ایم کیوایم کے بانی قائد الطاف حسین نے گزشتہ روز انتہائی جذباتی انداز میں پارٹی کی قیادت سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے استعفیٰ کا اعلان کیا اور پھر ’’کارکنوں کے پُر زور اصرار پر‘‘استعفے کی واپسی کا بھی اعلان کر دیا۔الطاف حسین کی طرف سے مستعفی ہونے کے اعلان پر ایم کیوایم کے رینک اینڈ فائل میں غمزدگی اور سراسیمگی کے آثار ایک فطری ردِعمل تھے۔اس طرح استعفیٰ واپس لینے پر کارکنوں کی طرف سے خوشی اور جشن کا مظاہرہ بھی سمجھ سے بالاتر نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ایم کیو ایم ایک انتہائی منظم اور متحرک جماعت ہے،وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ تقریباً 30برسوں میں پارٹی میں متبادل قیادت سامنے نہیں آسکی۔ موجودہ استعفے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تعلق غالباً ایم کیوایم کے ایک سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے لندن میں آج سے تین سال قبل قتل کی واردات سے ہے۔جُرم کی یہ واردات چونکہ برطانیہ میں ہوئی تھی اس لیے تفتیش بھی برطانوی پولیس کر رہی ہے۔جس نے اپنی تفتیش کا دائرہ وسیع کر کے بقول الطاف حسین اُن کو بھی شاملِ تفتیش کر لیا ہے۔ کارکنوں سے خطاب میں جناب الطاف حسین نے خود کہا ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ اور لندن میٹروپولیٹن پولیس نے اُن کے گھر پر چھاپہ مارا اور کئی گھنٹے کی تلاشی کے بعد بہت سی چیزیں اْٹھا کر لے گئی ہے ۔ان اشیاء کی نشان دہی نہیں کی گئی ۔ اس بنا پر الطاف حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنہیں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث کیا جارہا ہے۔حالانکہ پولیس نے ابھی تک الطاف حسین پر نہ تو براہ راست الزام عائد کیا ہے اور نہ ہی اْنہیں حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے نائن زیرو کراچی میں اپنے ورکرزسے مخاطب ہوکر جو تقریر کی ہے اْس کے چند پہلو نہایت غور طلب ہیں اور حکومت کو انہیں بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔مثلاً اُنہوں نے کہا کہ ’’مجھے یعنی الطاف حسین کو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث نہ کیا جائے،اس میں برطانیہ کی بہتری ہے ۔‘‘یہ درست ہے کہ برطانیہ ایک بہت طاقتور ملک ہے اور بر صغیر پر اپنے دوسو سالہ نو آبادیاتی راج کے دوران میں اُس نے ہندوستانی عوام پر بہت ظلم ڈھائے ہیں،چند ایک مثلاًجلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا اْنہوں نے ذکر بھی کیا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اپنے نو آبادیاتی تسلط کو مضبوط بنانے کے لیے انگریزوںنے ایک نہیں بلکہ کئی جلیانوالے باغوں کا ارتکاب کیا لیکن یہ قصہ پارینہ بن چُکا ہے ۔اب تو پنجاب کے لوگ یعنی سکھ بھی اْسے فراموش کر چُکے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اُس کا ذکر کرنے کا کیا مقصد ہے؟اس کے ساتھ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ الطاف حسین اپنے بیانات کو کس طرح عملی جامہ پہنائیں گے؟اس کی ایک شکل تو اتوار کے روز کراچی میں دیکھنے میں آئی جب ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر کے سامنے کتبے اُٹھا کر مظاہرہ کیا جن پر بقول اُن کے الطاف حسین کے خلاف اقدام کی مذمت کی گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق برطانوی حکومت نے اس مظاہرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ لندن میٹروپولیٹن پولیس اور سکاٹ لینڈ یارڈ آزاد ادارے ہیں،برطانوی حکومت اْن کے کام میں مداخلت نہیں کرتی۔ الطاف حسین کا بیان اور کراچی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر کے سامنے مظاہرہ ایسے وقت میں کیا گیا جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پاکستان کے دورے پر تھے اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزیدفروغ دینے کے ساتھ ساتھ اہم علاقائی مسائل یعنی افغانستان پر محوِ گفتگو تھے۔بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ الطاف حسین کا بیان اور ایم کیو ایم کے کارکنان اور لیڈروں کی طرف سے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کے آفس کے سامنے مظاہرہ ، پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔اگر یہ نوبت آتی ہے تو اس کا نقصان نہ صرف پاکستان کو ہوگابلکہ برطانیہ میں رہنے والے 10لاکھ سے زائد پاکستانی بھی متعدد مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ قائدِ تحریک الطاف حسین نے ایم کیوایم کی قیادت سے سبکدوش ہونے کا اعلان واپس لے لیا ہے اس سے ایم کیو ایم کے پریشان اور بے حال کارکْن مطمئن اور خوش تو ہو گئے ہیں لیکن ایم کیوایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کو اس بحران کی روشنی میں چند امور پر غور کرنا چاہیے۔ مثلاً قائد تحریک اور مڈل رینک لیڈر شپ میں فاصلے اورغلط فہمیاں کیوں بڑھ رہی ہیں؟ابھی چند ماہ ہوئے قائد تحریک کے حکم پر رابطہ کمیٹیاں اور تنظیمی کمیٹی توڑ کرنئے سیٹ اَپ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھااور سب سے بڑھ کر یہ کہ قائد تحریک کو بار بار استعفے دینے کا کیوں اعلان کرنا پڑتا ہے؟ ایم کیوایم کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر وہ پورے ملک میںیکہ و تنہا کیوںکھڑی ہے ؟ حالانکہ اْس کا دعویٰ ہے کہ وہ قومی سیاسی دھارے کا حصہ ہوتے ہوئے پاکستان کی90فیصد غریب اور محروم آبادی کی نمائندہ جماعت ہے۔ اپنے اس دعوے کے حق میں اْس نے مہاجر قومی موومنٹ کے بجائے متحدہ قومی موومنٹ کا نام بھی رکھ لیا تھا۔ اپنے آپ کو ایک قومی اور ملک گیر جماعت ثابت کرنے کیلئے ایم کیوایم نے مئی 2013ء کے انتخابات میں پاکستان کے تمام صوبوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔صرف پنجاب میں اْن کے نامزد امیدواروں نے206حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ایم کیوایم کی اعلیٰ قیادت کو سوچنا چاہیے کہ اس کے رویے نے اور خاص طور پر بار بار استعفیٰ دینے اور پھر کارکنوں کے پْر زور اصرار پر واپس لینے کی سیاست نے پارٹی کو فائدہ پہنچایا ہے یا نقصان؟سیاست میں کسی لیڈر یا پارٹی کی کامیابی کی ضمانت اْ س کی مستقل مزاجی اور اصول پرستی ہے ،اس قسم کے بیانات کہ ’’ایم کیوایم کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے‘‘،’’اردو بولنے والوں کی نسل کْشی کی جا رہی ہے’’،’’ہم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے‘‘،’’ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘‘، نے ایم کیو ایم کو قومی سیاسی دھارے میں ضم کرنے کی بجائے الگ تھلگ کھڑا کر دیا ہے۔یہ وہ سوالات ہیں جواس اہم جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہیں،ایم کیوایم کے لاکھوں مداح ہیں لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ جہاں اُسے ایک مستقل راہ متعین کرنا ہوگی تاکہ ملک اور جمہوریت کو مضبوط کیا جاسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved