لکھنؤ میں نواب سعادت علی خان والیٔ اودھ کا دربار لگا ہوا تھا‘مغل سلطنت منتشر ہوکر ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی اور اودھ اہلِ علم وفنون اور ادب کے نادر زمانہ لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا۔سید انشاء اللہ خان انشا بادشاہ کے مقرب ترین لوگوں میں تھے۔ اعلیٰ شاعر‘بہترین گفتگو کے ماہر‘ بادشاہ کے مزاج دان‘ درباری نزاکتوں‘ ادب آداب سے خوب باخبر۔غزل‘ مثنوی‘ رباعیات‘نقد و نظر‘داستان گوئی کے شناور۔ ایک پورے عہد کے نمائندہ۔ سعادت اللہ خان کے چہیتے اور بے تکلف۔ دربار میں ہنسی مذاق کی باتیں ہو رہی تھیں۔ حسب نسب کا ذکر نکلا۔بادشاہ نے انشاء سے پوچھا ''انشا! ہمارے نسب کے بارے میں کیا کہتے ہو؟کیا ہم سلطنت کے تمام لوگوں سے بڑھ کر نجیب الطرفین نہیں ؟‘‘ برا وقت آچکا تھا۔انشاء کی زبان سے نکلا '' حضور !نجیب ہی نہیں‘ بلکہ انجب‘‘۔ دربار پر سناٹا چھا گیا۔ انجب کے ایک معنی تو اعلیٰ درجے کے نجیب الطرفین شخص کے ہیں لیکن ایک معنی اور بھی ہیں۔ اور وہ ہیں‘ باندی کا بیٹا۔ اور سعادت اللہ خان باندی ہی کا بیٹا تھا۔ بادشاہ لفظ شناس تھا۔ انشاء نے خواہ پہلے معنوں ہی میں یہ لفظ کہا ہو‘ بادشاہ کے دل میں پھانس چبھ گئی کہ انشاء نے جان بوجھ کر چوٹ کی ہے۔ یہ اس باکمال کے زوال کا آغاز تھا۔ اس کے بعد زمانے نے انشاء کو اس کی موت تک دربدر اور مفلس ہی دیکھا۔ اپنی تمام صلاحیتوں اور ہنروری کے باوجود۔ایک لفظ نے چوٹی سے پاتال تک پہنچا دیا۔ ؎
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
بچپن میں اپنے والد جناب زکی کیفی سے سنا ہوا یہ واقعہ کچھ دن پہلے ایک کتاب میں دوبارہ پڑھا تو دل و دماغ پر سناٹا سا چھا گیا۔کتاب بندکی تو کئی در کھل گئے۔ ایسا عروج اور ایسا زوال۔اور ایسے باہنر کا۔جس تک کم کم ہنرور پہنچتے ہیں‘ لیکن یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔کتابیں شہنشاہوں کے دور کے اس طرح کے معمولی واقعات اور ان کے بھیانک نتائج سے بھری پڑی ہیں۔ تاریخ اور اس کے کرداروں سے مسحور کن وابستگی اور انہیں مزید جاننے کی خواہش اپنی جگہ‘ لیکن ہزار ہزار شکر کہ اس دور میں پیدا نہیں ہوئے۔ ایک لمحے کو ٹھہر کر ذرا سوچیں کہ آپ اسی شہر میں‘ اسی خاندان میں لیکن کسی اور زمانے میں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے؟ جب فرض ہی کر رہے ہیں تو یہ فرض کرلیں کہ برصغیر پاک وہند میں مغل دور میں آپ کا جنم ہوا ہوتا۔اس کا امکان تو بہت کم تھا کہ آپ کسی دربار میں مقرب خاص یا وزیر باتدبیر ہوتے۔زیادہ امکان یہی تھا کہ آئے دن کے معرکوں میں کسی جنگ میں مارے جاتے اور رونے والوں کو رونا بھی نصیب نہ ہوتا کہ وہ تو خود تہِ تیغ پڑے ہوتے۔یہ امکان تو بہت کم تھا کہ کسی دربار میں اعلیٰ عہدے تک پہنچتے کہ اس کے لیے جس مزاج‘جوڑ توڑ‘خوشامد اور محلاتی سازشوں کے مقابلے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے‘وہ تو گنے چنے افراد کو نصیب ہوتی ہے۔آپ تو آج 2021ء میں ان چھوٹی موٹی سیاستوں‘ مسابقت اور مکاریوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جو خاندان سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں مسلسل کارفرما ہیں اور جوبہرحال زندگی اور موت کا معاملہ نہیں تو اس زمانے میں حریفوں کی ان چا ل بازیوں کا سامنا کیسے کرسکتے تھے جن پر سر قلم کر دیے جانے کا خطرہ ہر قدم پر موجود تھا۔انہیں سید انشا نے باکمال شاعرمصحفی کو اپنے جوڑ توڑ کے ذریعے شہزادہ مرزا سلیمان شکوہ کے استاد کے درجے سے گرا نہیں دیا تھا؟ اور ان کی جگہ خود متمکن ہوگئے تھے لیکن جب اپنا زوال شروع ہوا تو سب دھرا رہ گیا۔ بادشاہ کی وفاداری تک۔ دن بدلنے پر بادشاہ کی وفاداری بھی کام نہیں آسکتی تھی کہ تخت بدلتے ہی‘یا نئے قابضین کے آتے ہی سب سے بڑا خطرہ وفاداروں ہی کو ہوا کرتا تھا۔سو زندگی گزار کر طبعی موت مرنے کے امکانات خاصے کم ہوتے جو اَب اس دور میں بہرحال پہلے سے زیادہ ہیں۔آج کے جمہوری دور میں جہاں سربراہوں کی مطلق العنانیت بادشاہوں کے زمانے کی طرح بہرحال نہیں ہے‘زیادہ سے زیادہ کسی مقرب کو دربار اور عہدوں سے دور کرسکتے ہیں‘بدنام کرسکتے ہیں‘مقدموں میں گھسیٹ سکتے ہیں یا گوشہ نشینی پر مجبور کرسکتے ہیں‘جان کے لالے بہرحال نہیں پڑے ہوتے۔
اور یہ تو دربار سے وابستگان کی بات ہے‘اگر آپ کوئی نامور عالم ہوتے تو یا بادشاہ کی خوشامد میں تحریریں لکھ رہے ہوتے‘ بصورت دیگر کوڑے کھا رہے ہوتے اور نیزوں کی اَنی چبھو کر ہوش میں لائے جاتے۔قلعہ گوالیار بھی آپ کی باقی ماندہ عمر کی رہائش گاہ ہوسکتا تھا۔زمیں دار ہوتے تو بادشاہ کیلئے پنج ہزاری سپاہی فراہم کرنے کے مسلسل عذاب میں ہوتے‘ ماؤں سے ان کے بیٹے چھین رہے ہوتے اور دہقانوں پرظالمانہ ٹیکس لگا کر وہ رقم اکٹھی کرتے جو بالآخرشاہِ وقت کے خزانے میں پہنچنی ہوتی۔ سوداگر ہوتے تو قزاقوں‘لٹیروں اور حملہ آوروں کی موجودگی میں آپ کا مال آپ کی جان کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہوتا۔یہ ایک ہتھیارمسلسل آپ کے تعاقب میں رہتا تاوقتیکہ کسی لمحے کوئی خنجر آپ کو ڈھونڈ لیتا۔ایک معمولی دہقان‘سپاہی‘ مزدور یا درباری ہوتے تو یہ صورت زندگی کی سب سے اذیت ناک صورت ہوتی کہ یہ طبقہ تو زمانۂ شاہی میں ہر روز جیتا مرتا تھا۔کچھ بھی نہ ہوتے‘ایک عام آدمی ہوتے تو مغلوں‘ مرہٹوں‘راجپوتوں اور جاٹوں کے معرکوں میں کبھی کے نابود ہوچکے ہوتے۔
اس لیے شکر صد شکر کہ اس دور سے ان محتاط فاصلوں پر پیدا ہوئے جہاں سے ان کرداروں کو فینٹیسائز ہی کیا جاسکتا ہے‘ بھگتا نہیں جاسکتا۔ہر دور میں بادشاہوں کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاکر کلمۂ حق کہنے والے‘یا سر نہ جھکانے والوں کی جرأت کا اب ٹھیک سے تصور بھی مشکل ہے۔وہ آج کا دور نہیں‘ان شاہانِ شاہ کا دور تھا جنہیں ظلِ الٰہی کہاہی نہیں‘سمجھا بھی جاتا تھا۔جسے چاہیں مار دیں‘ جسے چاہیں بخش دیں‘ جسے چاہیں سونے میں تلوا دیں اور جسے چاہیں کوڑی کوڑی کا محتاج بنادیں۔ اور یہ بات تازہ کرلینے کے بعد یہ بھی ذہن میں تازہ کر لیں کہ یہ صرف مغل بادشاہوں کی بات ہورہی ہے جن کی نرم دلی‘عدل اور انصاف کی کہانیاں بھی مشہور ہیں۔یہ تاریخ میں موجود بے رحم‘ سفاک اور جابر سلطانوں اور بادشاہوں کا ذکر نہیں جو اپنی خونریزی اور بربریت کے ساتھ کتابوں میں زندہ ہیں۔ یہ چنگیز خان‘ہلاکو یا قبلائی خان کا ذکر نہیں۔ یہ محمد بن تغلق کا بھی ذکر نہیں جس کی سفاکی سے ڈر کر جہاں گرد ابن بطوطہ ہندوستان ہی چھوڑ گیا تھا اور دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا تھا‘حالانکہ وہ دہلی کا قاضی تھا اور اس پر بادشاہ کی نظرِ کرم تھی۔کوئی موازنہ ہی نہیں اس زمانے کی جرأت اور بہادری اور آج کی بے خوفی اور استقامت کا۔ذرا سوچیں اور فیصلہ کریں کہ کیا آج کا کلمۂ حق اس زمانے کے کلمۂ صدق کے پیروں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ کیا اس فیصلے اور اس کے نتائج کا آج تصور بھی کیا جاسکتا ہے‘جب شیخ احمد سرہندی نے جہانگیر جیسے باجبروت شہنشاہ کی ڈٹ کر مخالفت کی جس کے کان مسلسل ان کے خلاف بھرے جاتے تھے۔
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمیٔ احرار
یہ بادشاہوں کے ادوار‘ یہ خلعتیں۔ یہ زرق برق پوشاکیں۔یہ جواہرات کے ڈھیر‘ یہ بے کنار پھیلی جاگیریں۔یہ عہدے‘یہ القاب‘یہ مناصب سب دور سے اچھے لگتے اور مسحور کرتے ہیں۔یہ بڑا مقام عافیت ہے کہ ہم اور آپ اس دور میں پیدا ہوئے جب یہ زمانے کہانیوں‘کتابوں‘فلموں اور ڈراموں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔انہیں مسحور کن انداز میں دیکھا اور پیش کیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ ان کی زندگیوں کے واقعات میں مرضی کی کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔لاریب ! ہم اچھے زمانوں میں پیدا ہوئے کہ یہ انجب بادشاہوں کا دور نہیں۔ شکر ہے بھئی شکر ہے۔ ان کرداروں کو آج فینٹیسائز کیا جا سکتا ہے‘ بھگتا نہیں جا سکتا۔