چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل ہی اپوزیشن اتحاد اور اس کے حمایتی میڈیا کی طرف سے یہ تاثر قائم کیا جا چکا ہے کہ اپوزیشن کو سینیٹ میں صادق سنجرانی کے 48 حمایتی ووٹوں کے مقابلے میں 53 ووٹوں کی برتری حاصل ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ کے سینیٹر اسحاق ڈار لندن میں موجود ہیں اور وہ ووٹنگ کے لیے نہیں آئیں گے۔ بلوچستان میں چھ جماعتی اتحاد کی حکومت ہے جن میں سے دو‘ BAP اور تحریک انصاف کے علاوہ سب کو اپوزیشن اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہے حالانکہ اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے حکومتی امیدواروں کی حمایت کا امکان ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک ووٹ کو بھی پی ڈی ایم اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال جماعت اسلامی کسی کے حق میں نہیں اور اس کی طرف سے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ (سابقہ) فاٹا کے سینیٹرز‘ جنہیں اپوزیشن اپنے کھاتے میں شامل کر رہی ہے‘ کے متعلق سبھی جانتے ہیں کہ ان کا پلڑا ہمیشہ حکومتی امیدوار کے حق میں ہی جھکا ہے۔ اس لئے اندازہ کر لیجئے کہ نتیجہ کیا ہو گا لیکن تیز طرار اپوزیشن ابھی سے ایسی گرائونڈ بنا رہی ہے کہ ہارنے کی صورت میں حکومت اور اداروں پر گند اچھال کر دھاندلی کا شور مچا سکے۔
لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین میثاق جمہوریت نامی جس دستاویز پر اتفاقِ رائے ہوا تھا‘ اس کی شق 23 دستخط کرنے والوں کے وارثوں اور اس موقع پر وہاں موجود گواہان کو زور زور سے پکارتے ہوئے اپنی جانب متوجہ کر نے کی ناکام کوشش کر رہی ہے کہ آپ آئین کی بالا دستی کا رونا روتے ہیں، آئین کی حکمرانی کیلئے دہائیاں دیتے ہیں، ووٹ کو عزت دوکے نعرے لگاتے ہیں لیکن اس ووٹ کی عزت بڑھانے کیلئے اس کی خرید و فروخت کی روک تھام کے لیے میثاق جمہوریت میں جو معاہدہ قرار پایا تھا کہ سینیٹ انتخابات کھلی رائے عامہ کے ذریعے ہوں گے‘ اس کے بعد دس سال تک دونوں پارٹیوں نے ملک پر حکمرانی کی مگر اس شق پر عمل کیوں نہیں کیا جس پر آپ نے دستخط بھی کر رکھے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن اور رضا ربانی‘ جو اس وقت لندن کی اس تقریب میں خود بھی موجود تھے‘ اور انہوں نے یہ دستاویز فائنل بھی کی، پی ڈی ایم کو اس کا وعدہ کیوں یاد نہیں دلاتے کہ ''سینیٹر کے الیکشن کیلئے سیکرٹ نہیں بلکہ اوپن بیلٹنگ پالیسی اختیار کی جائے گی اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا‘‘۔
سینیٹرز کے چنائو کے دوران کسی پارٹی کے پاس مطلوبہ ووٹ نہ ہونے کے باوجود اگر اس کا امیدوار کامیاب ہو جاتا ہے تو سب کی انگلیاں یہ کہتے ہوئے اس پر اٹھتی ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے، اگر کسی نے فلور کراسنگ بھی کی ہے تو ایسی صورت میں مروجہ قوانین کا حرکت میں آنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپن ووٹنگ کا مطالبہ ملک میں روپے پیسے سے ووٹوں کی خرید و فروخت کے سامنے بند باندھنے کے مترادف ہے کیونکہ دیکھا جائے تو ہمارے جیسے ممالک میں جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر کالے دھن اور ملکی مفادات کا بیوپار چل رہا ہے۔
میثاقِ جمہوریت کی شق 23 کو روندتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اگلا مرحلہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا ہے لیکن پوری پی ڈی ایم اور اس کے حمایتی دن رات ایک ہی رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ کل تک اوپن ہائوس ووٹ کا قانون نافذ نہیں ہو سکا تو اب پی ٹی آئی حکومت کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ ملک میں شفاف اور صاف چنائو کی داغ بیل ڈالتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے سیکرٹ بیلٹ کے بجائے اوپن بیلٹ کا قانون منظور کرائے جس کیلئے تمام اپوزیشن جماعتیں اس کا بھرپور ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ پی ڈی ایم اور اس کے حمایتیوں کی پوری فوج صبح سے شام تک اب حکومت پر لفظی گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے اور بدقسمتی کہہ لیجئے کہ تحریک انصاف کے ترجمان اس سلسلے میں رائج قانون اور قاعدے کا حوالہ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگر چیئرمین اور سینیٹرز کے انتخاب کے طریقہ کار کا جائزہ لیں تو سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کے پاس اپنی پارٹی کا جاری کیا ہوا ٹکٹ ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے اسے الیکشن کیلئے پارٹی کا سمبل الاٹ کیا جاتا ہے‘ سوائے ان امیدواران کے جو آزاد حیثیت سے اس انتخاب میں حصہ لیتے ہیں! یوسف رضا گیلانی جنہیں پی ڈی ایم کی حمایت درکار تھی‘ چونکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اس لیے انہیں پی پی کا سمبل اور ٹکٹ جاری کیا گیا لیکن جب وہ چیئرمین سینیٹ کے امیدوار بنے تو اب ان کی پوزیشن تھوڑی مختلف ہے۔
چیئرمین سینیٹ کسی مخصوص پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ نہیں لیتا، نہ ہی اسے کسی پارٹی کا ٹکٹ اور سمبل الاٹ ہوتا ہے، عمومی طور پر وہ کسی اتحاد یا بہت سی پارٹیوں کا مخلوط امیدوار ہوتا ہے۔ پاکستان میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کی تاریخ دیکھیں تو صرف ایک پارٹی کے ووٹوں سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کی ایک بھی مثال نہیں ملتی اور اس کی تصدیق کیلئے زیادہ تردد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ سینیٹ اور میڈیا کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے ایوانِ بالا کی تاریخ میں اب تک کوئی چیئرمین ایک ہی سیاسی جماعت کے ووٹوں سے کیوں منتخب نہیں ہو سکا‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اتنی اکثریت ہی نہیں ہو سکی۔ پاکستان میں کسی بھی جماعت کے پاس کبھی بھی سینیٹ کے ایوان میں اپنا چیئرمین منتخب کرانے کیلئے درکار 51 ووٹ نہیں رہے ہیں۔
اس کے برعکس اگر قومی اسمبلی کے سپیکر کی بات کی جائے تو سپیکر ہمیشہ کسی پارٹی کا امیدوار ہوتا ہے جو سادہ اکثریت سے منتخب کیا جاتا ہے‘ اسی طرح وزیراعظم بھی کسی ایک پارٹی سے منتخب ہو سکتا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس انتخاب کیلئے بھی مختلف جماعتوں یا اتحادوں کے ووٹ شمار کئے جاتے ہیں۔ اس کی دنیا بھر میں بے تحاشا مثالیں موجود ہیں۔ عمومی طور پر عام انتخابات سے پہلے یا حکومت سازی سے قبل ہی کچھ اتحاد وجود میں آ جاتے ہیں جو بعد میں اقتدار میں حصہ دار بھی بنتے ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب، اعتماد یا عدم اعتماد کے دوران ان کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ہارس ٹریڈنگ یا فلور کراسنگ کرتا پایا جائے تو اس پر '' ڈی سیٹ‘‘ ہونے کا قانون لاگو ہوتا ہے لیکن اتحادی اس قانون کی زد میں نہیں آ سکتے۔ اسی لیے خیال کیا جا رہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے بطورِ سینیٹر منتخب ہونے میں یہی معاملہ پیش آیا۔
آج کچھ اینکرز اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان حکومت کو اخلاقیات اور اوپن بیلٹنگ کا قانون یاد دلا رہے ہیں تو ان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ حضور آپ کسی بھی زاویے سے یا اپنی پسند کے حساب سے کوّے کی بھلے تعریف کیجئے لیکن کوّے کو سفید کرنے کی ضد نہ کریں۔ بطور چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف جب پی پی پی اور مسلم لیگ نواز نے باہم مل کر عدم اعتماد کا ڈول ڈالا تو اس کا حوالہ دیتے ہوئے پی ڈی ایم اور کچھ اینکرز سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس وقت سیکرٹ بیلٹ کا طریقہ کار کیوں استعمال کیا گیا؟ اب اگر سینیٹرز کے الیکشن میں الیکشن کمیشن نے یہی طریقہ استعمال کیا ہے تو اس پر اعتراض کیوں؟ اس پر اگر مروجہ قاعدے اور قانون کو سامنے رکھیں تو بات یہ ہے کہ صادق سنجرانی صاحب کسی ایک سیاسی جماعت کے ووٹوں سے نہیں بلکہ فاٹا کے سات اراکین کے علاوہ اس وقت کی بہت سے آزاد اور چھوٹی جماعتوں کے ووٹوں سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے تھے اور اگر اس سے قبل صادق سنجرانی صاحب کے چیئرمین منتخب ہونے کا انتخاب دیکھا جائے تو اس وقت وہ ایم کیو ایم کے پانچ ارکان کے بائیکاٹ کے باوجود راجا ظفر الحق کے 46 ووٹوں کے مقابلے میں 57ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے جس پر 12 مارچ 2018ء کو بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کیا تھا کہ
Zia's opening batsman defeated. Balochistan wins. Federalism wins. Congratulations Chairman Senate Sadiq Sanjrani.