تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     02-07-2013

’’تھینک یو ‘‘

’’مارکیٹ ‘‘ میں ان دنوں ہمارے سابق کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے اطلاق کا شوروغوغا ہے۔اس سلسلہ میں جو ٹاک شوز سجائے جارہے ہیںان میں مسٹر احمد رضا قصوری کا شریک ہونا اتنا ہی ضروری سمجھا جارہاہے جتنا کبھی ہماری فلموں میں ’’ملکۂ جذبات‘‘ سلمیٰ ممتاز کا کریکٹر لازمی شامل کیاجاتاتھا۔ قبلہ قصوری صاحب پر بات بعد میں ہوگی پہلے سلمیٰ ممتاز کو یاد کرلیتے ہیں۔ سلمیٰ ممتاز پاکستان فلم انڈسٹری کی سٹار کریکٹر ایکٹریس تھیں جو فلموں میں عموماََماں کا کردار ادا کیاکرتی تھیںاورلالہ سدھیر ان کے غیرت مند بیٹے کا کردار نبھایا کرتے تھے۔فلم کے کلائمیکس میں ولن پارٹی ہیروئن کے ساتھ ساتھ لالے سدھیر کی ’’فلمی بہن ‘‘ کو بھی اغوا کرلیاکرتی اورپھر دونوں خواتین کواپنے ’’حلقے‘‘ (ڈیرے ) پر لے جایاکرتی ،جہاں ان سے رقص کرنے کی فرمائش کی جاتی ، ظاہر ہے شر م و حیا کی پیکر ہیروئن رقص کرنے سے انکار کردیتی ہے لیکن ولن کا حواری جب لالہ سدھیر کی بہن کی کنپٹی پر بندوق رکھتاہے تو ہیروئن اس کی جان بچانے کے لیے باامر مجبوری ’’اپنے فن کا مظاہرہ‘‘ کیا کرتی تھی ۔دوسری طرف لالہ سدھیر ولن پارٹی کو نیست و نابود کرنے کے لئے نکلتا ہے ۔عین اس وقت جب وہ بندوق ہاتھ میں تھامے اپنی ذاتی سفید گھوڑی پربیٹھ رہاہوتا ہے ،سلمیٰ ممتاز کی انٹری ہوتی تھی ۔یہ وہ جذباتی منظر ہوتاتھا جب ماں اوربیٹے میں زبردست مکالمے بازی ہواکرتی تھی۔ جس کا لب لباب یہ ہوا کرتاتھاکہ ماں اپنے بیٹے کو دشمنوں کو برباد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر تم نے اس مشن میں’’ مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل نہ کیے تو سمجھ لینا میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشو ں گی۔ قصوری صاحب اورجنرل پرویز مشرف کے ریلیشن شپ کا یوں تو ماضی کے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر اورملکۂ جذبات کے کرداروں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں،لیکن دونوں طرف مکالمہ بازی مشترکہ دلچسپی سمجھی جاسکتی ہے ۔ گذشتہ دنوں قصوری صاحب اپنے ’’ڈیلیکس کلائنٹ‘‘ کا دکھ بیان کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے موٹے ، موٹے آنسوئوں سے رونے بھی لگے تھے۔ قصوری صاحب کا کہناتھاکہ جنرل مشرف کی والدہ دبئی میں بیمار ہیں، انہیںتیمارداری کے لیے اجازت دینی چاہیے۔قصوری صاحب کا تمام درد ِدل جرنیلوں کے لیے وقف ہے۔جنرل پرویز مشرف کی وکالت کرتے ہوئے ان کی آنکھیں چھم،چھم کرتے آنسوئوں کی رم جھم برسا رہی ہیں، انہی کے والد ِگرامی نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کیس میں مسلم امہ کے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا تھا۔ موصوف ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ میرے والد کے قتل کیس میں بھٹو کوپھانسی اورجنرل محمد ضیاء الحق کو گیارہ سال تک پاکستان پر حکمرانی کرنے کا موقع میسر آیا۔میں نے اپنے والد کے قتل کا مقدمہ جیتا اوربھٹو صاحب کو سزائے موت ہوئی لیکن اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے طویل دور میں ،میں نے اس شخص سے کبھی کوئی سہولت حاصل نہیںکی جبکہ اس کے برعکس نوازشریف ، جنرل ضیاء الحق کی مہر بانیوں سے پہلے صوبائی وزیر خزانہ بنے،پھر وزیراعلیٰ اور اب وزارت عظمیٰ کی ہیٹرک فرمارہے ہیں۔ قصوری صاحب نے کہاکہ آرٹیکل 6کا اطلاق اکیلے جنرل مشرف کے لیے نہیںہوگا ، ان کے ساتھیوں میں حاضر سروس جرنیل شامل ہیں۔میاں نوازشریف خود بھی جنرل محمد ضیاء الحق کے سیاسی ساتھی رہے ہیں ،ضیا ء ا لحق نے اس ملک میں جو کچھ کیانوازشریف تمام کیے دھر ے میں شراکت دار رہے، لہٰذا ان پر بھی آرٹیکل 6کا اطلاق ہونا چاہیے۔ دوسری طرف اطلاع ہے کہ جنرل مشرف نے اپنی لیگل ٹیم کو یہ حکم دیاہے کہ وہ اصغر خان کیس پر عمل درآمد کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کی تیاری کرے۔اصغر خان کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے جو گواہان پیش ہوئے انہوں نے واضح طور پر بیان کیاکہ نوازشریف نے آئی جے آئی بنانے کیلئے ایجنسیوں سے رقوم وصول کیں۔غیر آئینی طریقے سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے کے لیے سازشیں کی گئیں اورایک جعلی انتخابات کے ذریعے مصنوعی مینڈیٹ ڈیزائن کیاگیا۔سپریم کورٹ نے وضاحت کے ساتھ اپنے احکامات میں کہاہے کہ حکومت ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے لیکن پیپلز پارٹی کی ’’نیک پروین حکومت‘‘اس فلسفۂ سیاست پر یقین رکھتی تھی کہ ’’ تفتیش نہ کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کو اپنی ’’نیک پروینی ‘‘ کے بارے میں تھوڑی بہت ترمیم کرلینا چاہیے ،خاص طورپر سوئس حکام کو جعلی خط لکھنے کے معاملہ کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد توانہیں جان لینا چاہیے کہ قومی سیاست اس محاورہ پر عمل پیرا رہتی ہے کہ…نیکی کر دریامیں ڈال …جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے اطلاق کی بابت گفتگو میں سید مشاہد حسین اورپرویز رشید آمنے سامنے تھے۔مشاہد حسین کا کہنا تھاکہ میاں نوازشریف کو عوام نے جن تین اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے مینڈیٹ دیاہے ان میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ، معیشت کی بحالی اوردہشت گردی سے نجات شامل ہیں۔لہٰذا نون لیگ کی حکومت کو جنرل پرویزمشرف کے مقدمہ میں اُلجھے بغیرپاکستان کے عوام کو درپیش مسائل سے چھٹکارا دلانا چاہیے۔مانا کہ سیدمشاہد حسین بڑے سیانے ہیںلیکن انہیں عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے یہ تو سوچنا چاہیے کہ آپ جناب اس سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل ہیںجس کے سرپرست اعلیٰ کبھی جنرل مشرف ہوا کرتے تھے۔یہ وہی جماعت ہے جس کے ڈپٹی چوہدری نے فلک شگاف نعرہ لگاتے ہوئے کہاتھاکہ ’’جنرل مشرف کو 10بار ،وردی میں صدر منتخب کرائیں گے‘‘۔شاہ جی اب عوام کے اس قدر بھی ’’کڑاکے‘‘ نہ نکالیںکہ وہ جان جائیں کہ آپ اصل میں کیاکہناچاہتے ہیں؟ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان کا آئین توڑنے والے آمروں کو روحانی سزائیں سنا کر تاریخ کے کوڑادان میں پھینک دیا جائے ۔ یہ بڑی اچھی تجویز ہے ، لیکن کوڑا دان کے سپرد کیے جانے والے آمروں کا انتخاب کرتے ہوئے شرط یہی ہونی چاہیے کہ ’’آمر ہٰذا کا رحلت فرمانالازم ہو‘‘۔جنرل مشرف صاحب کے معاملہ میں کہیں سے بھی لانگ ڈسٹنس کال موصول ہو تو حکومت کو صرف یہ کہناچاہیے کہ ’’ہمارے ہاں آئین اورقانون موجود ہے ،جو کچھ ہوگا آئین اورقانون کے مطابق ہوگا‘‘۔ اصولی طور پر جنرل مشرف اکیلے آئین توڑنے کے قصور وار نہیںہیںاس عمل میں انہیںاپنے ساتھیوں کاساتھ اوراخلاقی تعاون حاصل رہا،لیکن یہ بھی درست ہے کہ فوج بحیثیت ادارہ چین آف کمانڈ کے نظم وضبط سے فعال کردار ادا کررہی ہوتی ہے۔ چیف کا حکم ہی سب کچھ ہوتاہے۔ ویسے بھی جنرل مشرف کا کیرئیر آئین شکن اعمال سے بھرا پڑا ہے ،وزیر اعظم نوازشریف ، بھارتی وزیراعظم واجپائی کا اعتماد حاصل کرچکے تھے مگر جنرل مشرف نے کارگل برپا کردیا،بارہ اکتوبر کی واردات کے بعد بگتی کا قتل، لال مسجد کا سانحہ ،3نومبر 2007ء کے دن ایمرجنسی کے نام پر دوبارہ مارشل لانافذ کرنا،ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کا عمل اورسب سے بڑھ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل کیسے معاف کیاجاسکتاہے؟ ۔متذکرہ جرائم کے الزامات کی جواب دہی کے لیے جنرل مشرف کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔لاہور میں صحافیو ں نے میاں شہبازشریف سے سوال کیاکہ کیاجنرل مشرف پر آرٹیکل 6کا اطلاق ہوگا ؟تو تیزگام وزیراعلیٰ نے اس سوال کے جواب میں صرف’’تھینک یو‘‘ کہااورآگے بڑھ گئے۔ پرویز رشید باربار کہہ رہے ہیںکہ جنرل مشرف کا فیصلہ عدالتیں آئین اورقانون کے مطابق کریںگی۔امریکی قاتل ریمنڈڈیوس بھی دن دیہاڑے لاہور میں دوافراد کو قتل کرکے ہمارے پیچیدہ اورآسان قوانین کے ہوتے ہوئے ’’تھینک یو‘‘ کہہ کرامریکہ روانہ ہوگیاتھا۔ میرا ماتھا ٹھنک رہا ہے کہ کہیں جنرل مشرف کے کیس میں بھی ’’تھینک یو‘‘ والامعاملہ نہ ہوجائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved