زور سے گرجا تو جو سو رہے تھے، وہ ڈرکر جاگ اٹھے۔ جو بستروں پر جاگ رہے تھے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ایک زوردار اور طویل کڑک لاہور کے لیے نئی نہیں لیکن ابتدائے مارچ میں لاہور کے آسمان پر غیرمعمولی سی تھی۔ کمرے سے باہر نکلا تو ہلکی بارش اور چمک نے منظر روشن کر رکھا تھا۔ روشنی کے جھماکوں اور گرج میں رات وقفے وقفے سے روشن ہوکر گونج اٹھتی تھی۔ منیر نیازی کا کیا شعر ہے:
بجلی چمک کے تیغ شرر بار سی گری
جیسے گھٹا میں رنگ کی دیوار سی گری
اور ایسے شعر منیر نیازی کے علاوہ کون کہہ سکتا تھا جن میں حسین لیکن پراسرار، طلسمی، آسیبی کیفیات کی رنگا رنگ دھاریاں موجود ہوں۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ ابھی گرمیاں شروع نہیں ہوئیں لیکن دہلیز پر ان کی چاپ قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ لاہور کی راتیں خنک سے گرم کی طرف جارہی ہیں اور اب دفتروں اور گھروں میں پنکھوں کی آواز دوبارہ سنائی دینے لگی ہے۔ اب جیسے جیسے موسم گرمی کی طرف جائے گا‘ آندھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
لاہور اور ملحقہ شہروں میں گرمی کا معمول ہے کہ چند دن تیز گرمی پڑتی ہے۔ سورج کی نوکیلی برچھیاں مسلسل جسموں میں پیوست ہوتی ہیں اور لوگ یخ کدوں میں زیادہ وقت گزارنا شروع کردیتے ہیں۔ چھ سات دن اس طرح گزرتے ہیں پھرایک دن مغرب کے قریب شمالی افق پر غبار اکٹھا ہونا شروع ہوتا ہے اور سورج چھپتے ہی آندھی طوفان کی طرح شہر پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ تیز آندھی جس میں گرم ہوا بھی ممکن ہوتی ہے اور قدرے خنک لہر بھی۔ یہ صرف آندھی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے جلو میں بادل بھی ہوسکتے ہیں۔ آکر گزر جانے والے، اور گھٹا بھی ہوسکتی ہے۔ برس کر چند دن کی فضا بدل دینے والی‘ لیکن عام طور پر یہ آندھی گرمی کا زور کچھ دیر کے لیے توڑنے آتی ہے۔ اس میں نامطلوب مہمان گردوغبار ہوتا ہے جو کھڑکیوں دروازوں کے پٹ چاہے جتنی زور سے بند کردئیے جائیں، گھروں میں مقیم ہوکر رہتا ہے۔ یہ مہمان گھرکے کونے کونے میں اپنی نشانیاں ثبت کرکے گھریلو خواتین سے اپنے قیام کی قیمت محنت کی صورت میں وصول کر ہی لیتا ہے۔ پرانی تعمیرات میں اونچی چھتوں، زیادہ کھڑکیوں، دروازوں اور روشندانوں کی وجہ سے اس گردوغبار کی شرانگیزی بھی زیادہ ہوتی تھی اور جابجا اس کی تہیں اپنی موجودگی کا اعلان کرتی تھیں۔ اب نئے بننے والے گھروں میں روشندانوں کی تو خیر کوئی جگہ ہی نہیں۔ کھڑکیاں بھی بہت کم اور ائیرٹائٹ۔ دروازہ اکثر ایک یا زیادہ سے زیادہ دو۔ تو اب اس کا بس کمروں پر کم چلتا ہے لیکن لاؤنج، باورچی خانہ وغیرہ مکمل طور پر اس کی دسترس میں ہوتے ہیں لیکن مجھے تو اس آندھی کا انتظار رہتا ہے جس کے جلو میں ٹھنڈی ہوائیں اور نمی سے بوجھل جھونکے ہوتے ہیں۔ اکثر یہ تیز ہوا موتیوں سے بھرے بادلوں کو دھکیل کر لارہی ہوتی ہے۔ رات کے اوائل میں بارش شروع ہوتی ہے اور یہ برشگالِ شب ساری رات کی ٹپاٹپ میں موسم کے ساتھ مزاج کو بھی خوشگوار بنا دیتی ہے۔ اس عمر میں کتنی بار رات کی بارش نے مسحور کیا۔ کیسے کیسے منظر یادوں میں محفوظ ہیں۔
اک خواب ہے ساتھ ساتھ میرے
ہیں قوس قزح پہ ہاتھ میر ے
بادل کی تہوں میں روشنی سی
ظلمت کی رگوں میں روشنی سی
منظر میں سنہری دھاریاں سی
آڑی ترچھی کناریاں سی
ململ کی طرح مہین منظر
خوابوں سے بھی کچھ حسین منظر
شیشے کے اس پار سے تیرہ شب کو تکتے ایک جھماکے اور کڑاکے نے ایک لمحے کے لیے واپس کھینچا، شیشہ پھوار میں بھیگنے لگا تھا۔ سچ یہ ہے کہ اب نہ اوائل گرما کی ان بارشوں کا وہ لطف ہے، نہ برسات کی جھماجھم کا، جو آج سے تیس چالیس سال پہلے تھا۔ بنیادی وجہ یہ کہ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ آج کی نسل کم از کم بڑے شہروں میں کھلے آسمان تلے سونے کے لطف سے واقف ہی نہیں کہ یہ ذائقہ اس نے چکھا ہی نہیں ہے۔ انہیں شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ ائیر کنڈیشنروں کے زمانے سے قبل ایک دور گزرا ہے جو صحنوں، آنگنوں، چھتوں اور کوٹھوں پر سونے کا زمانہ تھا‘ یعنی قدرتی ائیرکنڈیشنرز کا زمانہ۔ مجھے بھی اب یہ ایک اور زندگی کا زمانہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک لمبی اور طویل گرم دوپہر ختم ہوتی تو شام اور رات ٹھنڈی کرنے کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا۔ شام کے وقت سورج کی کرنیں زرد پڑتے ہی صحنوں، آنگنوں اور ویہڑوں میں پانی کا چھڑکاؤ شروع ہوجاتا تھا۔ تپتی اینٹوں اور تمازت بھری مٹی سے گرم بخارات اٹھتے لیکن کچھ ہی دیر میں ٹھنڈک یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی۔ گھڑونچیوں پر صراحیوں اور گھڑوں پر لپٹی موٹی نم ٹاٹ کو اور گیلا کردیا جاتا تھااور صراحیوں کے گلوں میں موتیے کے ہار لپیٹے جاتے تھے۔ چاندی کے منقش کٹوروں میں ٹھنڈا صاف پانی جھلمل کرتا اور شفاف شیشے کے گلاسوں میں سرخ شربت لہریں لیتا۔ خوشبودار دم والی چائے کی مہک گھر بھر میں پھیلتی اور خوبصورت کڑھائی والی ٹی کوزی تلے چینی کی چائے دانی نازک پیالیوں کو سیراب کرتی تھی۔ صحنوں میں بچھی چارپائیوں اور پلنگوں پر سفید چاندنیاں رات کی آمد کا اعلان کرتیں۔ عورتیں، لڑکیاں صحنوں اور آنگنوں میں اور مرد چھتوں اور کوٹھوں پر اپنی شب باشی کا اہتمام کرتے تھے۔ اب سہ دری، شش دری، پرچھتی اور برساتی جیسے لفظ بھی متروک ہوئے جو ایک پورے عہد اور رہن سہن کی نمائندگی کرتے تھے۔ شب کے کسی پہر میں بارش ہوتی جس کے آثار اور علامات پہلے سے دیکھ کر اس کے انتظام ہوتے تھے۔ ابتدائی بوندیں پڑتیں توکئی دن کی گرمی کے ستائے چہرے اور جسم کوری مٹی کی طرح ان کا استقبال کرتے۔ بوندیں موسلادھار میں بدلتیں تو چارپائیاں برساتیوں اور پرچھتیوں تلے کھینچ لی جاتیں۔ باقی رات اور باقی بارش اسی منظر کے ساتھ بسر کی جاتی تھی۔
معلوم نہیں اس رات کی بارش نے یاد ماضی میں کیوں کھینچ لیا۔ یاد ماضی کی بھی کیا عجیب طاقت ہوتی ہے۔ اسے ناسٹلجیا کہہ لیجے، یاد ماضی کہہ لیں یا یادش بخیر کا نام دے لیں۔ سچ یہ ہے کہ بڑی طاقت ہے یہ۔ ہوتا یہ ہے کہ ماضی سے فاصلہ بڑھتا جائے تو یہ زیادہ خوبصورت بھی دکھنے لگتا ہے‘ لیکن اگر انسان ماضی پرست ہو نہ ماضی گزیدہ۔ نہ ہمیشہ ماضی میں زندہ رہنا پسند کرتا ہو تو یہ بڑی کمال چیز ہے۔ نہ اتنا برا جتنا لوگ بتاتے ہیں۔ نہ اتنا اچھا جتنا اس کے دیوانے مانتے ہیں‘ اور یہ ماضی بھی کیسی عجیب چیز ہے۔ یاد کرنے پر کبھی قریب لگتا ہے کبھی اتنا دور کہ کسی اور زندگی کا زمانہ لگنے لگتا ہے۔ نسل در نسل یہی ہوتا آیا ہے۔ ہمارے بڑے اپنے بچپن اور اس کے ماحول کو یاد کرتے اور آہیں بھرتے تھے۔ ہم اپنے دور کی بہترین سہولیات کے باوجود اس کم آسائش، کم سہولتوں والے زمانوں کو یاد کرتے ہیں۔ آج کی جو نسل آج کے مناظر کے درمیان بچپن گزار رہی ہے، کل یہی روزوشب ان کے لیے خوابناک ہوں گے۔ وہ کہانی آج بھی جاری و ساری ہے جس میں مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا تھا۔
بیتا وقت کچھ ایسا جادوگر ہو جائے گا
جو بھی مڑ کے دیکھے گا، پتھر ہو جائے گا
یہ لمحہ بھی ماضی بن جائے گا اگلے لمحے
یہ منظر بھی خوابوں کا منظر ہو جائے گا