تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     20-03-2021

اصولی سیاست اور اقتدار کی سیاست

اقتدار کی سیاست‘ سو فیصد اصولی نہیں ہوسکتی‘ الا یہ کہ کسی کے لیے آسمان پر عہد باندھا گیاہو۔ تاریخ اس پر بارہا مہرِ تصدیق ثبت کرچکی۔ نادان ہیں وہ جوکسی سیاسی قیادت کے ہر فعل کودرست ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
جوکالم نگار اربابِ سیاست واقتدار کی بدعنوانیاں اور عیب گنوا گنوا کرانگلیاں گھسا چکے‘ اگر 40ھ میں کوفہ یا دمشق میں ہوتے تو کیا لکھتے؟ عباسیوں کے عہد میں اگر ٹی وی چینلز ہوتے تو بغداد میں بیٹھا اینکر کیا تبصرہ کرتا؟ یہ مفروضہ صورتحال کا بیان ہے۔ ورنہ بادشاہتوں میں اخبار اور ٹی وی نہیں ہوتے۔ اگر ہوتے ہیں تو ویسے ہی جیسے آج مشرقِ وسطیٰ میں ہیں۔
میکیاولی نے کیا کیا؟ انسانی تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ کامیاب حکمرانی کے اصول بتا دیے۔ اس نے جو بات کہی‘ اس کی تائید میں تاریخ سے دلیل پیش کی۔ اس نے اگراس سوال کو موضوع بنایاکہ بادشاہ کو رحم دل ہونا چاہیے یا ظالم تو اس کی بنیاد بھی تاریخی شواہد پر رکھی۔ میکیاولی کی کتاب 'دی پرنس‘ انسان کی سیاسی تاریخ کا ایک آئینہ ہے۔ واقعہ یہ ہے سولہویں صدی کے بعد بھی سیاست اسی طرح ہے جیسے اس سے پہلے تھی۔
تاریخ کی کتابوں سے بعض بادشاہوں کی نیک دلی کی کہانیاں نقل کی جاتی ہیں۔ ان میں اگرچہ اکثر افسانہ ہیں مگربہت سی سچ بھی مانی جاسکتی ہیں۔ یہ سب قصے حکمرانوں کی نجی زندگی سے متعلق ہیں۔ جہاں تک حکومت کا معاملہ ہے‘ اس میں ان کا رویہ واضح ہے جس میں کسی اخلاقی اصول کا بہت کم دخل ہے۔ جس نے جہاں کسی اخلاقی اصول کو قبول کیا‘ وہیں سے اس پروار ہوا اوراکثر وہ اس کی تاب نہ لاسکا۔ اس لیے سیاست میں یہ بات بالکل بے معنی ہے کہ فلاں ذاتی طور پر بڑا دیانتدار ہے۔
مسلم تاریخ میں‘ خلافتِ راشدہ کے بعد‘ مجھے معاویہ بن یزید کا رویہ سب سے اچھا لگا۔ یزید کے بعد جب وہ حکمران بنا تو اکیس سال کا تھا۔ کربلا جیسے حادثات اپنی آنکھوں سے دیکھے اوراقتدار کی حقیقت کو جان لیا۔ تین مہینے بعداقتدار سے دست بردار ہوا اورلوگوں کے سامنے ایک اہم تقریر کرکے رخصت ہوگیا۔ اس کا کہنا تھاکہ مجھ میں حکومت کا بوجھ اٹھانے کی ہمت نہیں۔ میں نے چاہاکہ کسی ابو بکرؓ جیسے کو جانشین بنا دوں یا عمرؓ کی طرح چھ افراد کا انتخاب کرکے‘ ان میں سے کسی ایک کا چناؤ شوریٰ کو سونپ دوں‘ مجھے نہ تو ابوبکرؓ جیسا کوئی ملا اور نہ چھ افراد ہی مل سکے‘ اس لیے میں دستبردار ہوتا ہوں‘ اب تم جسے چاہو اپنا حکمران بنالو۔
اقتدار کی سیاست میں آمیزش ہوتی ہے۔ کچھ خیر‘ کچھ شر۔ کبھی خیر غالب‘ کبھی شر۔ اکثر شر غالب رہتا ہے۔ ذاتی زندگی میں ٹوپیاں سی کر رزق کمانے کی شہرت رکھنے والا‘ اقتدار کے کھیل میں حقیقی رشتوں کے قتل جیسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ کوئی ایک ملک سے چلتا ہے اور جہاں جہاں اس کے قدم پڑتے ہیں زمین کو تاراج کرتا چلا جاتا ہے‘ جہاں گھر بھی ہیں اور معبد بھی۔ سوال یہ ہے کہ اقتدارکی سیاست ایسی کیوں ہے؟
یہ ایک مشکل سوال ہے۔ اقتدار اصلاً انسانوں کے ایک اجتماع کوکسی نظم کے تابع کرنا ہے۔ انسانوں میں ایک سے زیادہ گروہ ہوتے ہیں جن کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں۔ گروہی عصبیت فطری ہے۔ یہ کبھی نسل کی بنیاد پرپیدا ہوتی اور کبھی کسی فرقے اور مسلک کی بنیادپر۔ اب مختلف عصبیتوں میں وحدت پیدا کرنا اقتدارکی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے بغیر استحکام نہیں آسکتا۔
یہ وحدت کیسے پیدا ہو؟ سماج اور سیاست کے ماہرین نے بتایا ہے کہ اس کی ایک صورت ایک بڑی عصبیت کا ابھرنا ہے جوگروہی عصبیتوں پرغالب آجائے۔ انسان بیک وقت کئی عصبیتوں کے ساتھ جیتا ہے۔ لسانی‘ نسلی‘ مذہبی‘ مسلکی اور بہت سی دوسری۔ ہر عصبیت اسے کسی ایک گروہ کے ساتھ وابستہ کرتی ہے۔ اقتدارکی ضرورت ایک ایسی عصبیت ہے جو ریاست کی سطح پرہو اوران سماجی ومسلکی عصبیتوں پرغالب ہو۔
نیشنلزم یا قومیت کا تصور دراصل اسی ضرورت کے تحت پیدا ہوا۔ جب قومی ریاست وجود میں آئی توکسی ایسے نظریے کی ضرورت محسوس کی گئی جواس کے شہریوں میں وحدت پیدا کرسکے۔ یہ کام نیشنلزم نے کیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا میں 'نیشنلزم‘ کی جو تعریف کی گئی ہے‘ وہ اس مقصدکوواضح کرتی ہے۔ اس کے مطابق ''نیشنلزم ایک نظریہ ہے جو اس مقدمے پر قائم ہے کہ قومی ریاست کے ساتھ فرد کی وفاداری اور وابستگی‘ تمام انفرادی اور اجتماعی مفادات پر مقدم ہے‘‘۔
ایک قومی ریاست کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سب عصبیتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اسے جدید سیاسی لغت میں ریاستی اکائیاں کہتے ہیں۔ جیسے بطور ریاست پاکستان کی ضرورت ہے کہ وہ تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلے۔ اس کے لیے ہم نے یہ تقسیم کر رکھی ہے کہ ریاست کے اہم عہدوں پر سب صوبوں کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ یہ کوئی آئینی ضرورت نہیں لیکن سیاسی ضرورت بہرحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم اگر ایک صوبے کا ہو تو یہ سپیکر اور چیئرمین سینیٹ دوسرے صوبوں سے لیے جاتے ہیں۔
لبنان بھی اس کی ایک مثال ہے‘ وہاں مسلمانوں کے دو گروہ شیعہ اور سنی اور اس کے ساتھ مسیحی مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ وہاں اگر سب کو اقتدار میں حصہ نہ ملے تو ملک کو متحد نہیں رکھا جا سکتا؛ چنانچہ وہاں وزیراعظم‘ صدر اور سپیکر کے مناصب ان تینوں میں تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ یہ معاملہ میرٹ پر نہیں کیا جا سکتا۔ فرض کیجیے کہ پنجاب سے کوئی
ایسا رکن اسمبلی منتخب ہوکر نہیں آیا جو کسی ریاستی عہدے کا اہل ہوتو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس صوبے کو اقتدار میں شریک ہی نہ کیا جائے یا قومی اسمبلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کو نظر انداز کر کے‘ کسی دوسری جماعت کے رکن کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔
اگر کوئی ایک صوبہ نظر انداز ہوگا تو اس میں اضطراب پیدا ہوگا۔ ہم مشرقی پاکستان میں اس کا تجربہ کرچکے جب بنگالی عصبیت ابھر آئی اور اس کی قیادت شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ میں چلی گئی تو پھر ریاست کی وحدت کے لیے لازم تھا کہ اسے قبول کیا جاتا۔ اس وقت یہ سوال غیر اہم تھاکہ مجیب الرحمن اچھا ہے یا برا۔ ہم نے اس اصول کو نظر انداز کیا اور سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہوگیا۔ لبنان میں بھی اگر حکومت میں صرف مسلمانوں کی نمائندگی ہواور مسیحیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو لازم ہے کہ انتشار پیدا ہو گا۔ انہیں بہرصورت اقتدار میں شریک کرنا ہوگا ورنہ ریاست کی وحدت قائم نہیں رہ سکتی۔
میں نے صرف ایک پہلو کا ذکرکیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی سیاست میرٹ یااخلاقی اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ یہ زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔ ہمیں جو دیکھنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ موجود لوگوں میں بہتر کون ہے اور دوسرا یہ کہ کون سیاست کو بہتری کی طرف لا رہا ہے یا اس کا بیانیہ کیا ہے؟ جمہوریت میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اصلاح کے لیے مسلسل آمادہ رہتی ہے۔ یہ سیاست کو جمود کا شکار نہیں ہونے دیتی۔
سماج کو زیادہ سے زیادہ اخلاقی اصولوں کے تابع رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک اصلاحی تحریک ہمہ وقت برپا رہے۔ یہ معاشرے میں خیر کی تذکیر کرتی رہے۔ اقتدار کی سیاست سے دور ہونے کی وجہ سے‘ سماجی تحریک کو کوئی ایسی مجبوری درپیش نہیں ہوتی جو اصلاحی قدم اٹھانے میں مانع ہو۔ اس لیے میں نے تجویز پیش کی تھی کہ مسلم لیگ کو دونوں باتوں کے لیے الگ الگ فورم بنانے چاہئیں۔ یہ عملاً کیسے ہو سکتا ہے‘ ان شااللہ میں اگلے کالم میں اسے موضوع بناؤں گا۔ اس کالم کو اس موضوع پر تمہید سمجھا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved