تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     19-03-2021

ففتھ جنریشن وار فیئر اور اسلامو فوبیا

تلوار‘ تیروں اور نیزوں‘ بھالوں سے جنگوں کے دور کو فرسٹ جنریشن وار فیئر مانا جاتا ہے، اس دور میں انسانی اور عددی قوت ہی عمومی فتح کا معیار ہوتی تھی۔ اس کے بعد بندوق اور مشین گن کا دور آیا جو سیکنڈ جنریشن وار فیئر کہلاتا ہے، اس میں ہتھیاروں بالخصوص بارود کی مقدار فتح و شکست کا فیصلہ سنانے لگی، اس کے بعد بحری و فضائی جنگی جہازوں کا دور آیا جو دوسری عالمی جنگ کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا تھا، یہ تھرڈ جنریشن وار فیئر تھا۔ اس کے بعد دنیا میں دو عالمی طاقتوں اور کمیونزم اور کیپٹل ازم کے دو متصادم نظریات پر مبنی بلاکس کی تشکیل ہوئی اور ان میں کولڈ وار یعنی سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ روس اور امریکا کی سربراہی میں یہ جنگ تقریباً 45 برس تک لڑی گئی اور 1990ء میں سوویت یونین کے زوال کے ساتھ یہ جنگ اختتام پذیر ہوئی۔ اس سرد جنگ کو فورتھ جنریشن وار فیئر مانا جاتا ہے۔ اس جنگ میں دونوں عالمی طاقتیں براہِ راست لڑنے کے بجائے پراکسی وار کے ذریعے مختلف حکومتوں اور سول لوگوں کے مسلح گروہوں کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرتی تھیں۔ اس میں ہتھیار اور پیسے فراہم کر کے تقریباً پوری دنیا میں جنگیں برپا کی گئیں، ویتنام اور افغانستان اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کا کافی شور ہے، اس سے مراد ریاستوں اور افراد بالخصوص مغرب کا اسلام سے خائف اور اس کا مخالف ہونا ہے۔ یہ سلسلہ درحقیقت صدیوں پرانا ہے مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اسلام اور مسلمان‘ دونوں ہی مغرب کے حریفِ واحد کے طور پر ففتھ جنریشن وار فیئر کے تحت اس کا نشانہ بنے۔ مسلم ممالک براہِ راست جنگی تشدد کی تمام ممکنہ شکلوں اور حربوں کے ساتھ اس جنگ کی زد میں آئے اور اسلام کے افکار، نظریات اور مقدس ترین مقامات دیگر چیزوں پر نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تحریروںاور تقریروںسے حملہ کیا گیا۔ سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد سے مغربی طاقتوں نے امریکا کی سربراہی میں نیو ورلڈ آرڈر اور Clash of Civilizations یعنی تہذیبوں کے تصادم جیسے نظریات اور پہلے سے تیار کردہ منصوبے کے تحت، غیر اعلانیہ طور پر مسلم دنیا پر حملہ کر دیا۔ یہ اسلامو فوبیا کی 1990ء سے تاحال جاری لہر کا مختصر پس منظر ہے۔
مغربی دنیا سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر اپنے افکار اور اعمال کو حتمی اور اعلیٰ ترین تصور کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا ماننا ہے کہ آسٹریلیا، امریکا اور یورپ کے بعد دنیا ختم ہو جاتی ہے یعنی وہ اپنے کو نہ صرف Superior بلکہ دیگر دنیا بالخصوص ایشیائی اور مسلم دنیا کو Inferior اور اپنا مدمقابل گردانتی ہے۔ تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دنیا کے سب سے زیادہ تنازعات ایشیا‘ بالخصوص مسلم دنیا میں ہی پائے جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کے بیشتر تنازعات کا آغاز یا ان کی شدت آپ کو سرد جنگ کے بعد نظر آئے گی۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کے آمریت پسند حکمرانوں، فرقہ وارانہ تنازعات، کمزور معاشی و عسکری حالات نے مسلم ممالک کو ترنوالہ ثابت کیا ہے، بالخصوص دو بڑے مسلم ممالک کی فرقہ وارانہ سرد و گرم جنگ نے مسلم دنیا کو دو متصادم گروپس میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر سرد جنگ کے بعد سے برملا گستاخانہ مواد کی تسلسل کے ساتھ اشاعت، مسلمانوں پر تعصب بھری پابندیاں اور میڈیا کے ذریعے منفی کردار کشی کر کے ان کو دہشت گردوں سے تشبیہ دینا‘ حالانکہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان مسلمانوں ہی کا ہوا ہے‘ اسلامو فوبیا کے شعلوں کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔
ماضی قدیم میں جھانکیں تو اس فوبیا کا سب سے پہلا میدان صلیبی اور یروشلم پر قبضے کی جنگیں ہیں۔ بعد میں سلطنت عثمانیہ کے بطور عالمی طاقت ابھرنے سے یورپ میں اسلام مخالف جذبات کو مہمیز ملی۔ یہ وہ دور ہے جب یورپ عثمانی سلطنت کی خارجہ پالیسیوں سے متعلق اسی طرح سوچا کرتا تھا جس طرح آج کل مسلم ممالک نئے امریکی صدر کے آنے پر اندازے و تخمینے لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ نیا صدر کیا کرے گا اور کون کون سی پالیسی میں تبدیلی کا امکان ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلامو فوبیا کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہو گیا تھا جب پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے فوری بعد تمام ممکنہ وسائل، حربوں اور ذرائع کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کیے گئے تھے۔ اسی طرح اسرائیل کا خنجر بھی یہودیوں کے مفاد سے زیادہ مسلم مخالفت جذبات کی وجہ سے مسلم دنیا کے سینے میں گھونپا گیا تھا۔
اس تناظر میں سب سے اہم بات اہلِ یونان کے علمی عروج کے بعد مسلمانوں کی پانچ سو سال سے زیادہ عرصے تک تمام علوم میں دنیا پر برتری ہے، یہاں تک کہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد یورپ کی تعلیمی درسگاہوں میں مسلمانوں ہی کی لکھی گئی کتابیں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہیں، اس اعتبار سے یورپی نشاۃِ ثانیہ کا ابتدائی دور بھی مسلم میراث کا مرہونِ منت ہے۔ مسلمانوں کے اس علمی مثبت کردار کو نہ صرف یہ کہ نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ مسلمانوں کو اس راہ سے دور رکھنے کیلئے بھی تمام تر سازشیں اور کوششیں ہمہ وقت جاری رہتی ہیں۔
اس وقت بیشتر مسلم ممالک براعظم ایشیا اور افریقہ میں واقع ہیں اور مغرب مشرق اور مغرب کی تقسیم کے حوالے سے بھی فوبیا کا شکار ہے، جس کا اظہار گاہے گاہے نظر آتا رہتا ہے لہٰذا مسلمانوں کے مغرب کے زیر عتاب آنے کی وجہ دوچند ہو جاتی ہے۔ اسی لئے براعظم ایشیا میں حالات خراب رہنے بلکہ رکھنے میں ہی مغرب کو اپنی بھلائی اور مفاد نظر آتا ہے۔ مغرب نے جس طرح کمیونزم کو اپنے ہاں رائج کیپٹلسٹ طرزِ زندگی، خیالات اور افکار کے خلاف سمجھا‘ اسی طرح وہ اسلامی طرزِ زندگی سے خائف اور اس کا مخالف نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معاشی و سیاسی طرز میں کمیونزم کی قدرے نرم شکل سوشل ازم اسلامی فلسفے کے قرین ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران مسلمانوں نے امریکی بلاک کا ساتھ دیا تھا اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے فوری بعد امریکی بلاک نے مسلم دنیا کو ہی اسلامو فوبیا کے تحت زیر عتاب کر لیا جو آج تک جاری ہے؛ البتہ اب چین کے عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے سے اس میں کچھ کمی آ رہی ہے۔
سرد جنگ کے اختتام کے فوری بعد صدام حسین کو استعمال کرتے ہوئے کویت پر بلا جواز حملہ کروایا گیا، بعد میں امریکا نے اپنی سربراہی میں عراق پر حملہ کر دیا۔ یوں امریکا مستقل طور پر عرب خطے میں براجمان ہو گیا۔ جب دوبارہ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں امریکا عراق پر حملہ آور ہوا تو صدام حکومت کو ختم کرنے کے بعد وہاں خود ساختہ عسکری تنظیموں کو پروان چڑھا کر خانہ جنگی کو ہوا دی گئی اور یہ بربادی تاحال جاری ہے۔ نائن الیون حملوں کے بعد اسلامو فوبیا کی اصطلاع کا باقاعدہ استعمال نظر آتا ہے اور اس کے نتیجے میں روس کے خلاف بنائی گئی اپنی ہی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان پر حملہ کر دیا گیا اورآج بیس سال بعد بھی افغان جنگ ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ اس طرح افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا گیا۔ دیگر مسلم ممالک میں آپ لیبیا کے معمر قذافی کی مثال سامنے رکھ لیں۔ شام کی جنگ ہو، یمن کا تنازع ہو، میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی ہو، صومالیہ، نائیجیریا کی بدامنی کی ہو یا دیگر مسلم ممالک کی ابتر صورتحال‘ یہ سب کچھ اتفاقاً نہیں ہو گیا، اس سب کے پیچھے اسلام فوبیا کارفرما ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اپنے حالیہ ایک اجلاس میں ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ آئندہ کتنے مسلم ممالک کس حد تک اس دن کو منائیں گے‘ فی الحال تو اس بات پر تعجب ہے کہ اتنی جرأت کہاں سے آ گئی۔اس سلسلے میں عملی اقدامات کیا ہوتے ہیں‘ یہ بھی وقت ہی بتائے گا۔ اگر زمینی حقا ئق دیکھے جائیں تو مسلمانوں کیلئے چین کی شکل میں ایک قابل عمل حل نظر آتا ہے بلکہ اگر سرد جنگ میں پاکستان کے کردار پر نظر ڈالیں تو ضیاء الحق سے سراج الحق تک اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ تاحال کسی مسلم ملک یا مذہبی تنظیم نے چین کے کمیونزم کو کفر قرار نہیں دیا۔ آخر میں یہ بات وضاحت طلب ضرور ہے کہ مغرب کو خوف اسلام کے لازوال منشور سے ہے نہ کہ مسلمانوں سے‘ ورنہ شاید اس کا نام مسلم فوبیا ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved