تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     14-03-2021

پچھتاوے

جن لوگوں نے موت کو اتنے قریب سے دیکھا ہوکہ انہیں واپسی ناممکن دکھائی دی ہو اور کسی کی دعا یا کسی نیکی کے باعث زندہ بچ گئے ہوں‘ ان سے زیادہ زندگی کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ہم میں سے کوئی یا ہمارے عزیز و اقارب بعض اوقات اتنے زیادہ بیمار ہوتے ہیں کہ بچنے کا چانس نہیں نظر آتا لیکن پھر کوئی معجزہ ہوتا ہے اور دنیا میں واپس آ جاتے ہیں۔ ان لمحات میں‘ جب انسان موت کے ساتھ ملاقات کے قریب ہوتا ہے‘ جو خیالات انسان کے ذہن میں آتے ہیں‘ عام حالات میں ان کا اندازہ یا احساس کرنا بہت مشکل ہے۔ کورونا میں ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جو وینٹی لیٹر پر پہنچ گئے لیکن خدا کے فضل و کرم سے ٹھیک ہوئے اور زندگی میں واپس لوٹ آئے۔ اگرچہ کورونا وبا میں درمیانی یا زیادہ شدت میں مبتلا ہونے والا شخص دوبارہ ویسے توانا نہیں رہتا اور مختلف مسائل اسے گھیرے رکھتے ہیں لیکن پھر بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے بہت سوں کو صحت دی۔ بعض اوقات ایسی خبریں بھی آتی ہیں کہ بلند عمارت سے گرنے والے کو خراش تک نہ آئی اور ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ فلاں شخص فرش پر پھسل کر گرا اور ہڈی تڑا بیٹھا یا چل بسا۔ یہ سب قدرت کے کھیل ہیں۔ اس نے ہر شخص کی زندگی کا ایک دورانیہ طے کر دیا ہے۔ اس میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ لوگ حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بچ بھی جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے زندگی کیسے گزاری۔ آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں یا پریشان۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ جیسی زندگی گزارنا چاہتے تھے ویسی گزار پائے یا نہیں‘ یا پھر زندگی کی لہروں اور تھپیڑوں نے جس جانب دھکیلا اُدھر چلے گئے۔ مسئلہ یہ ہے ہم لوگ دنیا میں آتے ہیں تو اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں‘ لیکن اپنے دل میں نہیں جھانکتے۔ دل کیا کہتا ہے اس کی نہیں سنتے۔ بس یہ دیکھتے ہیں دنیا کیا چاہتی ہے‘ دوسرے کیا کر رہے ہیں ہم بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ آخری ایام میں جب مڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے جانا کس طرف تھا‘ کہاں چل پڑے۔ زندگی کا مقصد کیا تھا اور کیا کرتے رہے۔ یہ سب کسی آزمائش‘ کسی حادثے یا کسی نقصان کے وقت ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے زندگی کی وہ تمام نعمتیں جو پاس موجود ہوتی ہیں وہ ہیچ لگتی ہیں۔ انسان خواہشوں کا ایک انبار بنا لیتا ہے‘ جو پل بھر میں زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ موت کے وقت نہ بینک بیلنس یاد آتا ہے‘ نہ کوٹھیاں اور کاریں مزید جمع کرنے کی کوئی حسرت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی بڑا عہدہ نہ پانے کا افسوس ہوتا ہے۔ اس وقت صرف یہی احساس ہوتا ہے کہ کاش زندگی کے کچھ لمحے اور مل جائیں تو میں فلاں غلطیاں نہیں دہرائوں گا‘ میں اپنے بیوی بچوں کو وقت دوں گا‘ اپنی صحت کا خیال رکھوں گا‘ دوسروں کے کام آئوں گا‘ دنیا گھوموں گا وغیرہ وغیرہ۔ زندگی مگر اتنی ظالم چیز ہے کہ انسان کو ہر چیز بھلا دیتی ہے۔ یہ ایسا گھن چکر ہے کہ انسان جس میں چکی کی طرح ہر دم پستا رہتا ہے اور ایک دن وقتِ انجام آ جاتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں‘ ایک خدا‘ ایک رسولﷺ اور ایک کتاب کو مانتے بھی ہیں اور ہم مرنے کے بعد جی اٹھنے اور خدا کے حضور پیش ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں لیکن کبھی ہم نے سوچا ہم جو کر رہے ہیں‘ جس طرح روزی کما رہے ہیں‘ ہم جس طرح دھوکہ‘ فریب اور لوٹ مار کر رہے ہیں‘ ہم جس طرح جھوٹ‘ غیبت اور چغلیاں کھا رہے ہیں‘ کل جب ہم مر جائیں گے تو دنیا ہمیں کس نام سے یاد کرے گی؟ آج ہم زندہ ہیں اور لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ غریبوں سے ان کے حقوق چھین رہے ہیں۔ آج کوئی ہمارے سامنے کھڑا نہیں ہوتا لیکن کل جب ہم چھ ضرب دو فٹ کے گڑھے میں اتر جائیں گے‘ تو کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے بڑا ظالم تھا‘ دھوکے باز تھا‘ لالچی تھا؟ کیا لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ معمولی افسر تھا چار چار بنگلے بنا گیا‘ معمولی پٹواری تھا سو سو ایکڑ ہڑپ کر گیا‘ معمولی دکاندار تھا ہیراپھیری کرکے تاجر بن گیا‘ معمولی سرکاری ملازم تھا فارم ہائوسز کا مالک بن گیا‘ معمولی ڈاکٹر تھا غریبوں کو لوٹ کر ایمپائر کھڑی کر گیا‘ معمولی سیاستدان تھا ایک ایک نوکری کی پانچ پانچ لاکھ رشوت وصول کرتا رہا‘ برا ترین انسان بن گیا اور لوگ ہمیں وہی کہیں گے جو ہم آخری وقت‘ آخری پل تک تھے اور جب حشر کا میدان لگا ہو گا‘ اعمال نامہ آئے گا تو وہ جو ساری زندگی گناہ کرتے رہے اور جو توبہ کئے بغیر مر گئے ان کیلئے اللہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھے ہوں گے اور وہ جو گناہگار بھی تھے لیکن جب انہوں نے سچی توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ نہ صرف انہیں بخش دے گا بلکہ ان کے گناہوں کو ان کی نیکیوں میں بھی بدل دے گا تو اس روز بہت لوگ پچھتائیں گے‘ کہیں گے کاش ہم بھی احساس کر لیتے‘ ہم بھی خود کو بدل لیتے اور ہم بھی راہ راست پر آ جاتے لیکن اس دن صرف پچھتاوا ہو سکے گا۔ جو ہو گا وہ دنیا میں ہی ہو گا اور آج جب ہم زندہ بھی ہیں‘ سانس بھی لے رہے ہیں اور اپنے والدین‘ بہن بھائیوں‘ اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے ساتھ زندگی سے لطف بھی اٹھا رہے ہیں لیکن ہم میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہمیں اگلا سانس آتا ہے یا نہیں‘ ہم کل کا دن دیکھ پاتے ہیں یا نہیں اور ہمیں توبہ کا موقع ملتا ہے یا نہیں لیکن اگر آج‘ آج ہم فیصلہ کر لیں‘ موت کے بعد کی زندگی پر اچٹتی ہوئی ایک نظر ڈال لیں‘ ہم کبھی پانچ منٹ کیلئے کمرے کی لائٹ بند کرکے لیٹ جائیں‘ گھپ اندھیرا کر لیں‘ ہماری آنکھیں اندھیرے کی سیاہی کے سوا کچھ نہ دیکھ سکیں‘ ہم فرض کر لیں ہم قبر میں لیٹے ہیں اور ہمارے عزیز رشتہ دار ہمیں دفنا کر جا رہے ہیں اور جاتے ہوئے یہ سب ہمارے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں‘ یہ آپس میں کیا سرگوشیاں کر رہے ہیں تو ہمیں اچھی طرح اندازہ ہو جائے گاکہ ہم نے زندگی کیسے گزاری اور ہمارے بعد ہمارے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہم کتنے ظالم تھے یہ ہمیں جانے کے بعد معلوم ہوا۔ ہمیں اس کا حساب آگے چل کر دینا پڑے گا یہ ہمیں دنیا میں معلوم نہ تھا۔ دنیا میں تو ہم صرف دولت اکٹھی کرنے میں لگے رہے۔ نہ دن دیکھا نہ رات ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور حقوق غصب کرنے کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا نہ تھا۔ ہمیں روزانہ آدھا گھنٹہ رات کو اکیلے میں گزارنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کیا ہم جو کر رہے ہیں وہ درست ہے؟ ہم اپنے راستے سے بھٹک تو نہیں گئے؟ کیا ہم اپنی فیملی کے حقوق پورے کر رہے ہیں؟
ایک غیرملکی نرس نے ایسے سینکڑوں مریضوں کی دیکھ بھال کی جو اس کے سامنے جان سے گزر گئے۔ ان سے باتیں کرتے ہوئے اس نے جو مشترک احساسات اور جذبات نوٹ کئے وہ یہی تھے کہ کسی کو بھی مرتے وقت اپنی دولت کے بڑھ جانے کی خوشی یا کم ہونے کا غم نہیں تھا بلکہ سبھی کی خواہش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنے قریبی چاہنے والوں کو دیتے۔ دنیا اتنی حاصل کرنے کی جستجو کرتے‘ جتنی ضرورت تھی۔ خدا کو یاد کرتے۔ لوگوں کے کام آتے۔ ان کی خدمت کرتے۔ ان سے دعائیں لیتے۔ سیروتفریح کرتے۔ اتنا کھاتے جتنی بھوک تھی۔ مہنگے کپڑوں‘ مہنگے ہوٹلوں‘ زرق برق لباس‘ ہیرے جواہرات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے دوستوں یاروں کے ساتھ وقت گزارتے‘ لیکن یہ سب کچھ دوبارہ نہیں ہوسکتا۔ گزرا ہوا وقت‘ توانائی اور حالات واپس نہیں آتے۔ زندگی میں اپنی ذات سے متعلق اہم فیصلے بروقت نہ کئے جائیں‘ اپنے دل کی نہ سنی جائے تو ماضی کے بڑے فیصلے اور کامیابیاں بھی عمر بھر کا روگ اور پچھتاوے بن جاتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved