تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     14-03-2021

بدعنوانی کے معاون

ایس او ایس۔ ہماری جان بچائو؟ نہیں‘ ہمارے ضمیر کے دام لگائو۔ سینیٹ میں یہی شو لگا ہوا تھا اور اس سے جو کچھ ظاہر ہوا وہ ڈرا دینے والا تھا ۔ ایسے مناظر تو سنسنی خیز‘ سی کلاس فلموں میں بھی نہیں ہوتے۔ اتنے کراہت انگیز مذاکرات‘ سیدھی بات کریں تو یہ بغاوت ہے ‘ اسے مذاق کہنا ظلم ہوگا۔اراکین ِ قومی اسمبلی کو خریدنے کے مناظر حقیقی ماننے کو دل نہیں چاہتا‘ لیکن افسوس‘ یہ حقیقت ہے ۔ اسے سیاسی ترغیب نہیں انسانیت سوز سیاسی ڈاکا کہا جاسکتا ہے ۔یہ ہر لحاظ سے ناقابلِ قبول‘ قابل ِ مذمت بلکہ قابل ِمواخذہ ہے ۔
سیاست بہرحال اقتدار کا کھیل ہے ۔ جس قیمت پر بھی''مال‘‘ ملے ‘ خریدنا ہوتا ہے ۔ سب سے اونچی بولی لگانے والا جیت جاتا ہے ۔یہ طاقت کے نشے کا کھیل ہے ۔ اس میں بلیک میلنگ‘ کردار کشی حتیٰ کہ قتل بھی ہوتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عشروں سے پاکستان میں یہ سب کچھ ہوتا آیا ہے ۔ اہم سیٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے ۔ تجوریوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ ان سیٹوں پر براجمان ہونے سے زمین‘ کاروبار اور کالے دھن کے حصول کا راستہ کھلتا ہے ۔ اس کے بعد کالا دھن لوگوں کی روحوں پر کالک مل کر دولت کے پجاریوں کی کھیپ تیار کرتا ہے ۔ ان کا دین ایمان ‘ سب کچھ پیسہ ہوتا ہے ۔ یہ لوٹ مارکی دولت ملک میں یا سمندر پار چھپاتے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ دنیا بھر میں سیاست میں مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے ۔ ہار جیت اس کھیل کا حصہ ہے‘ لیکن زیادہ ترقی یافتہ اور جمہوری معاشروں میں معقول آوازیں اور قوانین کی پابندی دھن دولت کے کرشموں کی راہ مسدود کردیتی ہے ۔ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ آوازیں ہمارے ہاں کیوں خاموش ہیں ؟ یہاں ضمیر مردہ کردینے والی رسم بلاروک ٹوک کیوں جاری ہے ؟اس کی وجہ بظاہر سیاست دانوں کا لالچ نہیں بلکہ بدعنوانی کے معاونین ہیں جو دیانت دار آوازوں کو اس گندگی اور غلاظت کے خاتمے کی بات کرنے سے روکتے ہیں ۔ آئیے بدعنوانی کے ان محافظوں کا جائزہ لیتے ہیں :
1۔ تعلیم یافتہ دانشور : یہ معززین بہت طمانیت اور ٹھنڈے دل سے ثابت کرنے کے ماہر ہوچکے ہیں کہ بدعنوان درحقیقت بدعنوان کیوں نہیں ہیں ۔ یہ طبقہ انتہائی تعلیم یافتہ ہے ۔ یہ کئی کتابیں اور مضامین لکھتا ہے ۔ یہ لو گ جامعات میں تدریس کرچکے ہیں ۔ ان کی رائے مقامی کے علاوہ عالمی میڈیا میں بھی سنی جاتی ہے ۔ وہ ''حقانی ‘‘رول ماڈل کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ افغان طالبان والے حقانی نہیں بلکہ امریکہ کا حسین حقانی ہے ۔ اُن کا آئیڈیل وہ حقانی ہے جس کی تحریر اور تقریر کی صلاحیت اُسے سی این این اور دیگر میڈیا کا پسندیدہ مبصر بناتی ہے ۔ وہ کسی بھی پاکستانی حکومت کے حق میں بھی ہوسکتا ہے اور خلاف بھی ‘ خاص طور پر جب حکومت کی طرف سے بڑے عہدے اور سہولیات نہ ملیں ۔پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ( ن)تک‘ اُس کا مقصد ِ حیات ہر اُس دھن پر گانا ہے جس سے اُسے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ ایسے تعلیم یافتہ دانشورامریکی جامعات میں پڑھاتے یا تھنک ٹینکس میں کام کرتے ہیں۔ وہاں وہ پاکستانی سیاست پر رائے دیتے ہوئے عمران خان کو ایک ناکام اور معمولی سوجھ بوجھ والا سیاست دان جبکہ پی ڈی ایم کو تجربہ کار سیاست دانوں کا اکٹھ قرار دیتے ہیں۔ برس ہا برس تک اُنہو ں نے خود کو ایسے روشن خیال‘ غیر جانبدار اور لبرل افراد کے طور پر پیش کیا جنہیں پاکستانی معاشرے میں جبر کا سامنا تھا ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بیرونی ممالک میں پناہ اور مالی معاونت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔اس کے بعد یورپی یونین ڈس انفولیب سامنے آئی۔ اس نے SAATHجیسے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جسے بھارت سپانسر کرتے ہوئے بہت سے پاکستانی دانشور وں کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا تھا ۔
2۔ نظریاتی افراد: اس کے بعد سول سوسائٹی اور این جی اوز کے نظریاتی افراد ہیں ۔ کارکنوں کے طور پر فعال یہ افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ‘رائے ساز اور میڈیا میں بلند آواز رکھنے والے افراد ہیں ۔ وہ بظاہر غیر سیاسی ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں لیکن اُ ن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ وہ جمہوریت کے چیمپئن ہیں ۔ عمران خان کے بیانات کو تو آمرانہ اور غیر جمہوری رویہ قرا ردیتے ہیں لیکن اُنہیں مولانا فضل الرحمن اور اُ ن کے پی ڈی ایم کے ساتھیوں کے اربوں کے کالے دھن سے کوئی تعرض نہیں ۔ وہ پی ٹی آئی کے ایک رہنما کوسینیٹ کا ٹکٹ دینے پر تو دہائی دیتے ہیں لیکن جب پنجاب ہائوس میں دوہزار دن قیام کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما ستانوے کروڑ روپے کے نادہندہ نکلتے ہیں تو وہ اسے زیادتی قرار دیتے ہیں ۔
3۔ قانونی ماہرین : یہ قانون کے میدان کے جادوگر ہیں ۔ آئین ہکا بکا ہو کر دیکھتا رہ جاتا ہے اور وہ بدعنوانوں کوبچا لیتے ہیں۔ اس کی کلاسک مثال پانامہ پیپرز تھے ۔وہ ابھی بھی اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ نوا زشریف کو دبئی کی ایک گمنام کمپنی سے لی جانے والی تھوڑی سی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا ۔ ثابت وہ یہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کوئی غیر قانونی کام نہ تھا ۔ وہ ہسپتالوں کے ہیڈز کو ہٹانے پر مضامین لکھ چکے ہیں ۔ جب پوچھا جائے کہ یہ ہسپتال چار ارب روپوں کی مشینری پر ٹیکس دہندگان کے بیس ارب روپے کیوں اُڑا رہے تھے تو وہ اسے ''انتقامی کارروائی‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ سابق حکومتیں ذاتی کیسز کے لیے ان قانونی ماہرین کو ٹیکس دہندگان کی رقم سے بھاری فیس ادا کرتی تھیں لیکن اُن کا ''قانون‘‘اس مفاد پرستی کے کنٹریکٹ پرکوئی باز پرس نہیں کرتا۔
4۔ مقدس ماہرین : یہ مبصرین کے وہ بڑے نام ہیں جو میڈیا کی دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ وہ رجحان بناتے اور اس کی پیروی کرتے ہیں ۔ بظاہر غیر متعصب دکھائی دیتے ہیں ‘جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد گنواتے ہیں لیکن اُنہیں موروثی سیاست کی حمایت کرنے میں کوئی عار نہیں ۔ اُن کی پٹاری میں بہت سے دلائل ہیں ۔ کبھی جمہوریت‘ کبھی انسانی حقوق اور کبھی آزادیٔ اظہار کی آڑ۔ ٹاک شوز میں پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں ۔ زعم یہ ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ ‘بلکہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ سب کو تنقید کا نشانہ بناتے رہیں گے یہاں تک کہ اعلیٰ پوزیشن کی کوئی پیش کش اُنہیں خاموش کرادے۔ اُن میں سے بعض کو آزاد کشمیر کی وزارت‘ کچھ کوسینیٹ کی سیٹ دی جاتی ہے ۔ بعض کو پی سی بی ‘پی ٹی وی وغیرہ کا سربراہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی کبھار اُن کا نقاب اُتر بھی جاتا ہے ۔ اُن میں سے کچھ دراصل نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کے خلاف خود ہائی کورٹ گئے تھے ‘ لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ ایک سزا یافتہ مفرور شخص کی تقاریر ملک میں نشر کرنے کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے ۔ لیکن یہ مبصرین اسے آئینی اور آزادیٔ اظہار کے دائرے میں قرار دے رہے تھے ۔
یہ سب بدعنوانوں کے حقوق کے لیے لڑ نے والے بہادر ہیں ۔ آپ بس کسی بھی ایشو پر اُن کے موقف کو دیکھیں ۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کہیں کوئی ناانصافی کی ہو تو وہ خاموشی کو سونا سمجھتے ہیں ۔ اگر تحریک انصاف سے ایسا ہوا تو پھر اُن کا ٹوئٹر اکائونٹ کان کے پردے پھاڑ دینے والا شور مچائے گا۔ انسانی حقوق کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ ہے ۔ جس وقت کورونا وبا کے دوران ہمارا میڈیکل سٹاف فرنٹ لائن پر زندگی موت کی جنگ لڑرہا ہے ‘ سابق گورنر سندھ کے بچوں نے سٹاف کو دھوکادے کر ویکسین لگوا لی ۔ اس کے بعد اُن کے سوشل میڈیا پر ایسی خاموشی چھا گئی جیسے کبھی وہاں موجود ہی نہیں تھے۔ اگرچہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ نہیں لیکن اپنے قد کاٹھ‘ علم اور ابلاغ کے ذریعے وہ سچائی کو مسخ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ یہ ہیں وہ فاضل خواتین و حضرات جواقتدار کے کھیل میں بدعنوانوں اور موروثی سیاست دانوں کے معاون بنے رہتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved