تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     17-03-2021

اڑنج گڑنج

سوال یوسف رضا گیلانی یا صادق سنجرانی کا نہیں بلکہ معیار کا ہے۔ ماشااللہ جس طرح کی یہ دونوں ذات ہائے شریف ہیں ان میں سے کوئی بھی سینیٹ کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھ جائے، اس ادارے کی ساکھ بحال ہوتی ہے نہ اس کی کارکردگی میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی چار سال سے کچھ زیادہ مدت تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ اپنی اس مدت اقتدار میں انہوں نے جو کچھ کمایا اس کا سراغ اسلام آباد سے لے کر ملتان تک ہونے والی سرگوشیوں سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ یہ سینیٹ کے چیئرمین بن بھی جاتے تو زیادہ سے زیادہ حکومت کے لیے کچھ ندامت کا باعث ہوتے مگر اس سے زیادہ ان سے کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ اسی طرح صادق سنجرانی ہیں۔ انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے طور پر ایسا کیا کر لیا ہے جو یہ دوبارہ چیئرمین نہ بنتے تو ادھورا رہ جاتا؟ اول الذکر ہوں یا ثانی الذکر ان کی حیثیت بس اتنی تھی کہ ایک حکومتی منصب کے لیے دونوں اپنے اپنے دھڑوں کی طرف سے سینیٹ کے اکھاڑے میں اتریں اور جیت کر اپنے اپنے گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہیں۔ قانون سازی، پالیسی، عوام یا جمہوریت دراصل ان کی تقریروں میں استعمال ہونے والے الفاظ تو ہیں، ان کے معنی سے ان حضرات عالی منصب کا لینا دینا کچھ نہیں۔ ان کا بس اتنا کردار تھا اور ہے کہ اپنے اپنے گروہ کے بڑوں کو خوش رکھیں تاکہ ریاستی ڈھانچے میں ان کی جگہ بنی رہے۔
اب ذرا آ جائیے اس محاربے کی طرف جو اپوزیشن اتحاد اور حکومت کے درمیان جاری ہے۔ اس محاربے پر بھی گروہی رنگ چڑھتا جا رہا ہے۔ جلسے، جلوس، لانگ مارچ یا اسمبلیوں سے استعفوں کا مقصدِ وحید سوائے اس کے کیا ہے کہ موجودہ حکومت گرا کر اپنی حکومت قائم کرلی جائے۔ چلیے مان لیا، میدانِ سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن اصل سوال اس معاملے میں یہی ہے کہ 'الف‘ کی حکومت گرا کر 'ج‘ کی حکومت بنا بھی لی جائے تو اس سے پاکستان کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔ مان لیا‘ تھوڑی بہت چمک دمک آجائے گی لیکن ویسی ہی عارضی جیسی آئی ایم ایف سے ادھار لے کر آجاتی ہے۔ صنعتوں کو آگے بڑھانا ہے، کروڑوں نوجوانوں کو روزگار پر لگانا ہے، تعلیم کا حال برا ہے، ریاست کے انتظامی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ سارے کام برسوں کے لٹکے پڑے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ کرسکتے تو ماضی میں کرچکے ہوتے۔ اب ایک آدھ نئی موٹروے یا کسی نمائشی منصوبے کیلئے حکومت آپ کو دی جائے تو کیوں؟ پہلوانوں کے اکھاڑے کی ہارجیت کو ذرا سا بڑا کرلیں تو سینیٹ کا الیکشن ہے اور اسی نوعیت کی ہار جیت منطقی نتیجے کے طورپر یہاں بھی نظر آتی ہے۔ سینیٹ میں جو لڑائی نام نہاد اصول کی بنیاد پر صادق سنجرانی اور گیلانی صاحب کے مابین لڑی گئی، بالکل ویسی ہی بلکہ معیار میں کچھ پست، اعلیٰ سیاست میں نواز شریف، عمران خان، مریم نواز، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان لڑی جارہی ہے۔ کوئی جیتے یا ہارے، عوام کی بلا سے۔
یوسف رضا گیلانی کے بطور سینیٹر انتخاب سے اب تک کے پندرہ دنوں میں ایک نئی حقیقت یہ ابھر کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں سیاست کا کھیل پہلے طبقاتی رہا، پھر خاندانوں میں ڈھلا اور اب صرف چند افراد ہیں جو بساط پر بیٹھے اپنے اپنے مہرے آگے بڑھا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان سے لے کر مولانا صاحب تک ملک میں کم و بیش نصف درجن شخصیات (مریم نواز اور بلاول بھٹو ان میں شامل نہیں) ایسی ہیں جن میں ہر ایک ہمارا آزمایا ہوا ہے۔ یہ سب لوگ بظاہر ملک میں بحرانوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں لیکن کسی بھی مسئلے کو پیچھے کی طرف کھولتے جائیں تو ان میں ایک نہ ایک اس مسئلے کی پیدائش اور پھر اس کو بحران بنانے کا ذمہ دار ہے۔ ان میں سے ہر ایک خود کو مکمل طور پر درست اور دوسرے کو مکمل طورپر غلط سمجھتا ہے۔ ان کے اس رویے نے اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ملک کا ہر وہ کام جس کے لیے حکومت یا ریاست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ رکا پڑا ہے لیکن ان لیڈروں کی انا ہے کہ ہمارا خون پی پی کر بھی سیر نہیں ہو پا رہی۔ ایک دوسرے کو چور، ڈاکو تو کہتے ہی تھے، اب حریفوں پر جوتے بھی برساتے ہیں اور منہ بھی کالے کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے معاشرے میں ایک شخص بھی ایسا نہیں چھوڑا جس پر اعتماد کیا جا سکے اور کوئی ادارہ اس قابل نہیں رہنے دیا کہ توازن قائم کرسکے۔
اصل جمہوری ملکوں میں وزیراعظم سے لے کر گلی محلے میں کونسلر تک‘ ایک سیاسی نظم و ضبط ہوتا ہے اور معاشرے کی سیاسی تشکیل یوں ہوتی ہے کہ کوئی بھی ایک خاص حد سے زیادہ طاقت نہیں پکڑ سکتا۔ کوئی ایک انتہا پسندانہ رویہ اختیار کرے تو اس کی جگہ لینے والے نیچے سے آجاتے ہیں۔ غالباً اسی لیے پاکستانی سیاستدان بلدیاتی اداروں کو جڑ نہیں پکڑنے دیتے کہ ان کی موجودگی میں سیاستدانوں کی ایک کھیپ ہروقت ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہوتی رہے گی اور ان کے چشم و چراغ بغیر کچھ کیے وزیراعظم بننے کے خواب نہیں دیکھ سکیں گے۔ سیاست کے زوال کی انتہا یہ ہے کہ معاشرے کے بہترین افراد اس سے نفرت کرنے لگیں۔ جو کچھ یہاں ہورہا ہے اس کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے کہ ہم قحط الرجال کا شکار معاشرہ ہیں‘ جس میں بہترین اور بد ترین میں بڑا فرق باقی نہیں بچا۔ بھلا کسی جمہوری ملک میں 'اس کے سوا کیا آپشن ہے‘ جیسا بے معنی سوال اٹھاکرتا ہے؟
جمہوری پارلیمانی نظام حکومت میں سیاست کا شہ سوار وزیراعظم کہلاتا ہے اور ظاہر ہے پاکستان میں یہ درجہ خان صاحب کو حاصل ہے۔ ان کی سیاسی خصوصیت ہے کہ وعدہ کرنے اور خواب دکھانے میں کمال رکھتے ہیں مگر عمل کی بات ہوتو پھر سوائے لنگر خانوں یا پناہ گاہوں کے ان کا دفتر خالی ہے۔ الیکشن سے پہلے ان کے ان گنت دعووں میں سے ایک دعویٰ اداروں کی مضبوطی کا تھا۔ اقتدار میں آکر جس طرح انہوں نے اپنے مخالفین کی مشکیں کسنے کی کوشش کی بالکل اسی طرح اب وہ اداروں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ پہلے اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کو نشانہ بنایا تو اب الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کو للکارنے لگے ہیں۔ پارلیمانی نظام کے وزیراعظم ہوکر بھی انہیں یہ اندازہ نہیں ہوپارہا کہ جمہوریت میں مکمل طاقت کسی کے پاس بھی نہیں ہوتی، بس انیس بیس کے فرق سے ہی یہ نظام چلتا ہے۔ ان نظام کے اندر توازن قائم رکھتے ہوئے اپنا کام کرتے چلے جانا ہی کامیابی ہے۔ جہاں یہ توازن بگڑا، سب کچھ اوپر نیچے ہوجاتا ہے۔ خان صاحب یہ توازن بگاڑ چکے ہیں۔ ان سے پہلے نواز شریف نے بگاڑا اور نکالے گئے، آصف علی زرداری ٹھوکر کھا گئے، جنرل پرویز مشرف کے ذہن میں بھی یہی سودا سما گیا تھا اور سب سے پہلے تو ذوالفقار علی بھٹو جو اپنے ہی بنائے ہوئے نظام کی پابندیوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ خود کو عقل کل سمجھ لینا اور اپنے سوا سب کو غلط سمجھ لینے کے رویے کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا۔
غوث بخش بزنجو مرحوم ایک اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے اڑنج گڑنج۔ ایک دن ان کے معاون بی ایم کٹی نے ان سے اس مطلب پوچھا تو بتایا 'ایسی لڑائی جس میں کئی فریق ہوں اور سب ایک دوسرے کو گرانا چاہیں‘۔ ہماری سیاست کا بھی یہی حال ہے۔ صورت یہ ہے کہ خان صاحب الیکشن کمیشن سے استعفا طلب فرما رہے ہیں، نواز شریف اداروں کی دہائی دینے کے ساتھ ساتھ ان پرنام لے لے کر برستے ہیں اور عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں، آصف علی زرداری ان سب کو دھوبی پٹکا دینے کے لیے خود اکھاڑے میں اتر چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمن ہر اس بساط کو الٹ دینا چاہتے ہیں جس پر انہیں چال چلنے کا موقع نہیں مل رہا۔ یہ ہے ہمارا اڑنج گڑنج۔ بس ہمارے پاس یہی نصف درجن لوگ ہیں جو دنیا میں کہیں بھی ہوں گے وہاں اڑنج گڑنج ہوگا، نالائقی ہوگی، بے بسی ہوگی اور ناامیدی ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved