اچھی خبر یہ ہے کہ مالی سال 2020-21ء کے پہلے سات ماہ میں لارج مینو فیکچرنگ یونٹس کی پیدوار میں سات اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارۂ شماریات کے مطابق پچھلے پانچ ماہ میں لگاتار اضافہ ہوا ہے جو معاشی ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر پچھلے سال سے اس کا موازنہ کیا جائے تو جنوری2021ء میں جنوری2020ء کی نسبت یہ اضافہ نو اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ پندرہ سیکٹرز میں سے آٹھ میں مثبت گروتھ دیکھی گئی ہے جبکہ باقی سات میں اگرچہ اس وقت منفی گروتھ کا رجحان ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان میں بھی بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔ حکومت نے سال کے شروع میں شرح نمو منفی دو اعشاریہ پانچ فیصد رہنے کی پیش گوئی کی تھی لیکن اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ سال کا اختتام مثبت شرح نمو کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کے حوالے سے جاری کیے گئے منٹس کے مطابق‘ اس سال جی ڈی پی میں ہدف سے زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ مالی سال 2020 تا 21ء کیلئے جی ڈی پی ہدف ایک اعشاریہ پانچ فیصد سے دو اعشاریہ ایک فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن امید کی جا رہی ہے کہ جی ڈی پی دو اعشاریہ پانچ فیصد سے دو اعشاریہ آٹھ فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ صنعتی ترقی کے باعث یہ اعداد وشمار بہتر ہو رہے ہیں۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ زرعی شعبے میں ترقی کا رحجان نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ٹیکسٹائل سیکٹر برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت اس شعبے کو سپورٹ کرنے کیلئے نت نئے پیکیج بھی دے رہی ہے اور ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن نہ تو برآمدات میں مطلوبہ رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور نہ ہی کپاس کی پیداوار میں بہتری آ رہی ہے۔ اس سال بھی چار اعشاریہ نو ملین بیلز درآمد کرنا پڑ رہی ہیں جو ایک زرعی ملک کے لیے یقینا لمحہ فکریہ ہے۔اس کے علاوہ خوش آئند خبر یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کے مطابق‘ کووڈ19 کی دوسری لہر نے معیشت پر منفی اثرات نہیں چھوڑے بلکہ کچھ شعبوں نے توقع سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ دوسری طرف مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق بہترین ریکوری کے باوجود آٹو موبل اور سٹیل سیکٹر ابھی تک2019 ء کی سطح پر واپس نہیں آ سکا ہے۔ شاید کورونا کی پہلی لہر کے اثرات ان سیکٹرز پر زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ وزارتِ صنعت کے مطابق‘ جولائی 2020ء سے جنوری2021ء تک پندرہ سیکٹرز میں اوسطاً چھ اعشاریہ پانچ فیصد گروتھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ فرٹیلائزر سیکٹر میں چھ اعشاریہ سات فیصد، خوراک، مشروبات اور تمباکو میں انیس اعشاریہ ایک فیصد، کیمیکل پروڈکٹس میں نو فیصد، آٹو موبل میں تیرہ فیصد، فارما سوٹیکل میں بارہ اعشاریہ تین فیصد، پٹرولیم میں چار اعشاریہ چھ فیصد، نان میٹیلک منرلز میں بائیس اعشاریہ تین فیصد اور ٹیکسٹائل سیکٹر میں دو اعشاریہ چھ فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جن شعبوں میں منفی گروتھ دیکھی گئی ہے ان میں آئرن اور سٹیل ایک فیصد، الیکٹرونکس پچیس فیصد، چمڑے کی مصنوعات بیالیس فیصد، لکڑی کا سامان چھپن فیصد اور انجینئرنگ مصنوعات میں تیس اعشاریہ پانچ فیصد کمی دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ کاغذ، بورڈ اور ربڑ کی مصنوعات میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔
لارج سکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اوسطاً بہتری قابلِ تحسین ہے لیکن عام آدمی کو ان اعداد وشمار سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ آٹے اور چینی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں یا نہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ حکومتی کوششوں کے باوجود آٹا اور چینی انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں آ رہے۔ وزیراعظم کے مطابق‘ صوبائی حکومتیں اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ اب اس مسئلے کا نیا حل تجویز کیا جا رہا ہے جس کے قابلِ عمل ہونے پر سوالات اٹھ چکے ہیں۔ تجویز یہ ہے کہ ملک میں آٹے اور چینی کی قیمتوں کو وزیراعظم ہائوس سے کنٹرول کیا جائے گا۔ کیا قیمت رکھنی ہے، کتنی درآمد کرنی ہے اور کتنی برآمد کرنی ہے‘ ان تمام فیصلوں کا اختیار وزیراعظم کی کیبنٹ کے پاس ہو گا۔ اس حوالے سے پاکستان فوڈ سکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس2021ء تیار کر لیا گیا ہے۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی منظوری کے بعد اشیائے خور ونوش کی قیمتوں کو فکس کرنے، ڈیمانڈ اور سپلائی کی معلومات حاصل کرنے کے اختیارات کابینہ کو منتقل ہو جائیں گے۔ مذکورہ آرڈیننس کے مطابق‘ اگر کوئی ڈیپارٹمنٹ یا سرکاری ملازم انفارمیشن دینے سے انکار کرے گا تو اسے نہ صرف جرمانہ کیا جائے گا بلکہ چھ ماہ کے لیے جیل بھی بھیجا جائے گا ؛ تاہم وزارتِ قانون تک جب اس آرڈیننس کی معلومات پہنچیں تو اس نے اسے ناقابلِ عمل قرار دے دیا۔ قانون کے مطابق‘ اشیا کی قیمتوں کا تعین صوبائی معاملہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس پر سے مرکز کا اختیار ختم ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق‘ وزیراعظم ہائوس سے مبینہ دبائو کے بعد وزارتِ قانون نے اس کی حمایت کر دی ہے لیکن یہ فیصلہ صوبوں میں نئی کشاکش کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
اس فیصلے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو سالِ نو میں گندم کی کمی کا سامنا رہے گا۔ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں زیادہ سے زیادہ گندم خریدنے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں‘ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے گندم کی نئی قیمت بھی جاری کر دی ہے جو پنجاب میں ممکنہ قیمت سے زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ بھی اس معاملے پر سیاست کی ہے اور تقریباً 2100 روپے فی من گندم کی قیمت نکالی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ کسان کی معاشی حالات بہت خراب ہے لہٰذا حکومت انہیں سپورٹ کرے گی جبکہ دوسری طرف پنجاب میں ممکنہ قیمت تقریباً اٹھارہ سو روپے رکھی جا سکتی ہے۔ تین سو روپے کا فرق صوبوں کے مابین گندم کی سمگلنگ اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
حکومت نے اس سال ستائیس ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کرنے کا ہدف طے کیا تھا جبکہ اصل پیداوار تقریباً چھبیس اعشاریہ پانچ ملین میٹرک ٹن تک رہے گی۔ اس حساب سے سات لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن گندم کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سرکاری عہدیداروں کے مطابق‘ اس سال بھی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ ڈیڑھ سے دو ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی جا سکتی ہے۔ پچھلے سال اڑھائی ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہو گا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ پچھلے سال گندم کی بڑی مقدار افغانستان سمگل کر دی گئی تھی جس کی وجہ کمزور بارڈر سکیورٹی اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کی ملی بھگت تھی۔ اس کے علاوہ وفاق گندم اور چینی کی پورے ملک میں یکساں قیمت متعین کرنے میں بھی ناکام رہا تھا۔ اس لیے مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
اس وقت حکومتی اقدامات بظاہر بہتر سمت میں جاتے محسوس ہو رہے ہیں لیکن اس پر صوبوں کے درمیان اتفاق ہونا بھی ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ اس اقدام سے وفاقی حکومت عوام کی نظر میں سرخرو ہونے کی کوشش کر رہی ہو۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے اس کی شدید مخالفت سامنے آ سکتی ہے۔ وفاقی حکومت عوام کے سامنے یہ مدعا رکھے گی کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح پورے ملک میں ایک قیمت ہو جائے لیکن پیپلز پارٹی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس آرڈیننس کے دو طرفہ فوائد ہیں؛ اگر حکومت اسے لاگو کروانے میں کامیاب ہو گئی تو سارا کریڈٹ خود لے جائے گی اور اگر پیپلز پارٹی نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو مہنگائی اور قلت کا سارا ملبہ پیپلز پارٹی کی قیادت پر ڈال کر حکومت اپنا دامن بچا لے گی اور پھر تقریروں میں سیاست ہو گی کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کی فلاح کے بارے میں سنجیدہ ہے لیکن صوبائی حکومتیں اس کو کام نہیں کرنے دے رہیں اور اس کے کام میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔