براعظم ایشیا اور افریقہ کا نقشہ اگر آپ کے سامنے ہو تو آپ با آسانی اس پر بحیرۂ کیسپین تلاش کرسکتے ہیں۔ خشکی میں گھرے ہوئے اس سمندر کی تہہ میں گیس اور تیل کے اتنے ہی بڑے ذخائر ہیں جتنے اس وقت قطر کے تصرف میں ہیں۔ ان ذخائر میں ایران، روس، ترکمانستان، آزربائیجان اور قازقستان حصہ دار ہیں ۔اس حصہ داری کی بنیاد یہ ہے کہ کیسپین کے ساحل ان پانچوں ملکوں کو چھوتے ہیں۔ اپنے حصے میں آنے والے علاقے میں سے ایران تو مناسب انداز میں اس معدنی دولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن کھلے سمندر تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ترکمانستان اپنے حصے کا تیل اور گیس بیچنے کے لیے روس کا محتاج ہے ۔ اس مجبوری کا فائدہ روس یوں اٹھاتا ہے کہ ترکمانستان کا تیل اور گیس عالمی سطح سے کہیں کم قیمت پر خریدتا ہے اور پھر عالمی قیمتوں پر یورپ کو فروخت کردیتا ہے۔ ترکمانستان کے صدر نورسلطان نذر بایوف نے انیس سو نوے کی دہائی میں اس معاشی شکنجے سے نکلنے کے لیے امریکہ کی طرف رجوع کیا ، امریکیوں نے ترکمانستان سے براستہ افغانستان، پاکستان اور بھارت تک ایک گیس پائپ لائن کا ایک معقول منصوبہ پیش کیا ۔ یہ گیس پائپ لائین نورسلطان کا خواب بن گئی اور اس کی افادیت سے پاکستان اور افغانستان بھی متفق ہوگئے ۔ جب امریکہ نے اس معقول منصوبے کی بنیاد پر دھونس جمانا چاہی تو افغانستان میں طالبان اور پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے کوئی بھی فیصلہ ماننے سے انکار کردیا۔ یوں ترکمانستان کی روسی شکنجے سے نکلنے کی اس کوشش کے نتیجے میں افغانستان میں مفادات کی ایک ایسی آگ بھڑک اٹھی جو آج تک لاکھوں انسانوں کو جلا کرراکھ کرچکی ہے اس جنگ نے افغانستان کے ساتھ تو جو کچھ کیا سو کیا لیکن پاکستان جو بحیرہ کیسپین میں موجود توانائی کے ذخائر کی ایک اہم منڈی اور گزرگاہ بننے والا تھا نہ بن سکا۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے آپ نقشے پر کیسپین کے اس کنارے پر انگلی رکھیں جو قازقستان کو چھو رہا ہے۔ اب اس انگلی کو آپ پاکستان کی طرف کھینچنا شروع کردیں۔ آپ قازقستان سے گزرکر ، افغانستان اور پھر پاکستان پہنچ جائیں گے۔ جیسے ہی آپ کی انگلی سے کھینچی ہوئی یہ لکیر پاکستان میں داخل ہو آپ اس کا رخ کراچی کی طرف کرلیں۔ نقشے پر سفر کرتے ہوئے آپ بحیرہ عرب میں جا نکلیں گے اورجزیرہ نمائے عرب کے سامنے سے گزرتے ہوئے افریقہ پہنچ جائیں گے۔ اب تک آپ کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ آپ ایک قوس کی صورت سفر کررہے ہیں اور سوڈان سے گزرتی ہوئی یہ قوس الجزائر تک چلی جاتی ہے ، جس سے آگے یورپ شروع ہوجاتا ہے۔ اس قوس کے دائیں جانب یورپ تک جتنے بھی ملک آتے ہیں ان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ نقشے پر آپ کی کھینچی ہوئی اس لکیر کو عالمی سیاست میں مسلم کریسنٹ کہا جاتا ہے اسی کو علامہ اقبال نے ’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘ کہہ کر واضح کیا ہے۔اس ہلال میں دنیا کے ایک ارب کے قریب مسلمان بستے ہیں۔ اب آپ ذرا غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس ہلال پر پاکستان ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں یہ وسطی ایشیاکے لیے ایک دروازہ ہے اور گویا عرب او ر مسلم افریقہ اس کے سامنے پھیلے ہوئے ہیں۔ کیسپین سے جبرالٹر تک کے اس علاقے میں پاکستان کو نکال کر ان ممالک میں سے کسی ایک کے پاس بھی ایٹمی طاقت نہیں، ہمارا نظام تعلیم بہت براسہی لیکن حالت یہ ہے کہ دنیا کے اس حصے کی بہترین یونیورسٹیاں پاکستان میں ہیں، ترکی کو چھوڑ کر کوئی ایک بھی ایسا ملک اس خطے میں موجود نہیں جو شوگر مل کی مشینری بنا سکے،اس قوس میں آنے والا واحد ملک پاکستان ہے جہاں لمحۂ موجود میں ایک مستحکم جمہوری نظام ایک دستور کے تحت کام کررہا ہے، ان ملکوں میں کسی ایک کے پاس بھی پاکستان جتنی بڑی فوج موجود نہیں اور کسی کے پاس ایسا میزائل نظام موجود نہیں جو ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ مار کرسکے۔ صرف پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس ایسی بیلاسٹک ٹیکنالوجی موجود ہے جو ترکمانستان سے لے کر الجزائر تک کسی بھی حملہ آور کو مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔ یہ خصوصیات پاکستان کو اس علاقے کی ایک ایسی مرکزی ریاست بنا دیتی ہیں جو کیسپین سے لے کر الجزاء تک کے ملکوں کو احساس تحفظ دے سکتی ہے۔ پاکستان کی اسی مرکزیت کو ’تہذیبوں کے تصادم ‘ کے نظریے کا خالق سیموئل پی ہنٹنگٹن ’کور سٹیٹ‘ (Core State) کہتا ہے۔ اس کے خیال میں پاکستان اپنی تہذیبی ، اقتصادی اور فوجی قوت کی بنیاد پر اس کا اہل ہے کہ مسلم تہذیب کے حامل تمام ممالک کی قیادت کرے۔ اس کا یہ کردار بالکل اسی طرح کا ہوگا جیسے امریکہ کا مغربی تہذیب کے حوالے سے ہے۔ اگر مسلم تہذیب کو ایک بار پاکستان جیسا قائد مل گیا تو پھر یہ تہذیب با آسانی مغربی تہذیب کا ایک متبادل پیش کرسکتی ہے۔ ہنٹنگٹن کے خیال میں ترکی اپنی خصوصیات کی بناء پر پاکستان کے معاملے میں مسلم دنیا کی قیادت کا دعویدار ہوسکتا ہے لیکن پاکستان کے ایٹمی دھماکے نے عالمی سیاست کی بساط پر جو تبدیلیاں کی ہیں ان کی وجہ سے پاکستان اس پورے خطے کی قیادت کا اہل قرار پاتا ہے۔ ہنٹنگٹن نے یہ نظریہ انیس سوچھیا نوے میں پیش کیا ، لیکن آپ داد دیجیے پاکستانی سیاستدانوں کی وسعتِ فکر کی کہ انہوں نے اس سے بہت پہلے اپنے اس کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم قدم آگے بڑھنا شروع کردیاتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام جیسے اہم ترین منصوبوں کی بنیاد رکھ کر دنیا کو ہلکے سروں میں یہ پیغام دے دیا کہ ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے ۔ پھر نواز شریف نے مسلم دنیا میں ان تعلقات کو آگے بڑھایا، موٹر وے اور گوادر کے ذریعے دنیا کو اپنے ساتھ منسلک کرنے کی بامعنی کوشش کی اور موقع پاکر ایٹمی دھماکے کے ذریعے اپنی طاقت کا احساس بھی دلا دیا۔ سیاست دانوں کی ان کوششوں کو تباہ کرنے کے لیے پاکستان کے دشمن کبھی آمریت کی گھات سے حملہ آور ہوئے اور کبھی دہشت گردی کی آڑ لے کر آگے بڑھے۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان جیسے مضبوط معاشرے کو وہ سوائے آمریت کے کسی اور طرح ترقی کرنے سے نہیں روک سکتے۔پرویز مشرف کی حکومت انہی سازشوں کا نکتۂ عروج تھی کیونکہ انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے پاکستان کے ہر مفاد پر سودے بازی کرلی۔ انہوں نے ملکی سیاست میں پاک فوج کے کردار کو ملوث کرکے اسے قومی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ دنیا جانتی ہے کہ پرویز مشرف کو دستور شکنی کی سزا دے کر پاکستانی فوج سیاسی تنازعات سے پاک ہوجائے گی ۔ پھر یہ پاکستان کو اتنی بڑی طاقت بنا دے گی کہ یہ افغانستان میں جاری گریٹ گیم پر اثرانداز ہوسکے گا۔آمریت کے وضع کردہ اسٹریٹیجک گہرائی کے بے معنی تصور سے نکل کر ہم تزویراتی پیش قدمی کرنے لگیں گے۔ پرویز مشرف کا انجام پاکستانی عوام کے اس ارادے کا اعلان ہے وہ کیسپین سے لے کرجبرالٹر تک امن و ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آمریت ہمارے ارادوں کی کمزوری کا اظہار تھی، اس کا انجام ہمارے اداروں کی مضبوطی کا مظہر ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved