کیا یہ پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کا آخری دور ہے؟ جتنی سیاست کرنی تھی کر لی ‘جتنی عزت کمانی تھی کما لی‘ جو عروج پانا تھا‘ پالیا ہے۔ اب زوال کا وقت ہے۔ کیااب سیاست اور سیاستدان نیچے ہی جائیں گے؟
شاید یہ بھی انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ انسان ہوں‘ انسانی تہذیب ہو یا ادارے‘ جب عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور مزید اوپر جانے کی گنجائش نہیں رہ جاتی تو زوال شروع ہوجاتا ہے۔ جب زوال مکمل ہوجاتا ہے تو پھر عروج کی طرف کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔جیسے لوگ کہتے ہیں کہ یہ صدی کتابوں کی آخری صدی ہے۔ اس کے بعد کتابوں کی شکل بدل جائے گی۔ اس طرح شاید ہمارے سیاستدانوں اور سیاست کا بھی آخری عروج ہے۔
اب وہ زوال کی طرف جارہے ہیں۔ آج سیاست اور سیاستدان اس صورتحال کا سامنا کیوں کررہے ہیں کہ ان کی ساکھ دائو پر لگ چکی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاست اور سیاستدانوں کی عزت کم ہورہی ہے۔ جب ٹی وی چینلز نئے نئے شروع ہوئے تھے تو لوگوں کیلئے یہ عجیب بات تھی کہ وہ بڑے بڑے سیاستدان جن کو وہ دور سے دیکھتے تھے اب ان کے ڈرائنگ روم میں رکھے ٹی وی میں ان کے سامنے چوبیس گھنٹے موجود ہیں‘ لیکن جس طرح وہ سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگے‘ گالی گلوچ اور شوز میں ایک دوسرے کی پٹائی کرنے لگے اس سے پوری قوم حیران ہوئی کہ یہ لوگ تو انکی طرح گلی محلے اور تھڑے کی گفتگو کرتے ہیں۔ اخبارات کی خبروں میں تو وہ بہتر لوگ لگتے تھے لیکن براہ راست دیکھنے کے بعد انہیں لگا کہ وہ تو کوئی اور مخلوق ہیں۔ سیاستدان بھول گئے کہ ٹی وی سکرین ان کو نمایاں کر رہی تھی۔ پہلے ان کے بارے میں اگر سنی سنائی باتیں تھیں تو اب وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
حیرانی کی اگلی سٹیج سے لوگ نکلے تو انہوں نے ٹی وی شوز میں ان سیاستدانوں کی لڑائی اور گالی گلوچ کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر لینا شروع کر دیا۔پہلے اس کھیل میں صرف زرداری اور نواز شریف کے لوگ تھے پھر اس میں عمران خان صاحب داخل ہوئے اور انہوں نے دونوں پارٹیوں کو مزید ننگا کرنا شروع کر دیا۔ شہباز شریف نے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا نعرہ مارا جو بہت مقبول ہوا۔ دونوں پارٹیوں نے پہلے پرویز مشرف کے خلاف اتحاد کیا تو بھی لوگوں نے قبول کر لیا پھر 2008ء کے الیکشن کے بعد دونوں پارٹیوں نے مشترکہ حکومت بنا لی‘ لیکن بہت جلد انہیں احساس ہوا کہ اگر انہوں نے راستے جدا نہ کئے تو عمران خان ان کی اپوزیشن میں جگہ لے لیں گے کیونکہ اس وقت کوئی اپوزیشن میدان میں موجود نہ تھی۔ زرداری اور نواز شریف کو یہ بات سوٹ کرتی تھی کہ وہ فوری طور پر سیاسی دوستی ختم کریں۔ یوں نواز شریف کے گیلانی حکومت میں شامل گیارہ وزیروں نے استعفا دے دیا اور اپوزیشن میں چلے گئے۔ خوف وہی تھا کہ اگر زرداری اور نواز شریف ایک ساتھ نظر آئے تو ان کیلئے اگلی دفعہ الیکشن جیتنا مشکل ہوجائے گا۔ یوں لڑائی بڑھتی گئی اور ایک دوسرے کے خلاف زبانی حملے بڑھتے گئے۔ اس پورے کھیل میں جان ڈالنے کیلئے زرداری صاحب نے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کو معطل کر کے وہاں گورنر راج لگا دیا تو نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر زرداری‘ گیلانی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ پر کمیشن بنوا دیا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس حکومت نے پاکستان کے قومی سلامتی کے مفادات کے خلاف کام کیا تھا۔ یوں لڑائی نے ذاتی نیچر اختیار کر لی اور دونوں اطراف سے فائر ورک شروع ہوگیا جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
اب جب خان صاحب نے درمیان میں انٹری ڈالی تو نواز شریف اور زرداری کو خطرے کا احساس ہوا کہ شاید کھیل ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ یوں انہوں نے دو بارہ سیاسی اتحاد کا فیصلہ کیا اور عمران خان کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی جو زرداری اور نواز شریف کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکے تھے۔ زرداری اور شریف برادران اب بھی سمجھ رہے تھے کہ عمران خان ان کے مقابلے میں رزلٹ نہیں دے پائیں گے۔ زرداری صاحب کو اپنے سندھی ووٹر پر اعتماد تھا تو شریف خاندان پنجاب کو اپنی آماجگاہ سمجھ چکا تھا۔ ویسے بھی شریف خاندان رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کر چکا تھا۔ بیورو کریسی سے لے کر میڈیا اور عام آدمی تک ان کی رسائی ہوچکی تھی۔ عمران خان کو اندازہ ہوا کہ انہیں اب روم میں وہی کرنا پڑے گا جو روم میں کیا جاتا ہے۔ یوں انہوں نے بھی وہی دائو استعمال کیا جو زرداری اور شریف کر رہے تھے۔ عمران خان نے بھی پہلے تو طاقتور لوگوں سے خفیہ ملاقاتیں شروع کیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی میں انہی لوگوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا جن کے خلاف وہ تقریریں کرتے تھے۔ انہیں لگا کہ جب تک وہ زرداری اور شریفوں کا راستہ نہیں اپنائیں گے وہ پاور حاصل نہیں کر پائیں گے۔اس کے بعد جہانگیر ترین کی مدد سے انہوں نے جو بھی ملا اسے پارٹی میں شامل کر لیا۔ عوام کا بڑا طبقہ جو زرداری اور شریفوں کی نورا کشتی سے تنگ آیا ہوا تھا انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ عمران خان اپنی پارٹی میں وہ مال شامل کررہے ہیں جنہوں نے پہلے زرداری اور شریفوں کے ساتھ مل کر ملک کے مسائل میں اضافہ کیا تھا۔ اب عمران خان نے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ اس کرپٹ ایلیٹ کے بغیر ملک میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ لوگوں نے بھی اس جواز کو مان لیا کہ عمران خان اکیلے کیا کریں۔ یوں عمران خان کی یہ فلاسفی مشہور ہونا شروع ہوئی اور ان کی پارٹی میں سب کرپٹ شامل ہوتے گئے۔
جب عمران خان کی حکومت بن چکی تو کیا سیاست اور سیاستدانوں کی عزت بحال ہوگئی؟ کیا لوگ اب بھی ٹی وی شوز پر سیاسی گفتگو اتنے شوق سے دیکھتے ہیں جیسے وہ پہلے دیکھتے تھے؟ کیا سیاست پر لوگوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے؟ کیالوگوں کو لگتا ہے کہ سیاست اور سیاستدان اس ملک کے مسائل حل کر لیں گے؟ کیا سیاست اور سیاستدانوں کی عزت اور ساکھ ان ڈھائی سالوں میں بڑھ گئی ہے جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں؟اس کا جواب آپ سب جانتے ہیں۔ سیاست میں کرپشن بڑھ گئی ہے‘سیاستدان ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں‘ ان کے ورکرز ایک دوسرے کے لیڈروں کو مار پیٹ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں شاہد خاقان عباسی ‘ مصدق ملک اور مریم اورنگزیب کی جو مارپیٹ ہوئی‘ اس کی ویڈیو پوری دنیا نے دیکھی۔ اب شہباز گل کے ساتھ جو بدتمیزی لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں کی گئی وہ بھی پوری قوم نے دیکھی۔ جب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ پارلیمنٹ کے باہر تحریکِ انصاف کے ورکرز نے بدتمیزی کی تو اس پر وزیراعظم خاموش رہے بلکہ ان کی پارٹی اپنے ورکرز کا دفاع کرتی رہی۔ اس طرح اب جب نواز لیگ کے ورکرز نے شہباز گل کے ساتھ بدسلوکی کی تو مریم نواز اور دیگر لیڈرشپ چپ رہی۔ خان صاحب کی شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بدسلوکی پر خاموشی ہو یا مریم نواز کی شہباز گل کے ساتھ بدتمیزی پر ‘سمجھ لیں کس طرح کی سیاست ہو رہی ہے اور ملک کو کس طرف جارہا ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر ان پارٹیوں کے سربراہان خوشیاں منارہے ہیں لیکن یہ بہت خطرناک رجحان ہے جس کا شکار تحریک انصاف اور نواز لیگ کے ورکرز نہیں بلکہ براہ راست عمران خان اور مریم نواز ہوں گے۔ آج کل تحریک انصاف مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا ٹرینڈ چلواتی ہے تو جواباً نواز لیگ عمران خان کے خلاف۔ یہ کام نوجوانوں کو باقاعدہ تنخواہ دے کر کرائے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف اور نواز لیگ کے لیڈرز کو یہ نوجوان گالیاں بھی دیتے ہیں اور ان سے تنخواہ بھی لے رہے ہیں۔ اسی سے اندازہ کریں سیاست اور سیاستدان کہاں جا گرے ہیں۔