شاید انسان کو اپنا ماضی میں رہنا اور اس کے بارے میں سوچنا اچھا لگتا ہے کیونکہ ماضی واپس نہیں لوٹ سکتا اور نہ ہی آپ کو ہرٹ کر سکتا ہے۔
جمعہ کے روز سینیٹ کی پریس گیلری میں بیٹھے خیال آیا کہ اس ہائوس میں آج سے انیس برس قبل آنا اور سیاسی رپورٹنگ شروع کی تھی۔گیلری صحافی دوستوں سے بھری ہوئی تھی لیکن ان برسوں میں بہت سے ایسے چہرے دیکھے جن سے آشنائی نہ تھی۔ نئے صحافیوں کی کلاس اب پارلیمنٹ کوّر کرتی ہے۔ نوجوان صحافی چہرے دیکھے جو جوش اور جذبے سے سرشار تھے۔
ایک دور تھا جب شاہین صہبائی، ضیاالدین، عامر متین، نصرت جاوید، محمد مالک، مرحوم فصیح الرحمن انگریزی میں پارلیمنٹ ڈائری لکھتے تھے‘ اور کیا کمال لکھتے تھے۔ اس نوجوان نسل نے بہت کم ان لیجنڈز کو پڑھا ہو گا۔ سب نے پاکستان کی پچھلے تیس برسوں کی سیاست کو قریب سے دیکھا۔ وہ وقت بھی دیکھا‘ جب یہ کسی نہ کسی انگریزی اخبار میں ڈائری لکھتے تھے تو سب سیاستدانوں کے ڈارلنگ ہوتے تھے‘ لیکن اگر کوئی عامر متین کی طرح جنرل مشرف دور میں لکھنے سے روکا گیا اور وہ منظر سے غائب ہوا تو مجال ہے کسی نے مڑ کر پوچھا ہو کہ کیسے ہو؟
ہائوس میں گیلانی صاحب اور سنجرانی صاحب کے مابین جاری مہابھارت دیکھتے ہوئے یاد آیا کہ دھیرے دھیرے سیاست نے وہ رنگ پکڑے کہ صحافی بھی دلچسپی چھوڑتے گئے۔ سیاسی ڈائریاں لکھنے کا رواج کم ہوتا گیا۔ اب نصرت جاوید نے اکیلے وہ محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی سیاسی ڈائریاں لکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ پارلیمنٹ جانا چھوڑا اور نہ ہی سیاست اور سیاستدان اور ان کی سیاسی حرکتوں میں اپنی دلچسپی ختم کی۔ آج بھی ان کے لکھے سیاسی کالم اپنا اثر رکھتے ہیں۔ نصرت جاوید نے ہی یہ خبر بریک کی تھی کہ یوسف رضا گیلانی کو پی پی پی سینیٹ الیکشن میں لا رہی ہے۔ کوئی ماننے کو تیار نہ تھا۔ خود گیلانی صاحب اور ان کے بچوں کو بھی نصرت جاوید کے کالم سے پتا چلا کہ وہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اب ہماری جگہ نئے چہروں نے لے لی ہے۔ ٹی وی جرنلزم کی وجہ سے اب اخبارات میں لکھی گئی سیاسی ڈائریاں اتنی اہم نہیں رہیں‘ لیکن نصرت جاوید جیسے پرانے لکھاری اب بھی سیاسی رپورٹنگ کے میدان میں سب سے آگے ہیں۔ ہائوس کے اندر جاری ووٹنگ کو دلچسپی سے پریس گیلری سے مانٹیر کیا جا رہا تھا۔ میں متاثر ہوا کہ ہمارے نوجوان رپورٹر لڑکے‘ لڑکیاں اس اہم ایونٹ کو اتنی ہی دلچسپی سے کوّر کررہے ہیں جتنی دلچسپی سے اسے کوّر کرنا چاہئے۔ ہمارے صحافی دوست وقار ستی جس طرح دور سے ووٹوں کو گنتے وقت ایک ایک ووٹ کا حساب رکھ رہے تھے‘ اس نے بڑا متاثر کیا۔
یہ بات طے ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں انٹری نے اس روایتی طور پر بورنگ کارروائی اور الیکشن میں جان ڈال دی تھی۔ جان کیا ڈالی اسے حکومت کے لیے بہت بڑا سیاسی مسئلہ بنا دیا۔ حکومت ایک دفعہ تو ہل کر رہ گئی۔ جن لوگوں نے بھی یہ پلان بنایا‘ یقینا انہوں نے عمران خان کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کیں۔ ویسے ایک بات کمال ہے کہ قومی اسمبلی میں اگر حفیظ شیخ کے ووٹ مسترد ہوئے تو اپر ہائوس میں گیلانی صاحب کے ووٹ مسترد ہوئے۔ دونوں دفعہ ووٹ ریجیکٹ ہونے کی وجوہات بڑی دلچسپ ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کمزور ہورہی ہے۔ اگر حفیظ شیخ کے ووٹ اس وجہ سے کینسل ہوئے کہ ان پر نشان لگا یا دائرہ تو گیلانی صاحب کے ووٹ اس وجہ سے مسترد ہوئے کہ سات سینٹرز نے نام پر مہر لگا دی تھی۔ اب مظفر حسین شاہ‘ جو اس وقت ہائوس کی صدارت کر رہے تھے‘ نے ایک دلچسپ بات کی۔ فرماتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کے سات ووٹ مسترد ہوئے۔ شاہ صاحب کو کیسے پتا چلا کہ یہ گیلانی کے ووٹ تھے جو مسترد ہوئے ورنہ وہ ایک ووٹ سے جیت رہے تھے؟ ممکن ہے آپ کہیں کہ سینٹرز نے اس خانے میں مہر لگائی جس میں گیلانی کا نام لکھا ہوا تھا‘ لیکن انہوں نے نام پر مہر لگائی۔ مطلب آپ نام پر مہر لگائیں گے تو ووٹ مسترد ہوگا۔ یہ عجیب قانون ہے کہ ووٹر اپنے امیدوار کے نام پر مہر لگائے تو وہ ووٹ تصور نہیں ہوگا۔ اب مظفر حسین شاہ صاحب کے سامنے دو آپشن تھے: پہلا‘ دوبارہ الیکشن کرایا جائے کہ یہ مشکوک ہو گیا تھا‘ دوسرا مذکورہ سات ووٹ مسترد کرتے۔ سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد اور سابق وزیرِ قانون خالد رانجھا نے یہی بات کی کہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے‘ ووٹر کی نیت کیا ہے۔ اگر مظفر شاہ صاحب کو یہ پتا تھا کہ جو ووٹ مسترد ہوئے ہیں وہ گیلانی کے ہیں کیونکہ ان کے نام پر مہر لگائی گئی ہے تو ان دونوں کے بقول وہ ووٹ گیلانی کے شمار ہونے چاہئیں تھے۔ حفیظ شیخ صاحب کے حامی کہتے ہیں کہ پھر یہ قانون قومی اسمبلی میں بھی اپلائی ہوتا۔ بالکل ہونا چاہئے تھا اور مسترد ووٹ حفیظ شیخ کو پڑنے چاہیے تھے لیکن وہاں اسمبلی میں شاید یہ نہیں کہا گیا کہ یہ سب ووٹ جو ضائع ہوئے وہ حفیظ شیخ کے تھے جیسے سینیٹ میں گیلانی بارے کہا گیا۔ اسمبلی ہو یا سینیٹ ووٹ آگے پیچھے ہوئے ہیں۔ حکومت خوش ہے کہ جو واردات ہمارے ساتھ اسمبلی میں اپوزیشن نے کی وہی سب کچھ ہم نے سینیٹ میں کر لیا۔
تو کیا اس سے سینیٹ اور اسمبلی‘ اور اس سے بڑھ کر جمہوریت مضبوط ہوئی ہے؟ میرا خیال ہے پاکستانی جمہوریت کمزور ہورہی ہے۔ جس طرح سینیٹ کی ٹکٹیں بیچی گئیں‘ سودے بازی ہوئی اور ووٹ خریدے گئے‘ اس سے لوگوں کا اعتماد جمہوریت پر سے کم ہوا ہے۔ یہ طے ہے کہ اب ہم سب بکائو مال ہیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے وہ سب کو خرید سکتا ہے۔ سیاست بھی دوسرے کاروباروں کی طرح ایک کاروبار بن چکی ہے۔ اب یہاں نقد سودے ہوتے ہیں۔ مختلف شعبوں کے کرتا دھرتا لوگوں نے سب کو خرید لیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے سربراہ بھی جیسے دکاندار بن گئے ہیں۔ جو ان کی دکان پر رکھے سودے کا زیادہ بھائو لگاتا ہے وہ اسے سودا بیچ دیتے ہیں۔ پارٹی فنڈز کے نام پر کروڑوں لے کر ٹکٹ دیئے جا رہے ہیں۔ اس بار تو پارٹی فنڈز کا بھی تکلف نہیں کیا گیا۔ براہ راست جیبیں بھری گئیں۔ سیدھا سیدھا اے ٹی ایمز کو ٹکٹ دیے گئے جن کے نام بھی سب کو معلوم تھے۔ پہلے کچھ تکلف سے کام لیا جاتا تھا‘ کچھ اداکاری کی جاتی تھی۔ اس بار یہ کام بھی نہیں ہوا۔ ایک طرف لیڈران فرما رہے تھے کہ امیدوار ستر ستر کروڑ میں سیٹ خرید رہے ہیں اور ساتھ میں انہیں جتوا کر ان کے گلے میں پارٹی کے دوپٹے بھی ڈال رہے تھے۔
لگتا ہے ہم نے سب کچھ ایک طرف رکھ دیا ہے۔ پورا معاشرہ ننگا ہو چکا ہے۔ سب کی ایک قیمت مقرر ہو چکی ہے‘ہم سب بکنے کو تیار ہیں۔ خریدار کا انتظار ہے۔ قومی اسمبلی میں اگر تحریک انصاف کے لوگ بک گئے تو سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں دس سینٹرز نے یہی کام کیا۔ جن ووٹوں کی خرید و فروخت پر خان صاحب برہم تھے اور ٹھیک برہم تھے‘ انہی ووٹوں کے اپنے امیدوار کے ہاتھوں سینیٹ میں بکنے پر مبارکباد دے رہے تھے۔
پہلے سیاست کو آلودہ اور برائے فروخت کا ٹیگ نواز شریف اور زرداری صاحب نے لگایا تھا تو اب اس سیاسی فہرست میں خان صاحب کا نام بھی لکھا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی اخلاقیات اگر کوئی ٹھیک کر سکتا تھا تو وہ عمران خان تھے۔ وہ رومانس بھی آخر ختم ہوا۔ زرداری اور نواز شریف کی یہ کامیابی ہے کہ انہوں نے خان صاحب کو بھی اپنے جیسا کر دیا ہے۔ اب خان صاحب انہیں طعنے دینے کے قابل نہیں رہے۔ اب یہ خان کے حامیوں پر ہے کہ وہ کرپشن سے آلودہ اور اخلاقیات سے عاری سیاست میں کسی ستر کروڑ فیم کے گلے میں پی ٹی آئی کا جھنڈا دیکھ کر اسے اپنے کپتان کی فتح سمجھیں یا شکست، ان کی مرضی... اخلاقیات کے بھاشن ہوئے پرانے، اب تو جو جیتا وہی سکندر!