تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     11-03-2021

انسان زہر کیوں چاٹتا ہے؟

حضرت علیؓ کا یہ قول ہر لمحہ کانوں میں گونجتا رہتا ہے ''اقتدار، اِختیار اور دولت انسان کو بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب کردیتے ہیں‘‘۔ دولت کے حریصوں کے لیے دولت، اقتدار کے پجاریوں کے لیے اقتدار اور اِختیار کی ہوس کے ماروں کے لیے اِختیار ننگی تلوار کی طرح ہوتا ہے۔ جو ٹکرا گیا‘ مارا گیا اور جو رفعِ شر ہوا وہ پار اتر گیا۔ ایک انسان اور ایک سماج کیا‘ ہر معاشرے کا یہی حال ہے۔ جیسے جیسے معاشرت ترقی کی منزلیں عبور کر رہی ہے ویسے ویسے اخلاقی زوال بڑھتا جا رہا ہے۔ سائنس ہمیں نامعلوم سے معلوم کی طرف لے جا رہی ہے مگر ہم ہیں کہ روشنی سے اندھیرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نجانے ہم کیسے لوگ ہیں‘ چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کر رہے ہیں مگر زمین پر زندگی کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے‘ ہمیں اس کا ادراک ہے نہ فکر۔ خون خون کا پیاسا ہے اور انسان انسان کا دشمن۔ اِقدار اِقدار کے درپے ہیں اور اِخلاص اِخلاص کا رقیب۔
بھارتی شہر احمدآباد کی عائشہ نامی لڑکی نے خودکشی سے پہلے جو وڈیو بنائی اُسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ گیا۔ کیا کوئی باضمیر انسان اپنی بیوی کے ساتھ ایسا برتاؤ کر سکتا ہے؟ وہ لڑکی کتنی مجبور، بے بس اور لاچار تھی۔ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی آہیں اور سسکیاں بتا رہی تھی کہ جہیز کتنی بڑی لعنت ہے۔ پیلی پڑتی رنگت سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ سسرال اس کے لیے ''جہنم‘‘ سے کم نہ تھا۔ تڑپتے ہونٹوں سے نکلتے لفظ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ بے حس معاشرے کی فرسودہ روایات نے اُس کے لیے زندگی کو بدبو دار بنا دیا ہے۔ وہ اللہ سے التجا کر رہی تھی کہ میرا کبھی دوبارہ انسانوں سے واسطہ نہ پڑے۔ کیا یہی ہے انسان کی اصلیت؟ کیا اسی لیے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ ملا؟ صدیاں بیت گئی مگر 'مردانگی‘ جہیز کی مٹھی سے آزاد نہیں ہو سکی۔ کیوں؟ یہ صرف بھارت کا روگ نہیں بلکہ ان تمام معاشروں کا درد ہے جہاں بیٹی اور بیٹے کو الگ الگ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں بیٹی کا مناسب رشتہ ڈھونڈنا کوہِ نور ڈھونڈنے کے مترادف ہوتا ہے اور اگر رشتہ آسانی سے مل بھی جائے تو جہیز اکٹھا کرنے میں باپ کی کمر دہری ہو جاتی ہے۔ اللہ اللہ کرکے دونوں کام ہو جائیں تو پھر داماد اور اس کے گھر والوں کے ناز نخرے۔ سونا کم کیوں ڈالا، گاڑی کیوں نہیں دی، یہ چیز سستی کیوں ہے اور وہ چیز کم کیوں۔ جاؤ باپ سے پیسے لے کر آؤ، ماں کے گہنے بیچ دو... خدا کی پناہ! کس کس چیز کی خواہش نہیں کی جاتی۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ دلہن بیاہ کر نہیں بلکہ تول کر لائی جاتی ہے۔ جو جتنا زیادہ جہیز لائے گی‘ وہ اتنا اعلیٰ رتبہ پائے گی۔ جو جتنا کم جہیز لائے گی وہ اتنی رسوا ہو گی۔ اُسے ہر گھڑی طعنے سننا پڑیں گے اور سسرال کا جبر جینے دے گا نہ مرنے۔ یہ ایک گھر کی کہانی ہے نہ ایک شہر اور ایک ملک کی۔ پاکستان میں بھی کتنی ہی عائشہ جیسی لڑکیاں ہیں جو دن رات ظلم کی چکی میں پستی ہیں مگر اپنا دکھ بیان کرتی ہیں نہ کھل کر روتی ہیں۔ وہ والدین کی عزت کے لیے ساری عمر بیگانے کوہلوں کا بیل بنی رہتی ہیں مگر کبھی مڑ کر باپ کی چوکھٹ کی طرف نہیں دیکھتیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں جہیز کی وجہ سے لڑکیوں پر تشدد کا رجحان اور اس کے نتیجے میں خود کشیوں کا گراف بڑھ رہا ہے۔ سالانہ دو ہزار سے زائد لڑکیاں اس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گیلپ سروے کے مطابق تقریباً نوے فیصد پاکستانی جہیز لینے اور دینے کو معاشرتی برائی نہیں سمجھتے۔
حضرتِ انسان کو سوچنا ہو گا کہ کہیں یہ سب اس لیے تو نہیں کہ ہم نے اپنی محدود ضروریات کو لامحدود خواہشات کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ ہم اپنی چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلاتے بلکہ دوسرے کا کمبل دیکھ کر من مانی کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی آمدنی کے مطابق جینے کا سلیقہ آتا ہے نہ ڈھنگ۔ ہم نے خود کو زمانے کے زندان میں قید کر دیا ہے۔ ہم اپنے سارے فیصلے دوسروں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ جو لوگ کرتے ہیں وہ ہم کرتے ہیں اور جو لوگ نہیں کرتے وہ ہم بھی نہیں کرتے۔ کبھی صرف علم کو امارت اور اعلیٰ مرتبی کی علامت گردانا جاتا تھا مگر جب سے کوا ہنس کی چال چلنے لگا ہے‘ سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔ اب 'باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ‘ ہے۔ اب آدمی کا احترام آدمیت کی نسبت سے نہیں بلکہ مال ودولت کی فراوانی سے کیا جاتا ہے۔ بچہ کون سے سکول میں جاتا ہے؟ کیا پہنتا ہے اور کون سے کھیل کھیلتا ہے؟ ماں باپ نے تعلیم کہاں سے اور کتنی حاصل کی ہے؟ یہ سب ہمارے اپنے بنائے ہوئے معیارات ہیں اور ہم ایک دوسرے کو ایسے ہی پرکھتے ہیں۔ گھر کس سوسائٹی میں ہے؟ گاڑی ہے یا نہیں؟ کاروباری شخصیت ہے یا سرکاری بابو؟ دن میں کیا کماتا ہے اور مہینے میں کتنا؟ ہم صبح و شام اسی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی نظروں میں ''معتبر‘‘ بننے کے لیے سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ہم سچ مچ بدل گئے ہیں مگر کیا یہ تبدیلی ہمارے ضمیر کی تبدیلی تو نہیں؟
انسان جو کبھی دیانت، لیاقت اور صداقت کا پیکر ہوا کرتا تھا اب حرص، غرض اور لالچ کا سوداگر بنتا جا رہا ہے۔ ہم جب بھی کسی اجنبی سے ملتے ہیں تو پہلے سوچتے ہیں کہ یہ شخص میرے کسی کام آ سکتا ہے یا نہیں۔ اگر بندہ، بندہ پرور ہو تو ہم جان واری کر دیتے ہیں اور اگر بندہ، بندہ نوازی کی حیثیت نہ رکھتا ہو تو ہم جان چھڑانے میں دیر نہیں لگاتے۔ کس سے کتنی دیر بات کرنی ہے اس کا فیصلہ ہم مخاطب کا مرتبہ اور حیثیت دیکھ کرتے ہیں۔ اب ہماری نظر میں کوئی ڈاکٹر اہمیت رکھتا ہے نہ انجینئر، کوئی پروفیسر نہ عالم۔ہاں البتہ! ظاہری کشش کی اہمیت بہت ہے۔ گاڑی، گھر اور بینک بیلنس ہے تو اَن پڑھ بھی چلتا ہے اور اگر جیب خالی ہے تو آج کل کے زمانے میں ذہانت کا تو اچار بھی نہیں ڈالا جاتا۔ یقین مانیں، ہم دکھاوے کی دنیا کے شہنشاہ بنتے جا رہے ہیں اور سوشل میڈیا نے ہمیں اخلاقی طور پر کہیں کا کہیں پہنچا دیا ہے۔ ہم کبھی کسی اچھی جگہ سے کھانا کھا لیں تو دوسروں کو دکھانے کے لیے تصویر پوسٹ کر دیتے ہیں، ہوائی جہاز میں سفر کر لیں تو احباب میں ڈھنڈورا پیٹنے سے باز نہیں آتے۔ نئی گاڑی خرید لیں، کسی بڑے ہوٹل میں قیام کر لیں، کسی بڑی شخصیت سے مل لیں، کسی دعوت میں نیا سوٹ زیبِ تن کر لیں یا کوئی اور اسی طرح کا معرکہ مار لیں‘ ہم کبھی اپنا وار خالی نہیں جانے دیتے۔ ہم رشکِ قمر بننے کی آرزو میں چیخ چیخ کر سارے زمانے کو متوجہ کرتے ہیں۔ ہمیں بناوٹ اور کھوکھلے پن کا ناگ شب و روز ڈس رہا ہے مگر مجال ہے کہ ہم ٹَس سے مَس ہوتے ہوں۔
شیخ سعدی کا قول ہے کہ جب انسان سڑک اور کنویں کا فرق بھول جاتا ہے تو کنویں میں گرنا ناگزیر ہو جاتا ہے جبکہ رومی فرماتے ہیں کہ شہد اور موم میں فرق نہ کرنے والے کے منہ سے کبھی کڑواہٹ نہیں جاتی۔ غضب یہ ہے کہ ہمیں ادراک ہی نہیں کہ ہم کس پاتال میں گرنے کوتیار کھڑے ہیں۔ ہم جو آسمان کا نور تھے‘ زمیں کی خاک کیسے ہو گئے؟ ہم جو سچ کے ساتھی تھے‘ جھوٹ کے پیروکار کیوں بن گئے؟ ہم جو اصل کے داعی تھے‘ نقل کے محافظ کیسے ہو گئے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم ازل سے ہی ایسے تھے یا زمانے کی گرد میں اَٹ کر ایسے ہوئے ہیں؟ ہمیں غور و خوض کرنا ہو گا کہ ہم بدل گئے ہیں یا بے نقاب ہوگئے ہیں؟ ہمیں فکر کا دیا جلانا ہو گا تاکہ معلوم ہو سکے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے انسانیت کا معیار کیوں گراتا جا رہا ہے؟ وہ اپنی نادیدہ تمناؤں پر ململ کی چادر ڈالنے کے لیے جہیز جیسا زہر کیوں چاٹ رہا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved