سردار دائود کے دورۂ پاکستان کے بعد کچھ خلیجی ممالک نے دائود کی ہر طرح سے مدد کی یقین دہانی کرا دی۔ روسی صدر برزنیف اور پولٹ بیورو کو‘ جو پہلے ہی ایران کے انقلاب کی ممکنہ آمد سے گھبرائے ہوئے تھے‘ جب یہ اطلاعات ملیں تو انہوں نے خوف زدہ ہو کر دائود حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ روسی کے جی بی نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے 17 اپریل 1978ء کو افغانستان کے اہم اور مقبول کمیونسٹ لیڈر میر اکبر خیبر کو قتل کرا دیا اور اس کا الزام سردار دائود پر لگا دیا لیکن جب 26 اپریل 1978ء کو سردار دائود حکومت نے اس قتل کی سازش کے مہروں خلق پارٹی کے لیڈر نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل کو گرفتار کر لیا تو سردار دائود کو سزا دینے کیلئے 27 اپریل1978ء کو فوج میں موجود کمیونسٹ ایجنٹوں کی مدد سے بغاوت کرا دی گئی۔ 27 اپریل کو جب جنرل ضیاء الحق کی زیر صدارت جی ایچ کیو راولپنڈی میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کی کانفرنس ہو رہی تھی تو اطلاع ملی کہ کابل میں صدارتی محل کے قریب شدید لڑائی ہو رہی ہے۔ کمیونسٹ باغی سردار دائود کے بھائی سردار نعیم اور بچوں سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کو سردار دائود کے سامنے قتل کر تے رہے، آخر میں انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔ نور محمد ترکئی جو اس وقت جیل میں تھا‘ کو جیل سے نکال کر کمیونسٹ افواج نے افغانستان کا صدر اور حفیظ اللہ امین کو وزیر خارجہ بنا دیا۔
نور محمد ترکئی کے اقتدار میں کمیونسٹ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور وہ لوگ بااثر ہو گئے جو اسے جیل سے نکال کر لائے تھے۔ نور محمد ترکئی نے روس سے ہٹ کر مغرب کی مدد حاصل کرنے کیلئے کابل میں امریکی سفیر اے ڈیبس کو دوستی کا پیغام بھیجا لیکن چند دنوں بعد کابل میں امریکی سفیر ڈیبس کو قتل کر دیا گیا۔ ایران کے بارے میں روسی خدشات سامنے آ نا شروع ہو چکے تھے اور فروری 1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا کر دیا گیا۔ اس انقلاب کو روکنے اور اس کا رخ بدلنے کیلئے اپنی اپنی جگہ پر روس اور امریکا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ستمبر 1979ء میں کیوبا میں غیر جانبدار ملکوں کی کانفرنس میں جنرل ضیاء الحق نے ترکئی سے ایک تفصیلی ملاقات کی جس میں کئی اہم موضوع زیر بحث آ ئے۔ کیوبا سے واپس کابل جاتے ہوئے ایک پیغام پر ترکئی ماسکو پہنچا، جہاں اسے روسی دعوت پر چند دن رکنا پڑا۔ اسی دوران کے جی بی نے کابل میں اس کے خلاف سازش مکمل کر لی اور 14 ستمبر 1979ء کو نور محمد ترکئی کو قتل کر کے بغیر غسل اور نمازِ جنازہ‘ ایک گڑھے میں پھینک کر دفن کر دیا گیا۔ اب اس کی جگہ حفیظ اللہ امین کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جنرل عبدالقادر نے حفیظ اللہ امین کے خلاف بغاوت کی کوشش کی لیکن ناکام ہو کر گرفتار ہو گیا۔ اسے پہلے پھانسی کی سزا سنائی گئی لیکن پھر اس کی موت کی سزا کو تیرہ سال قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہرات میں مارچ 1979ء میں ہونے والے ایک واقعے سے دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی جب چالیس روسی افراد کو ہرات میں قتل کر دیا گیا۔ چالیس روسیوں کا یہ قتل روس کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ پاکستان اور مغربی ممالک میں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین روسی قبضے کے بعد وجود میں آئے‘ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ اس خونریز واقعے سے دنیا میں ہلچل مچ گئی اور ساتھ ہی سوویت یونین کو احساس ہو گیا کہ افغانستان کے مسلم معاشرے میں اس کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں کوئی منظم گروہ کام کر رہا ہے۔ ان افراد کی سرکوبی کیلئے سوویت یونین نے اپنی فوج کے قابل ترین جرنیل الیکسی کو افغانستان بھیجا جو 1968ء میں چیکو سلواکیہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا تھا البتہ ظلم اور بربریت میں یہ چنگیز خان کو بھی مات دیتا تھا۔
''دیکھا گیا ہے کہ پشتون کسی کا مطیع ہو کر رہنا پسند نہیں کرتا۔ خاص طور پر اگر وہ کسی دوسرے قبیلے‘ ذیلی قبیلے یا اس کی کسی شاخ کا آدمی ہو تو اس کی اطاعت اس کیلئے نا قابل قبول ہو تی ہے‘‘۔ یہ الفاظ ماہر امور افغانیہ پروفیسر لوئی دوپری کے ہیں۔ وہ پشتون جبلت کے بارے لکھتے ہیں کہ 1962ء میں صوبہ پکتیا کے ایک قبیلے کے لوگوں نے دوسرے قبیلے کے کچھ درخت چرانے کی کوشش کی جس پر ان کے درمیان ایک طویل خانہ جنگی شروع ہو گئی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس گائوں کے سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے‘‘۔ (کابل یونیورسٹی میں پڑھانے والے امریکی پروفیسر لوئی دوپری سے پاکستان میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران راقم کی چند ملاقاتیں ہوئی تھیں جن کی تفصیل پھر کسی کالم میں سامنے لائوں گا) روسی فوج کے ظالم ترین جنرل الیکسی نے کابل داخل ہونے کے فوری بعد شمال کی ایک بستی کے پندرہ سو کے قریب لوگوں کو مجاہدین کی مدد کرنے کے شک میں بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جنرل الیکسی نے سوچا تھا کہ اس قتل و غارت سے افغانستان میں با قی لوگوں پر دہشت طا ری کر کے انہیں مجاہدین کی حمایت سے خوف زدہ کر دیا جا ئے گا لیکن یہی اس کی سب سے بڑی حماقت ثابت ہوئی، اس عمل نے افغانوں میں روس کے خلاف شدید نفرت کے بیج بو دیے۔ یہیں سے جہاد کا جذبہ پروان چڑھا۔ ایرانی حالات اور بھارت کے ساتھ مل کر چین کو قابو کرنے کیلئے سوویت یونین نے افغانستان پر براہِ راست حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہی روسی فوج کے انفنٹری ڈویژن کے اہم کما نڈر جنرل پولاسکی کو افغانستان بھیجا گیا تاکہ وہ ایک مکمل اور بڑے آپریشن کی منصوبہ بندی کر سکے۔ جنرل پولاسکی اپنے پچاس کے قریب فوجی اور انٹیلی جنس افسروں سمیت تقریباً دو ماہ تک افغانستان میں مقیم رہا۔ اس گروپ میں شامل کے جی بی کے افسروں نے رپورٹ دی کہ افغانستان کے حالات کو قابو کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت نہ کی گئی تو حالات سوویت یونین کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ شمالی افغانستان ایرانی انقلاب میں دلچسپی لے رہا ہے اور اگر اسے نہ روکا گیا تو یہاں روس کی حمایت میں کمی ہو جائے گی۔ جب یہ رپورٹ پولٹ بیورو تک پہنچی تو فیصلہ ہوا کہ روسی افواج افغانستان میں داخل ہو کر کمیونسٹ مخالفوں کو ختم کر دیں گی لیکن ساتھ ہی بین الاقوامی دبائو کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ روسی فوجیں اس بہانے سے افغانستان میں داخل کی جائیں گی کہ اقوام متحدہ اس پر کوئی کارروائی نہ کر سکے۔ اس فیصلے کی روشنی میں برزنیف نے حفیظ اللہ امین کو حکم دیا کہ وہ افغان مجاہدین کے خلاف سوویت یونین سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے روسی افواج افغانستان بھیجنے کی درخواست کرے لیکن حفیظ اللہ امین نے یہ ''حکم‘‘ ماننے سے انکار کر دیا اس پر برزنیف آگ بگولا ہو گیا اور اس نے حفیظ اللہ امین کو ہٹانے کا حکم جاری کر دیا۔ پھر وہ تاریخی دن آگیا جب دنیا کی سپر طا قت تباہی کے گڑھے میں گرنے اور دنیا میں جگہ جگہ انتہاپسندی‘ مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت اور دہشت گردی کے اڈوں کی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کرنے لگی۔
27 دسمبر 1979ء کا وہ تاریخی دن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب ایک طرف روسی فوجیں سالانگ سرنگ سے اور دوسری طرف جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے آسمان کو ڈھانپتے ہوئے بگرام ایئر پورٹ پر اترنا شروع ہو گئیں۔ روسی فوج نے آتے ہی کابل کی سرکاری عمارتوں پر حملے کر کے ان کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ حفیظ کے محافظوں نے روس کا مقابلہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن 28 دسمبر کی صبح وہ اپنے تمام اہل خانہ اور حفاظتی فوج دستے سمیت بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یکم جنوری کو جب دنیا 1979ء کی خوشیاں منا رہی تھی‘ 60 ہزار سے زائد روسی فوجی ٹینکوں کے حصار میں ببرک کارمل افغانستان کی صدارت کا روسی تاج سر پر سجانے کیلئے کابل پہنچ گیا۔ افغانستان میں جگہ جگہ روسی افواج پھیل چکی تھیں، روس کی شہنشاہیت نے ببرک کارمل کو افغانستان کا صدر مقرر کر دیا جس پر پاکستان سمیت 51 ممالک کی درخواست پر سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا گیا تاکہ روس کو مجبور کیا جائے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائے لیکن روس نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ یہ اس کا 13واں ویٹو تھا جو وہ اب تک سکیورٹی کونسل میں استعمال کر چکا تھا۔ (جاری)