پاکستان تحریک انصاف کو حکومت کا مینڈیٹ تبدیلی کے نام پر ملا تھا، 2018ء کے عام انتخابات سے قبل صرف سو دنوں میں قوم سے انقلاب کے وعدے کیے گئے تھے اور دعویٰ تھا کہ تین ماہ میں ہی ملک میں واضح تبدیلی نظر آنے لگے گی۔ ظلم، بدعنوانی، ناانصافی، اقربا پروری، رشوت، سفارش، لاقانونیت، جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی جیسی علتوں کاخاتمہ ہو گا اور ان کی جگہ امن و امان، میرٹ، انصاف اور حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ قوم کو تبدیلی کا سنہرا خواب دکھایا گیا جس پر پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور نتیجتاً عمران خان وزیراعظم بن گئے لیکن اختیارات ملنے کے بعد حکمرانوں نے خود ہی اپنے وعدوں کو ناقابلِ عمل قرار دیتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا کہ ستر برس کے مسائل چند دنوں یا مہینوں میں حل نہیں ہو سکتے، پہلے چھ ماہ کا وقت لیا گیا، پھر ایک سال کی مہلت مانگی گئی، اب پونے تین برس ہونے والے ہیں اور اقتدار کی مدت کے ساتھ ساتھ اعتماد کی فضا بھی ابر آلود ہونے لگی ہے، صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وزیراعظم کو ازخود قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔
سادہ لوح عوام یہ سمجھنے لگے تھے کہ حکومت کو سینیٹ کی نشستوں کے حوالے سے جھٹکا لگا ہے تو شاید اب ہمارے حکمرانوں کو احساس ہو جائے گا کہ صرف نعروں اور مخالفین پر تنقید کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے لیکن اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد سے جب اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا تو حکومت دوبارہ مخالفین کو للکارنے لگی، پھر سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں رہی سہی کسر پوری ہو گئی اور عوام کی امنگیں دوبارہ ہچکولے کھانے لگیں۔
حکومت تبدیلی کی بات کرتی ہے، تبدیلی کی کئی اقسام ہیں، ایک تو چہروں کی تبدیلی ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل جاری ہے، ہر الیکشن میں چہرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، حزب اقتدار والے حزبِ اختلاف میں چلے جاتے ہیں اور اپوزیشن عوام کو سہانے خواب دکھا کر حکومت میں آ جاتی ہے، البتہ چند چھوٹے اتحادی ہر دور میں حکومت کا حصہ رہتے ہیں یوں وہی پرانے چہرے بار بار لیبل تبدیل کر کے عوام پر مسلط رہتے ہیں۔ ایک تبدیلی نظام کی ہے جس میں رشوت، سفارش، بدعنوانی اور دیگر سماجی جرائم کو ختم کرکے صاف و شفاف نظامت کا قیام شامل ہے تاکہ عام آدمی کو انصاف بھی ملے اور احساسِِ تحفظ بھی ہو۔ ایک تبدیلی نظامِ تعلیم کی تبدیلی ہے جس میں فرسودہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرکے ملک بھر میں یکساں معیاری نظام تعلیم کو رائج کرنا ہے جس سے ایک غریب و بے سہارا بچہ بھی مستفید ہو سکے۔ تبدیلی صحت کے شعبے میں بھی لائی جا سکتی ہے جس میں ایک عام شہری کو صحت کی جدید ترین بنیادی سہولتیں بالکل مفت مل سکیں اور کوئی غریب علاج معالجے کی سہولت افورڈ نہ کر سکنے کی بنا پر موت کے منہ میں نہ جائے۔ بلاشبہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہیں لیکن علاج کرانا بھی سنت ہے اور ایک فلاحی ریاست میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو معیاری اور مفت علاج کی سہولتیں فراہم کرے۔ غرض تبدیلی کی بڑی اقسام ہیں لیکن یہاں ہمارا مقصد صرف نظام کی تبدیلی پر بات کرنا ہے جو ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہی اور اب تک ہونے والے تجربے کی روشنی میں دور دور تک اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر مقتدر طبقات آج بھی تہیہ کر لیں تو بقیہ ماندہ مدت میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اس وقت ملک کورونا وبا کی تیسری لہر سے نبرد آزما ہے۔ ہمارے ملک میں سمارٹ لاک ڈائون کا تجربہ پہلی دو لہروں کے دوران کافی حد تک کامیاب رہا‘ جس سے کورونا وائرس کی شدت میں کمی بھی آئی اور حسبِ ضرورت معاشی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں، اب کورونا کی تیسری لہر شدت اختیار کرنے کی خبریں ہیں اور اس بار بھی موجودہ حکومت نے سب سے پہلے تعلیمی اداروں اورکھیل کے میدانوں کو بند کیا ہے جو شہریوں کی سمجھ سے بالاتر ہے، یعنی بازار کھلے ہیں لیکن سکول بند، پبلک پارک کھلے لیکن کھیل کے میدان بند۔ معلوم نہیں ایسی پالیسیاں کون ترتیب دیتا ہے حقیقت میں جن کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے یہ حکم نامہ بھی جاری کیا ہے کہ تمام بازار اور شاپنگ مالز شام چھ بجے بند کر دیے جائیں گے لیکن بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کا زور صرف سکول، کالجوں اور گرائونڈز کو تالے لگوانے تک ہی چلتا ہے۔ دوسری طرف حکومت آج تک اپنی کسی ٹھوس پالیسی پر سو فیصد عملدرآمد نہیں کرا سکی۔ مارکیٹوں کی ٹائمنگ وغیرہ کا معاملہ کورونا کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے بلکہ سارا سال اس پالیسی پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔ دینِ اسلام بھی ہمیں صبح سویرے کام پر نکلنے کی تاکید کرتا اور دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی غیر مسلم ممالک میں تو ان اصولوں پر عمل ہو رہا ہے لیکن ہم حاملِ قرآن ہو کر بھی ان زریں اصولوں سے دور کھڑے ہیں، یہی ہمارے بحرانوں کا سبب بھی ہے۔ ہمارے ملک میں کاروباری مراکز دوپہر سے پہلے کم ہی کھلتے ہیں اور پھر نصف شب تک کھلے رہتے ہیں جو ناصرف شریعت کے اصولوں سے متصادم ہے بلکہ اس سے بجلی کی کئی گنا اضافی کھپت سمیت متعدد دیگر مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ راقم الحروف پہلے بھی اپنے ویتنام کے تجربے کا ذکر کر چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جسے طویل امریکی جنگ نے تباہ کر دیا تھا‘ لیکن ان لوگوں نے اپنی زندگی میں ایسے کئی رہنما اصول اپنا رکھے ہیں جس سے دنیاوی ترقی کے زینے چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہاں دیکھا کہ وہ لوگ ایمان کی روشنی سے تو محروم ہیں لیکن دن کی روشنی کا استعمال خوب جانتے ہیں، وہ فجر کی نماز کے بارے میں نہیں جانتے لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کا معمول ہے اور منہ اندھیرے (علی الصبح) ہی کام و کاروبار کے لئے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ سورج نکلنے سے قبل وہ اپنے دن کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں، اسی طرح نوکری پیشہ مرد و خواتین بھی صبح سات بجے سے پہلے اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں، صبح تازہ دم ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ وہاں طلوعِ آفتاب سے پہلے شروع ہونے والا کاروبارِ زندگی سورج کے غروب ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔ شام کے بعد کوئی بازار یا شاپنگ مال کھلا نہیں ملتا، اس لئے جسے کچھ خریدنا ہوتا ہے‘ وہ دن کو ہی خرید لیتا ہے۔ اس طرح وہ قوم بجلی کی بچت بھی کرتی ہے اور شاید اسی باعث ہم نے وہاں ایک لمحے کیلئے بھی لوڈشیڈنگ نہیں دیکھی۔ اس کے برعکس ہم نے جب سے دن کی روشنی کا استعمال ترک کیا ہے‘ ایک تو ہماری نمازِ فجر قضا ہونے لگی ہے، تاخیر سے اٹھنے کے باعث ہم اکثر کام پر جانے کیلئے بھی لیٹ ہو جاتے ہیں، جبکہ یہاں بجلی کا 70 فیصد حصہ رات کو کمرشل لائٹوں پر ضائع ہو جاتا ہے۔اگر ہم سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کریں تو توانائی بحران سے ہماری جان چھوٹ سکتی ہے۔
بات کورونا لاک ڈائون میں شام چھ بجے مارکیٹیں بند کرنے کی ہو رہی تھی، تبدیلی حکومت کو یہ سنہری موقع پہلے بھی دو بار میسر آ چکا ہے لیکن اس سے استفادہ نہیں کیا گیا، اب پھر یہ سنہری موقع میسر آیا ہے کہ ملک بھر میں عام مارکیٹ کا نظام الاوقات صبح سات سے شام سات بجے تک کر دیا جائے، اس کے بعد صرف ریسٹورنٹس اور میڈیکل سٹورز ہی کھولنے کی اجازت ہو۔ کریانہ سٹور بھی شام سات بجے بند کر دیے جائیں، یوں لوگ خود بخود اپنی خریداری کا وقت ٹھیک کر لیں گے۔ اس سے قوم میں نظم و ضبط پیدا ہوگا اور توانائی بحران بھی کافی حد تک حل ہو جائے گا۔ اس میں کوئی اضافی وسائل خرچ نہیں ہوں گے اور یہ فیصلہ حقیقی تبدیلی کی بنیاد بھی ثابت ہو گا۔ اس حکومت کے پاس تبدیلی کا یہ شاید آخری موقع ہو اور اگر اب بھی اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا تو پھر آئندہ الیکشن میں عوام کے پاس جانے کیلئے حکومت کے پلّے کچھ نہ ہو گا۔