تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     13-03-2021

سیاسیات اور اخلاقیات

عالمی سیاست اور بین الاقوامی معاملات پر ایک نظر ڈالیے! آپ پر بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ایک یہ کہ دنیا بھر میں رہنما تعلیم اور اجتماعی مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں‘ کوششیں کر رہے ہیں اور اپنی اخلاقیات اور اخلاقی ضابطوں کے تحفظ کے لیے وہ اپنے کیریئر کی قربانیاں دے رہے ہیں‘ مگر یہاں ہمارے ملک میں رہنما‘ شخصیات اور ذاتی مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی ایمان داری اور سچائی کو پامال کرنے سے بھی دریع نہیں کر رہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مختلف جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد ہے جن کے رہنما ماضی میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے درپے تھے۔ ایسا اتحاد قائم کرتے ہوئے ظاہر ہے کہ بنیادی نظریات اور سماجی اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اس اتحاد کے کرتا دھرتا ماضی میں ایک دوسرے کو ''چور‘‘، ''ڈاکو‘‘ اور ''آمر کی گود میں پلا ہوا‘‘ جیسے القاب سے نواز چکے ہیں۔ تمام حکمران طبقوں اور سکیورٹی کے اداروں کو اصول اور اخلاقیات کی پاس داری کرنی چاہئے اور سب سے بڑھ کر ان لوگوں کو جو اداروں کو نظام میں بگاڑ کے لیے اکساتے ہیں۔
اب ایک نظر عالمی منظر پر ڈالتے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کبھی بھی سکولوں کو دوبارہ بند نہیں کریں گے‘ جبکہ جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے کورونا پر یہ بات ابتدائی دنوں میں ہی واضح کر دی تھی کہ ہم بچوں کو غیر معینہ مدت تک سکول سے دور رکھ کر انہیں اندھیروں میں نہیں دھکیل سکتے۔ مگر ہمارے ہاں یوں محسوس ہوتا ہے کہ رہنماؤں نے کورونا وائرس کے مسئلے کو بھی سیاسی مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ کچھ طلبا کے حق میں ہیں اور آن لائن امتحانات کے حق میں باقاعدہ ان کا ساتھ دے رہے تھے‘ یہاں تک کہ سیاسی قیادت کے ایک حصے نے طلبا کے ''جمہوری‘‘ مطالبات مانے جانے پر یہ حقیقت اچھی طرح جانتے ہوئے بھی زور دیا کہ یہ ملک پہلے ہی ناقص تعلیمی معیار کا شکار ہے اور یہاں شرح خواندگی پہلے ہی اطمینان بخش نہیں ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ طلبا سہولت یعنی دھوکہ دہی کی تلاش میں ہیں لیکن بد قسمتی سے طلبا اور سیاسی رہنما یہ بحث جیت گئے اور کئی امتحانات آن لائن ہی ہوئے۔
ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں سیاست دان قانون اور اپنے حلف کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ جب دھوکہ دیتے‘ جھوٹ بولتے یا اتھارٹی کا غلط استعمال کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں تو وہ سبک دوش ہو جاتے ہیں لیکن یہ اوصاف ہمارے رہنماؤں کی گفتگو کا لازمی عنصر تو ہیں‘ لیکن عملی طور پر اس جذبے کا فقدان ہے۔ جرمنی میں انگیلا مرکل کی سی ڈی یو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نیکولس لیبل کو 8 مارچ کو سی ڈی یو پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرنا پڑا‘ جب یہ انکشاف ہوا کہ اس کی فرم نے وبائی امراض کے دوران چہرے کے ماسک کی فروخت سے تقریباً 250,000 سے 300,000 یورو کمائے تھے۔ اس پر عوامی دباؤ اتنا شدید تھا کہ گھنٹوں میں ہی لیبل نے پارلیمنٹ سے بھی استعفا دے دیا حالانکہ اس سے قبل انہوں نے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح کے ایک اور معاملے پر ایک اور قانون دان جارج نولین کو بھی استعفا دینا پڑا۔ ایم پی جارج نولین نے کہا کہ وہ کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) چھوڑ رہے ہیں۔ سی ایس یو رہنماؤں نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ پارٹی کو مزید نقصان سے بچانے کے لیے نولین کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ ناگزیر تھا۔ مارچ ہی کے پہلے ہفتے میں سی ڈی یو کے ایک اور قانون ساز کو بھی اس معاملے کے تناظر میں مستعفی ہونے کا اعلان کرنا پڑ گیا تھا۔ ایک ہفتے میں یہ اس جماعت کے تیسرے رکن پارلیمان کا استعفا تھا۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہوئی، جب آئندہ اتوار کو جرمنی کے دو صوبوں میں علاقائی انتخابات ہونا ہیں۔
ادھر ہمارے ہاں کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ سیاست دان وکلا کی مدد سے آئینی اور قانونی ابہام کو استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی چیزوں کا دفاع کرتے ہیں جس کا انہیں شاید کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہوتا۔ سرکاری زمین پر وکلا کے دفاتر مسمار کرنے سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے حامد خان صاحب نے غیر قانونی ڈھانچے کا دفاع کرتے ہوئے دلیل دی کہ یہاں نجی زمینوں پر عدالتیں بھی غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہیں۔ معزز چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہم غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اراضی اور اس کے بعد تعمیر شدہ ڈھانچے کے حق میں حکم امتناعی (سٹے آرڈر) کیسے دے سکتے ہیں؟ بعد ازاں اسی طرح کے معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے سیشن جج کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ایف 8 مرکز کے تجارتی علاقے میں کچھ تجاوزات کی گئی ہیں‘ کچھ عدالتیں غیر قانونی طور پر ایک شہری کے ملکیتی پلاٹ پر تعمیر کی گئی ہیں‘ اس کے لیے کوئی کرایہ یا معاوضہ بھی نہیں تھا۔ اس پر عدالت نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو ماتحت عدالتوں کے ذریعے کی جانے والی غیر قانونی تجاوزات دور کرنے کی ہدایت کی۔
کیا کوئی شخص نجی یا سرکاری زمینوں پر ایسی تجاوزات کا تصور کر سکتا ہے؟ مگر اسلام آباد کے ایف 8 مرکز کے علاقوں میں یہ ہوا۔ ایک معاملے میں کچھ وکیلوں نے ایک پلازے کے عقبی حصے میں ایک سٹیل کی سیڑھی کاٹ کر پلازے کے لیے ایمرجنسی ایگزٹ اور اپنا دفتر تعمیر کیا۔ بالآخر فٹ بال گرائونڈ اور کار پارکنگ میں 300 سے زیادہ وکیلوں کے چیمبرز تعمیر ہوئے۔ ان میں سے بیشتر نے اپنے دفاتر کے لیے کنڈے لگا کر بجلی حاصل کی ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے قانون کے شعبے سے وابستہ متعدد شخصیات نے F-8 مرکز میں عوامی اراضی پر قبضے‘ بجلی کی مبینہ چوری کے باوجود اپنے ساتھیوں کے اس سراسر نا جائز عمل کی حمایت کی اور ان کا دفاع کیا۔ حقیقت میں جونیئر اور سینئر عدالتوں میں اپنے مقدمات پر بحث کرنے کے لیے قانون پر انحصار کیا گیا جو ایک طرح سے قانون کا مذاق اڑانے جیسا لگتا ہے۔ شنید ہے کہ اسلام آباد‘ لاہور‘ ملتان‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ میں متعدد سیاست دان بھی عوامی املاک اور اثاثوں پر اسی طرح کے قبضے میں ملوث رہے ہیں۔
ہم نے سینیٹ کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں بھی قانون اور اخلاقیات سے متعلق ان معاملات کا مشاہدہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ عوام کب تک زور آوروں کے ذریعے جھوٹ‘ غلط معلومات اور فراڈوں کے معاملات کو پس پشت ڈالتے رہیں گے؟ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی پی ٹی آئی کے ایک جذباتی کارکن کے لیے دھمکی کو ہی لے لیں۔ چند روز پہلے جب پی ٹی آئی کے ہجوم نے ڈاکٹر مصدق ملک اور ان پر حملہ کیا تو سابق وزیر اعظم بھی اس نوجوان اور جذباتی کارکن ہی کی سطح پر آ کر کہنے لگے کہ کوئی اگر مجھ پر حملہ کرے گا تو سٹریچر پر جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ قومی سطح کے رہنما کیسے اپنے آپ کو کالج کے طلبا‘ جو کہ انتہائی جذباتی ہوتے ہیں‘ سے الگ کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے کہ بردباری‘ دلیل‘ تحمل اور شائستگی سے۔ اگر ان کے کارکنان اپنے رہنماؤں کو حراست میں لینے والے افراد کو سزا دینے کے لیے بھی یہی سلوک کرتے ہیں تو وہ کیا کریں گے؟ جواز یا مذمت؟ اگر دھوکہ دہی اور جھوٹ بولا گیا یا یو ٹرنز کا دفاع کرنے کے لیے مزید جھوٹ بولا گیا تو معذرت کی پیش کش کریں۔ مشتعل پیروکاروں کو پُر سکون بنائیں۔ یا پھر کیا یہ مان لیا جائے کہ اخلاقی اقدار اور اصول پاکستانی سیاست میں ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved