تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     17-03-2021

سسٹم

پچھلے ہفتہ دس دن کے دوران پاکستان کے ٹوٹے ہوئے جمہوری 'نظام‘ کی ناکامی سب پر واضح ہو گئی۔ منگل، 3 مارچ کے روز یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں ووٹوں کی اکثریت کے ذریعے سینیٹ کیلئے اپنی نشست جیت لی۔ درحقیقت، یہ ووٹ وزیر اعظم اور ان کے نامزد امیدوار جناب حفیظ شیخ کے خلاف (خفیہ رائے شماری کے ذریعے) ڈالے گئے تھے۔ اس کے صرف تین دن بعد، انہی ممبران قومی اسمبلی نے (کھلی رائے شماری میں) پارلیمنٹ اور ملک کی قیادت کرنے کی ان کی صلاحیت پر 'اعتماد‘ کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے حق میں اکثریت سے ووٹ ڈالے۔ (اس کے چند روز بعد پُرانے اور نئے منتخب کردہ سینیٹرز نے اکثریت سے حکومت کے نامزد کردہ امیدوار برائے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کر لیا)۔ اس طرزِ عمل کے باوجود یہ لوگ معزز ہیں‘ بروٹس کی طرح۔
یوسف رضا گیلانی یا عمران خان صاحب کیلئے یہ لمحہ جشن منانے کا نہیں تھا۔ منتخب ہونے کیلئے ایک نے ووٹ ''خریدے‘‘ جبکہ دوسرے کو ان لوگوں کا 'اعتماد‘ حاصل ہے جو محض تین دن قبل اپنے ووٹ بیچنے کو تیار تھے۔ اور پھر بھی بروٹس ایک معزز آدمی ہے! ان ساری پیشرفتوں کے بعد ہمارے پاس (جمہوری) انتخابی 'نظام‘ کی آئینی اور قانونی بُنت کے بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔ اپنے جمہوری وعدے پر پورا اترنے کے لیے آئینی تانے بانے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس بحث کی بنیاد دراصل ایک اہم سوال ہے: کیا 'نظام‘ کام کر رہا ہے، یا ہمیں اپنی آئینی جمہوریت کی بنیادی باتوں پر از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے؟
آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے آغاز ایک ''آئینی جمہوریت‘‘ کے مقصد کو بیان کرنے کی عاجزانہ کوشش سے کرتے ہیں۔ اگرچہ قانون کے فلسفیوں اور سیاسی مفکرین، ساری تاریخ میں، ایک آئینی فریم ورک کے میکینکس کا تعین کرنے میں ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں، اس کے باوجود اس کے بارے میں ایک عام اتفاق رائے بھی موجود ہے کہ آئینی جمہوری نظام کو کیا کرنا چاہئے: ایک ایسا میکنزم تیار کرنا جس میں آبادی کی فلاح و بہبود سے متعلق امور میں لوگوں کی اجتماعی مرضی اور خواہش سیاسی، قانونی اور انتظامی طاقت کی راہداریوں میں اظہار پا سکے۔
اس مقصد کی قدرتی نشاندہی کے طور پر ایک فعال آئینی جمہوریت کو ایسے قانونی سیف گارڈز تیار کرنا ہوتے ہیں‘ جو منتخب نمائندوں کو عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے پر مجبور کریں۔ جو عدالتی نظام سے مطالبہ کریں کہ وہ قصورواروں کو سزا دے اور بے گناہ افراد کے نقصان کا ازالہ کرے۔ جو ایگزیکٹو اتھارٹی کو مینڈیٹ دیں کہ وہ کسی بھی ادارے میں کسی بھی طرح کے خوف یا فیور کے بغیر بلا امتیاز خدمات انجام دے سکے۔
آئیے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحت قائم 1973 کے جمہوری نظام کا ان جمہوری اصولوں کی کسوٹی پر جائزہ لیتے ہیں۔ آغاز مقننہ سے کرتے ہیں: آئیے ایمانداری کے ساتھ تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر خود سے یہ پوچھیں کہ، کیا ہمارا 'نظام‘ ایسے لوگوں کا انتخاب کرتا ہے جو عوام کی حقیقی نمائندگی کرتے ہوں، اور کیا یہ نظام پھر ان منتخب افراد کو عوامی مفاد میں کام کرنے (قانون سازی) پر مجبور کرتا ہے؟ اس مقصد کیلئے کیا ہمارا انتخابی نظام ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جو ہر حلقے سے انتہائی قابل اور سب سے زیادہ کوالیفائیڈ افراد کے انتخاب کو یقینی بنا سکے؟ یا اس کے بجائے، یہ ایک ایسا عمل بن گیا ہے جس کے ذریعے دولت مند اور طاقتور اپنی دنیاوی عظمت کو برقرار رکھتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ بدعنوانی اور عشروں کی عوامی بدانتظامی کے الزامات کے باوجود وہی افراد اپنے اپنے حلقوں سے منتخب ہونے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور کوئی تازہ قیادت سامنے نہیں آ رہی ہے؟ سیاسی حلقہ بندیاں، خاندانی ممبرز میں دیگر مادی چیزوں کی طرح موروثی ٹائٹل کی حیثیت سے کیوں اختیار کر چکی ہیں؟ ہمارا 'نظام‘ ادارہ جاتی چیکس اور بیلنسز کے ذریعے اس طرح کی زیادتیوں سے کیوں نہیں بچاتا؟
ان سوالوں کا جواب آسان ہے: ہمارے انتخابی نظام میں کامیابی انتخابی حلقے میں امیدوار کی مالی اور جسمانی طاقت کا ایک اظہار ہے۔ ہمارے 'نظام‘ میں، اللہ دتہ اور اسکے اہل خانہ کے پاس سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے سرداروں، پنجاب کے چودھریوں اور خیبر پختونخوا کے ملکوں کی مالی طاقت (اور مسلح گروہوں) کے خلاف لڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایسے (طاقتور) افراد نہ صرف اپنے انتخابی حلقوں میں کسی بھی ممکنہ حریف کو ڈرا دھمکا سکتے ہیں، بلکہ انتخابی عمل کے دوران ان کو آسانی سے پیچھے بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ انتخابی ایکٹ 2017 کی دفعہ 132 کے تحت انتخابی مہم میں مالی اخراجات کی پابندیوں کے باوجود (مثال کے طور پر یہ شرط رکھی گئی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں امیدوار 1.5 ملین روپے سے زیادہ خرچ نہیں کر سکتا)، ہمارے 'نظام‘ نے کبھی اس قانونی پابندی کے نفاذ کو یقینی نہیں بنایا۔
انتظامی معاملات کی بات کریں تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارا خدمات کی فراہمی کا شعبہ بغیر کسی خوف اور لالچ کے کام کرتا ہے؟ کیا تھانہ، متعلقہ پولیس قوانین کی تمام شقوں کے باوجود، اللہ دتہ کے ساتھ ایک مقامی سیاسی رہنما کے برابر سلوک کرتا ہے؟ کیا پٹوار؟ کیا ڈی ایچ کیو ہسپتال؟ یا ڈسٹرکٹ کمشنر؟ کیا عوامی تعلیم کا 'نظام‘ واقعتاً ایسا ہے کہ اس متحرک جدید دنیا میں اللہ دتہ کے بچوں کو ایلیٹ کے نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دے؟ کیا واقعی یہ 'سسٹم‘ عام بچوں یا بے گھر بچوں کیلئے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے‘ جو اسے کرنی چاہئے؟ یا ہر سال جو ہزاروں خواتین اور بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں ان کو کوئی تحفظ فراہم کرتا ہے؟ کیا ہمارا 'نظام‘ تھر کے ان 200 بچوں کی کوئی پروا کرتا ہے‘ جو پچھلے سال خوراک اور پانی کی کمی کے باعث ہلاک ہو گئے تھے؟ کیا یہ اقلیتوں کو تحفظ دیتا ہے؟
اس سسٹم‘ کے نظامِ عدل میں یقیناً بہت سی اچھی چیزیں ہیں‘ لیکن مجموعی طور پر، کیا یہ 'نظام‘ واقعتاً‘ اللہ دتہ کو انصاف فراہم کرنے کیلئے کام کر رہا ہے؟ یا اس کے بجائے، یہ اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ طاقتور اور دولت مندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے؟ جب کوئٹہ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے دن دہاڑے ایک ٹریفک وارڈن کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل کر بھی بری ہو جائے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ 'سسٹم‘ انصاف فراہم کرتا ہے؟ کیا اس وقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظامِ عدل کام کر رہا ہے‘ جب سات سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ماڈل ٹاؤن قتل عام میں ملوث کسی ایک فرد کو مجرم قرار نہ دیا جا سکے؟ کیا یہ 'نظام‘ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی سے ہلاک ہونے والوں کیلئے کام کر رہا ہے؟ کیا یہ لیاری کے ان لوگوں کیلئے کام کر رہا ہے جو عزیر بلوچ کی دہشت گردی کے دور میں وہاں رہتے تھے؟ کیا اس 'نظام‘نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کے متاثرین کیلئے کام کیا؟
جتنا بھی اسے قبول کرنا مشکل ہو سکتا ہے، سچ یہ ہے کہ یہ 'نظام‘ کام نہیں کر رہا ہے۔ ہم اس کیلئے بہانے تراش سکتے ہیں۔ ہم کسی خاص سیاسی جماعت، یا ثقافت، یا وقت، یا عوام کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن، یہ مسلمہ ہے کہ 'نظام‘ کام نہیں کر رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کو بنیادی خدمات فراہم نہیں کرتا ہے جو ان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ اور یہ بدمعاشوں کو سزا نہیں دیتا اور نہ ہی بے گناہوں کی تلافی کرتا ہے۔ہمیں پاکستان میں ایک نیا نظام درکار ہے۔ یا، کم سے کم بات کی جائے تو ہمیں موجودہ 'نظام‘ میں ایسی بنیادی ترامیم کی ضرورت ہے جو ہمارے آئینی نقشِ اول میں بنیادی تبدیلیاں لائیں۔ ہم رضاکارانہ طور پر ایسا کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں‘ یا ہم انتظار کر سکتے ہیں کہ کوئی اللہ دتہ ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کر دے۔ اور انسانی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب کبھی بھی لوگ 'نظام‘ کو تبدیل کرنے کیلئے از خود اٹھتے ہیں تو پھر یہ کام خون بہے بغیر نہیں ہو سکا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved