خیر و شر کا معرکہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہنا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ قدرت چاہتی ہے کہ ہر طرف خیر ہی خیر ہو مگر اِس طور نہیں کہ جو خیر کی بات کرتے ہیں‘ اُن کے سامنے کبھی کوئی چیلنج کھڑا نہ ہو۔ شر بھی اُسی کی طرف سے ہے جس کی طرف سے خیر ہے۔ جس نے یہ کائنات خلق کرکے ہمیں بھی وجود بخشا ہے اُس خالق و مالک کی مرضی یہ ہے کہ ہم خیر کی برتری یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہیں مگر یہ سب اِس طور ہو کہ ہم شر کو شکست سے دوچار کریں۔ ہمارے خالق و مالک کے لیے کیا مشکل تھا کہ شر کا کہیں نام و نشان نہ ہوتا اور ہر طرف خیر ہی خیر دکھائی دیتا۔ کام تو یہ ہے کہ دنیا میں بُرائی بھی ہو اور اچھائی کے لیے تگ و دَو کے ذریعے اُسے ختم کیا جائے۔ یہی آزمائش انسان کی تخلیق کا سبب ہے جو قرآن پاک میں بھی بیان ہوئی۔ ہم ہوش سنبھالنے کے بعد آخری سانس تک خیر و شر کے معرکے میں آزمائے جاتے ہیں۔ یہ نظام اللہ کا طے اور نافذ کردہ ہے اِس سے کسی بھی طور مَفر ممکن نہیں۔ زندگی اور موت کی تخلیق کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے کہ ''تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے‘‘ ۔ جسے روئے ارض پر بھیج کر سانسوں کی گنتی بخشی گئی ہے اُس کے لیے لازم ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک شر کے خلاف صف آرا رہے، خیر کی فتح یقینی بنائے۔ یہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے اور اس مقصد کے حصول ہی پر ہماری اُخروی کامیابی کا مدار ہے۔
کسی بھی انسان کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رکھی گئی کہ شر کی قوتوں سے دامن بچاتے ہوئے ایک طرف ہو رہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہ ہونے دے۔ خیر کو یقینی بنانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ شر سے نبرد آزما ہوا جائے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے آپ کو شر سے بچانے اور خیر سے ہم کنار رہنے کے لیے کونہ پکڑنے کی ذہنیت پروان چڑھاتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو شر سے بچنا ہے اور بچتے ہی رہنا ہے مگر اِس کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ایک طرف ہو رہیں اور تماشا دیکھتے رہیں۔ یہ تو خیر و شر کے معرکے کا محض ایک پہلو ہے۔ بُرائی سے دامن بچانا معقولیت کی دلیل ہے مگر کوئی بھی یہ نہ بھولے کہ محض بُرائی سے بچنے کی صورت میں ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہوئی کہ کہیں وبا پھیل جائے اور اُس ماحول کا ہر فرد اُس وبا سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے اور اِس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ یہ تو ہوا وبا سے بچنے کا معاملہ جو کامیابی پر منتج ہوا۔ سوال وبا کا ہے، وہ تو برقرار ہے۔ اصل مسئلہ تو وبا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ہے۔ برائیاں آوارہ درندوں کی مانند ہوتی ہیں۔ اُن سے بچ کر گزر جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن پر قابو پالیا گیا۔ بچ کر گزرنے کی صورت میں صرف ہم محفوظ ہوئے، دوسرے نہیں۔ کوئی انجانے میں بھی تو ان درندوں کا ہدف بن سکتا ہے۔ جب تک اِن درندوں کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک ماحول کو محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خیر و شر کے معرکے میں بہت سے ایسے معاملات کا خیال رکھنا پڑتا ہے جنہیں عمومی سطح پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جب کوئی انسان اپنی اصلاح پر مائل ہوتا ہے تو دراصل وہ شر کے خلاف صف آرا ہو رہا ہوتا ہے۔ اِس مرحلے میں چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ شر کی قوت کو شکست دینے کے لیے لازم ہے کہ انسان بُرد باری اور تحمل سے کام لے۔ جو برائی ایک مدت کے دوران پروان چڑھی ہو وہ ختم ہونے میں بھی کچھ وقت لیتی ہے۔ خیر و شر کے معرکے میں جدوجہد کی واضح ترین مثال نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ ہے۔ آپﷺ کو محض خیر کے فروغ کے لیے مبعوث نہیں کیا گیا تھا بلکہ شر کے خاتمے کے لیے بھی مبعوث فرمایا گیا تھا۔ عرب معاشرہ عشروں بلکہ صدیوں تک خرابیوں سے دوچار رہا تھا۔ آپﷺ نے مختلف بُرائیوں اور خرابیوں کو مرحلہ وار ختم کیا۔ مکّی زندگی میں کی گئی جدوجہد آپﷺ کے صبر و استقامت کی گواہ ہے۔ برسوں کی محنت کے بعد بھی مٹھی بھر اہلِ ایمان تیار ہوسکے مگر اِن اصحاب کو نمونے اور مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ پورے عرب معاشرے کو راہِ راست پر لانے میں کم و بیش 23 سال لگے۔ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ اس امر کی شاہد ہے کہ آپﷺ نے محض شر کو ختم نہیں کیا بلکہ اُس کی طرف لے جانے والی ذہنیت کا قلع قمع کرنے پر بھی توجہ دی۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکتا تھا جب کوئی ایسی جماعت تیار کی جاتی جو جان کی پروا کیے بغیر شر کے خلاف ڈٹ جاتی اور دنیا کے لیے مثال بنتی۔ آپﷺ کی بعثت کا پورا زمانہ اِس جماعت کی تیاری میں صرف ہوا۔ اللہ کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے ایسے اصحاب درکار تھے جو کردار اور استقامت کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔ جب یہ جماعت تیار ہوئی تو دنیا نے دیکھا کہ محض جزیرہ نما عرب تبدیل نہیں ہوا بلکہ کچھ ہی مدت میں دنیا کے ایک بڑے حصے کو اللہ کی راہ پر گامزن رکھنے میں مدد ملی۔ یوں آپﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوا۔ نبی مکرمﷺ نے اپنے عمل سے یہ عظیم درس دیا کہ کسی بھی بڑے مقصد کے حصول کے لیے ہمیں صرف تگ و دَو نہیں کرنی بلکہ صبر سے بھی کام لینا ہے۔ تحمل کی راہ پر گامزن ہوئے بغیر ہم استقامت کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی بڑے مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اللہ سے فوری نتائج کے خواستگار ہوتے ہیں۔ ہمیں شر کے خلاف جدوجہد کرتے وقت نتائج اللہ کی مرضی پر چھوڑنا پڑتے ہیں۔ یہ بہترین طریقہ اور معقول ترین حکمتِ عملی ہے۔ فوری نتائج کی تمنا ہمیں بے تابی سے دوچار کرکے معاملات خراب کردیتی ہے۔ عبدالحمید عدمؔ کا مشہور مقطع ہے ؎
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلدباز ہوتے ہیں!
شر کے خلاف کی جانے والی جدوجہد میں صبر اور استقامت کو بنیادی شرائط کا درجہ حاصل ہے۔ راتوں رات رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت تیزی سے اپنا اثر کھو بیٹھتی ہیں۔ اللہ نے ہمارے لیے جو کچھ طے کیا ہے وہی بہترین ہے۔ خیر کو پروان چڑھانے اور شر کی جڑ کاٹنے کی جدوجہد ہم سے قدم قدم پر تحمل کی طالب رہتی ہے۔ عجلت پسندی کھیل بگاڑ دیتی ہے۔ خیر و شر کے معرکے میں ذہن سازی بہت اہم ہے۔ کسی بھی نوع کی جدوجہد کے لیے ذہن سازی کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے ... صبر و تحمل کی عادت کو اپنانا، پروان چڑھانا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں بہت سوں کی حقیقی آزمائش مضمر ہے۔ خیر و شر کے معرکے میں تحمل اور صبر و استقامت کو ناگزیر شرط قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں بُرائیاں ایک زمانے سے پلتی، پنپتی چلی آرہی ہیں۔ اگر ہم بُرائیوں سے بچنے اور دوسروں کو بھی بچانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو لازم ہے کہ اپنے اپنے مقام پر ڈٹے رہیں اور فوری نتائج کے متمنّی نہ ہوں۔ عجلت پسندی اُنہیں کسی طور زیبا نہیں جو اللہ کی راہ میں نکلے ہوں اور صرف اللہ کی رضا کے طالب ہوں۔ آج کا پاکستانی معاشرہ خیر و شر کے معرکے میں خیر کے ہر داعی سے غیر معمولی استقامت چاہتا ہے اور استقامت اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے حصے کا کام کریں اور اس یقین کے حامل ہوں کہ نتائج اللہ کی مرضی کے تابع ہیں۔ ہماری پوری توجہ محض اپنے حصے کے کام تک محدود و مرکوز رہنی چاہیے۔