ہم مقابلے کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ہر قدم پر مقابلہ درپیش ہے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی شعبے سے ہو، مقابلے کی فضا برقرار رہتی ہے، دم توڑنے کا نام نہیں لیتی۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ ہر معاشرے میں وسائل کم ہیں اور مسائل زیادہ۔ کسی کو اگر معیاری انداز سے جینا ہے تو دوسروں سے الگ ہونا پڑے گا۔ کوئی الگ سے کچھ کرکے دکھائے گا تو ہی کامیاب کہلائے گا۔ جو کچھ دوسرے کر رہے ہیں وہی آپ بھی کریں تو آپ میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟ ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ جو لوگ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کر دکھاتے ہیں اُنہی کو برتر تسلیم کیا جاتا ہے۔ صلاحیت کا حامل ہونا اہم ہے مگر یہ سب کچھ نہیں۔ اس دنیا میں کون ہے جس میں صلاحیت نہیں پائی جاتی؟ ہر انسان کو اللہ نے کسی نہ کسی صلاحیت کے ساتھ خلق کیا ہے۔ اگر محض صلاحیت کا حامل ہونا کافی ہوتا تو کوئی بات ہی نہ تھی۔ ایسے میں کامیابی درخت پر لٹکے ہوئے پھل کی طرح ہوتی کہ ہاتھ بڑھایا اور توڑ لیا۔ ایسا نہیں ہے! حقیقت کی دنیا ہماری صلاحیت و سکت کا امتحان لینے پر تُلی رہتی ہے۔ اس معاملے میں زندگی کسی پر ظلم نہیں ڈھاتی۔ مقابلے کی فضا سب کے لیے ہے۔ اس معاملے میں کسی کو رعایت نہیں ملتی۔ جسے کسی مقام تک پہنچنا ہے اُسے کچھ کرکے دکھانا پڑے گا، مقابلے کے لیے میدان میں آنا پڑے گا۔
اپنے آپ کو کسی بڑے مقصد کے لیے تیار کرنا ہم میں سے ہر ایک کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ہم چاہے کسی بھی ماحول میں ہوں، ہمارے ارد گرد بہت کچھ ہو رہا ہے۔ لوگ کچھ بننے اور کچھ کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔ عملی زندگی ہمیں آزماتی رہتی ہے۔ مقابلے کی فضا ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر کچھ پانا ہے تو کچھ کر دکھانا ہے۔ اس امتحان میں کسی کے لیے رعایتی مارکس کی گنجائش نہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے کسی نمایاں مقام تک پہنچنے کی گنجائش صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ دوسروں سے ہٹ کر، اُن کی سطح سے بلند ہوکر کچھ کر دکھاتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ نمایاں وہی ہوتا ہے اور قدر کی نگاہ سے اُسی کو دیکھا جاتا ہے جو دوسروں سے ہٹ کر اور اُن سے بلند رہتے ہوئے کچھ کر دکھانے کا چیلنج قبول کرتا ہے۔ یہ چیلنج بھی رسمی طور پر سامنے نہیں آتا، خود قبول کرنا پڑتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ اگر آپ کو کچھ بننا ہے تو دوسروں سے بہتر کچھ کیجیے، جو کچھ آپ کرسکتے ہیں وہ دنیا کے سامنے لائیے۔ بہت سے لوگ منتظر رہتے ہیں کہ کوئی اُن سے صلاحیتوں کے اظہار کی فرمائش کرے اور پھر وہ کچھ کر دکھائیں۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ سے کچھ کر دکھانے کی فرمائش کرے؟ آپ جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کرکے دکھائیے، بس۔ اِتنی سی تو بات ہے۔ انتظار کس بات کا ہے؟ کبھی آپ اس بات کے خواہش مند رہے ہیں کہ کوئی آپ کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرے؟ عمومی سطح پر اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ جس نے بھی کچھ کیا ہے بس اِس اصول کی بنیاد پر کیا ہے کہ جو کچھ اندر ہے وہ باہر لایا جائے، دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے واقف ہونے کا موقع دیا جائے۔ یہ دنیا صرف اُنہیں جانتی اور مانتی ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کرکے اُس پر عمل کرتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے ہی لوگ کامیابی سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ یہ اصول کبھی تبدیل ہوا ہے نہ معطّل۔ کائنات کے بنیادی اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ مقابلے یا مسابقت کی دنیا میں کامیابی اُن کا مقدر بنتی ہے جو کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں اور پھر اپنی زندگی کو اپنے فیصلے کے مطابق تبدیل کرتے جاتے ہیں۔ غیر معمولی کامیابی غیر معمولی انہماک کی طالب رہتی ہے۔ ہر شعبہ ایسے لوگوں کا منتظر رہتا ہے جو دوسروں سے بلند ہونے کی شدید خواہش اور بھرپور لگن رکھتے ہوں۔ عمل کی دنیا کا یہی حُسن ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ الگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے شب و روز ہی الگ نہیں ہوتے، مزاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ وقت ضائع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ غیر معمولی کامیابی یقینی بنانے کے لیے وہ اپنے وقت کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے پر متوجہ رہتے ہیں۔ یہی کامیابی کی شاہ کلید ہے۔ اس دنیا کو اگر کچھ دیا ہے تو کس نے دیا ہے؟ کیا اُن لوگوں نے جن کے حصے میں غیر معمولی شہرت آئی یا پھر انہوں نے جنہیں بہت بڑے پیمانے پر دولت مل پائی؟ بات یہ ہے کہ دولت سے کچھ ہوتا ہے نہ شہرت سے۔ بات اگر بنتی ہے تو صرف اس بات سے کہ انسان کچھ ایسا کرے کہ فرق دکھائی دے۔ فرق دکھائی دینا چاہیے۔ اس دنیا پر احسانات اگر ہیں تو صرف اُن کے جنہوں نے کسی نہ کسی حوالے سے فرق پیدا کیا ہے اور فرق بھی ایسا کہ دنیا کو محسوس ہو کہ اُس نے کچھ پایا ہے۔ ہر دور میں دنیا اُن کی آمد کی منتظر رہی ہے جو فرق پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہوں۔ فرق پیدا کرنا مگر ایسا آسان بھی نہیں کہ کوئی بھی اس کام میں ہاتھ ڈالے اور کامیابی اُس کے قدم چومنے کے لیے بے تاب دکھائی دے۔ میر تقی میرؔ نے خوب کہا تھا ؎
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ مسابقت اِتنی زیادہ ہے کہ کامیابی کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے والا ہر انسان اس قابل نہیں ہو پاتا کہ دنیا اُسے مانے۔ جو فرق پیدا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں اُنہی کو دنیا جانتی بھی ہے اور مانتی بھی۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
ایک پتھر کی بھی تقدیر بدل سکتی ہے
شرط اِتنی ہے، سلیقے سے تراشا جائے
قدرت کی طرف سے عطا کیا جانے والا پتھر اپنی اصل حالت میں قابلِ توجہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں اُس پر کسی کی نظر کم ہی پڑتی ہے مگر جب کوئی سلیقے سے تراشتا ہے تب اُس پتھر کی طرف لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔ سلیقے سے تراشے ہوئے پتھر کو التفات کی نظر سے دیکھنے والے کاری گر کو بھی داد دیے بغیر نہیں رہتے۔ خام شکل میں ہاتھ آئے ہوئے پتھر کو تراش کر نئی شکل دینے، اُس کی افادیت میں اضافہ کرنے والے کو سبھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو بھی فرق پیدا کرنے اور دوسروں پر ظاہر کرنے کا اصول یاد رکھنا ہے۔ آپ چاہے کسی بھی شعبے میں ہوں، آپ کی موجودگی اُسی وقت محسوس کی جائے گی جب آپ واضح فرق پیدا کرنے اور دکھانے پر توجہ دیں گے۔
اداکار تو بہت سے ہیں مگر چند ہی ہیں جو لوگوں کے لیے مثال یا آدرش کے درجے تک پہنچ پاتے ہیں۔ وہی اداکار لوگوں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہوتا ہے جو دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرتا ہے، اپنے فن سے ایک نئی دنیا پیدا کرتا ہے۔ بہت سے اداکار جس پائیدان سے کیریئر شروع کرتے ہیں مرتے دم تک اُسی پائیدان پر رہتے ہیں۔ دلیپ کمار، امیتابھ بچن، راج کپور، محمد علی اور اِسی قبیل کے چند فنکار بلند ہو پائے کیونکہ انہوں نے اداکاری کو اپنے وجود کا حصہ بنایا، اُس میں ڈوب گئے۔ امیتابھ کے لمبے قد کو بالی ووڈ کے سرکردہ لوگ سراسر ناموافق قرار دیتے تھے مگر امیتابھ بچن نے اِس خامی کو خوبی میں تبدیل کیا۔ اُن کی آواز بھی ''آف بیٹ‘‘ قرار دی گئی مگر انہوں نے اِسے قومی پسند کا درجہ دلاکر دم لیا۔ محمد علی چھوٹی فلم انڈسٹری میں تھے مگر پھر بھی انہوں نے ریڈیو کی دنیا سے پائی ہوئی تربیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی آواز کو یوں استعمال کیا کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ فلموں کے کلائمیکس کی پُرجوش اداکاری کے حوالے سے وہ تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ قصہ مختصر، زندہ وہ رہتے ہیں جو اپنے فن پر متوجہ رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ فرق پیدا کرتے ہیں۔ جو کچھ دوسرے کر رہے ہیں وہی آپ بھی کریں گے تو جلد بھلادیے جائیں گے۔