تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     17-03-2021

گلزار صاحب ‘ بمبئی اور دینہ

بعض دفعہ اچانک آپ بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے دل کی آواز پر چل پڑتے ہیں اس روز بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ میں اپنے گھر کی سٹڈی میں کوئی کتاب تلاش کر رہا تھاکہ شیلف سے ایک کتاب فرش پرگر پڑی ۔میں نے جھک کر کتاب کواٹھا کر دیکھا تو وہ گلزار کے افسانوں کی کتاب ''دستخطـ‘‘ تھی۔میں نے پہلا صفحہ کھول کر دیکھا تو دو دہائیاں پیچھے چلا گیا ۔ یہ کتاب مینا نے مجھے دی تھی ۔ پہلے صفحے پر اس کا نام اور نیچے جنوری 2000ء کی تاریخ لکھی تھی۔ اُن دنوں ہم کراچی کے ملیر کینٹ میں رہتے تھے۔ مینا میری بھانجی ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کر رہی تھی اور میں آغا خان یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔مینا کو اُردو اور انگریزی ادب کا شغف تھا اور کتابیں پڑھنے کا جنون ۔یہ کتاب مجھے اس نے تحفے میں دی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مجھے گلزار سے محبت ہے۔کتاب پر 2000ء کی تاریخ دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ وقت کیسے پر لگا کر اُڑ گیا تھا۔ اس بات کو اکیس سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران مینا کی شادی ہو گئی اور اب وہ ایک خلیجی ریاست میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اب کتابوں کے لیے اس کے پاس فرصت نہیں البتہ سال میں کبھی اِکا دُکا وٹس ایپ پر اس کا پیغام آجاتا ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں زندگی ایسے ہی اَن سوچے منظروں کی کہانی ہے۔ میں نے کتاب بند کر کے واپس شیلف میں رکھ دی لیکن گلزار کی یاد کی مہک میرے ارد گرد پھیل گئی تھی۔ میں اس خوشبو کی ا نگلی پکڑ کر اپنی سٹڈی سے باہر آ گیا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا کیوں نہ گلزار کے خوابوں کے نگر دینہ جایا جائے۔ابھی اور اِسی وقت۔ وہی دینہ جس کے بارے میں گلزار نے کہا تھا:
ذکر جہلم کا ہے‘ بات ہے دینے کی
چاند پکھراج کا‘ رات پشمینے کی
میں دینہ کے لیے کیوں نکل پڑا تھا یہ مجھے خود بھی معلوم نہ تھا۔ہم زندگی میں کچھ باتوں کی عقلی توجیہ نہیں کر پاتے لیکن کبھی کبھاریہی باتیں ہمارے لیے اہم ہوتی ہیں۔اُس روز بھی ایسا ہی ہوا تھا۔گلزار کے دینہ کی مہک مجھے اپنی طرف بُلا رہی تھی۔ اسلام آباد میں شام ڈھل رہی تھی جب میں نے جی ٹی روڈ پر سفر کا آغاز کیا۔گلزار سے میرا پہلا تعارف اس کی فلم ''موسم ‘ ‘سے ہوا تھا ۔ یہ فلم میں نے کئی بار دیکھی ۔سنجیو کمار اور شرمیلا ٹیگور کی اداکاری‘ کہانی اور مکالموں کے علاوہ فلم کی خاص بات اس کے گیت تھے جن کی لفظیات ‘ تشبیہات ‘ استعارے ‘ اور امیجز بہت منفرد تھے۔اسی فلم میں گلزار کے ایک گیت میں پوٹھوہار کے گاؤں کی مخصوص جھلک نظر آتی ہے۔
یا گرمیوں کی رات میں پروائیاں چلیں
ٹھنڈی سفید چادروں پر جاگیں دیر تک
تاروں کو دیکھتے رہیں چھت پر پڑے ہوئے
آپ اس گیت سے تبھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں جب آپ دیہا توں کے اس مانوس طرزِ زندگی سے واقف ہوں جہاں لوگ چھتوں پر سوتے تھے اور چارپائیوں پر سفید چادریں بچھائی جاتیں۔ ''موسم‘‘ کے بعد گلزار کی فلم '' آندھی‘‘ نے گلزار کے بارے میں میرے پہلے تاثر کو مزید تقویت بخشی کہ گلزار بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کا نام ہے جو عام سی چیز کو چھوتا ہے اوراسے غیر معمولی بنا دیتا ہے ‘جو اِن انسانی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے جن کو بیان کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ضرور ہے۔ ''آندھی‘‘ فلم کے سارے گیت ہی خوبصورت ہیں‘ ایک گیت کی چند سطریں ملاحظہ ہوں جو فلم کے دو بنیادی کرداروں کے درمیان ایک بے نام تعلق کی کہانی ہے۔
اس موڑ سے جاتے ہیں/ کچھ سست قدم رستے/ کچھ تیز قدم راہیں/
پتھر کی حویلی کو/ شیشے کے گھروندوں میں/ تنکوں کے نشیمن تک/ آندھی کی طرح اڑ کر/ اک راہ گزرتی ہے/شرماتی ہوئی کوئی/قدموں سے اترتی ہے/ان ریشمی راہوں میں/اک راہ تو ہو گی/تم تک جو پہنچتی ہے۔
لیکن یہ تو بہت بعد کی بات ہے جب گلزار بمبئی کی چکا چوند فلمی دنیا سے آشنا ہوا تھا۔ اس کہانی کی ابتدا جہلم کے قریب دینہ کی ایک گلی میں واقع ایک مکان سے ہوتی ہے۔ یہ 1934ء کا سال تھا جب دینہ کے ایک سکھ گھرانے میں سردار مکھن سکھ کا لرا کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام سمپورن سنگھ رکھا گیا۔ یہ سردار مکھن سنگھ کی دوسری بیوی سے تھا۔ سردار مکھن کو کاروبار کے لیے دہلی رہنا پڑتا تھا۔سمپورن سنگھ جو بعد میں گلزار کے نام سے مشہور ہوا اپنی ماں کے ساتھ دینہ میں ہی رہتا تھا‘لیکن ماں بیٹے کا ساتھ بہت مختصر ثابت ہوا۔ابھی گلزار کی عمر چند ماہ تھی کہ اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔گلزار کو گھر کے قریب ہی ایک سکول میں داخل کرادیا گیا۔ اسی سکول سے گلزار نے تین جماعتیں پاس کیں ۔ سردار مکھن سنگھ کا دہلی میں کپڑے کا کاروبار تھا۔ کبھی کبھار وہ دینہ کا چکر بھی لگا لیتے اور ننھے گلزار سے ملاقات ہو جاتی۔پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ گلزار کو لے کر دہلی منتقل ہو جائیں۔اس وقت گلزار کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ گلزار کی والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے ایک اور شادی کر لی تھی۔ اس طرح تین شادیوں سے ان کے کُل نو بچے تھے لیکن گلزار اپنی مرحومہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھاجس کا کوئی بہن بھائی نہیں تھا۔ دہلی میں گلزار کو ایک سکول میں داخل کرادیا گیا۔وہ ہر روز سکول جاتا اور سکول کے بعد والد کے ساتھ ان کی کپڑوں کی دکان پر بیٹھتا۔ رات کو کچھ وقت ملتا تو رسالوں اور کتابوں میں گزارتا۔ اس زمانے میں ہر گلی محلے میں آنہ لائبریریاں بنی ہوتی تھیں۔ گلزار بھی ایک ایسی ہی لائبریری کا گاہک بن گیا۔ پھر اس لائبریری کے مالک نے گلزار کو ایک ایسی کتاب پڑھنے کو دی جس نے گلزار کی زندگی کا رُخ بدل کر رکھ دیا ۔ اس کتاب کا نام ''گارڈنر ‘‘تھا۔ یہ معروف بنگالی دانشور اور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی نظموں کا ترجمہ تھا۔ اس کتاب نے گلزار کو عمر بھر کے لیے ٹیگور کا گرویدہ بنا دیا۔ یہ گلزار کے غربت کے دن تھے۔دن بھر مشقت کے بعد جب رات ڈھلتی تو وہ سونے کے بجائے کتابوں اور رسالوں کے مطالعے میں گزار دیتا۔ مطالعے سے اس کا جی اب لکھنے کو مچلنے لگا تھا۔ اس کی عمر بارہ سال ہو گی جب اس کی پہلی نظم اخبار میں شائع ہوئی ۔ ادھر گلزار کے والد کے لیے اتنے بڑے خاندان کی پرورش آسان کام نہ تھا ۔ اب وہ مقام آ گیا تھا جب والد نے گلزار کو دہلی سے بمبئی بھیج دیا ۔ گلزار دہلی چھوڑ کر بمبئی آگیا جہاں اس کا سوتیلا بھائی جسمیربھی تھا۔گلزار بھی ایک موٹر ورکشاپ میں کام کرنے لگا جہاں اس کا کام رنگوں کو میچ کرنا تھا۔یہاں وہ پہلے خالصہ کالج اور پھر نیشنل کالج میں پڑھنے لگا۔ خالصہ کالج چھوڑ کر نیشنل کالج آنے کا بڑا مقصد نیشنل کالج میں اردو کا مضمون تھا۔ اردو سے گلزار کو عشق تھا۔ کالج کے شب و روز گزر رہے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ گلزار کا پڑھائی میں جی نہیں لگتا تھا۔ تب ایک روز ایسا آیا جس نے گلزار کی زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved