وہ دن اور اس دن سے جُڑی تفصیلات گلزار کو ہمیشہ یاد رہیں گی۔ اُس روز ایک دوست کے توسط سے گلزار کی ملاقات بمل رائے سے ہوئی تھی۔ اُن دنوں بمل رائے فلم ''بندنی‘‘ بنا رہے تھے۔ گلزار کے دوست نے بمل رائے سے گلزار کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ شاعر ہیں اور فلم کے لیے گیت لکھ سکتے ہیں۔ اتفاق دیکھئے کہ بمل رائے کی زیرِ تکمیل فلم ''بندنی‘‘ میں صرف ایک گیت لکھا جانا باقی تھا۔ گیت کی دُھن پہلے سے تیار تھی لیکن بول ابھی لکھے جانے تھے۔ بمل رائے کی اجازت پا کر گلزار نے تیار شدہ دُھن پر بیٹھے بیٹھے اپنی زندگی کا پہلا گیت لکھا‘ جس کے بول تھے ''مورا گورا انگ لئی لے‘ موہے شام رنگ دئی دے‘‘۔ یہ فلم کی دنیا میں گلزار کا پہلا قدم تھا جو ایک طویل‘ دلچسپ اور کامیاب سفر کا آغاز تھا۔بمل رائے کی جہاں بین نگاہوں نے گلزار کے اندر کے تخلیقی جوہر کو پہچان لیا ۔ اسے پورا یقین تھا کہ گلزار کی جگہ موٹر ورکشاپ نہیں۔ بمل رائے نے گلزار کو بمل رائے پروڈکشن میں اپنے اسسٹنٹ کے طور پر کام کی پیشکش کی۔ اس ملاز مت میں گلزار کے لیے دلچسپی کا سامان تھا۔ اس پروڈکشن کے تحت ان کی پہلی فلم ''کابلی والا‘‘ تھی۔ ''کابلی والا‘‘ گلزار کے پسندیدہ لکھاری رابندرناتھ ٹیگور کی لکھی ہوئی کہانی تھی۔ وہی ٹیگور جس کی کتاب ''گارڈنر‘‘ نے گلزار کے شاعرانہ ذوق کو مہمیز دی تھی۔ بمل رائے کو گلزار کی صلاحیتوں پر اس قدر اعتماد تھا کہ ان کی اجازت سے سکرپٹ میں کچھ مقامات پر گلزار نے مکالموں میں تبدیلی بھی کی۔ یوں اس سفر کا باقاعدہ آغاز ہونے جا رہا تھاجس میں گلزار بطور ایک لکھاری کے متعارف ہو رہا تھا۔ فلمی دنیا میں اب اس کا آمنا سامنا اداکاروں ‘ موسیقاروں ‘ گلوکاروں اور دوسرے فنکاروں سے ہونے لگا۔دن معمول کے مطابق گزر رہے تھے کہ گلزار کی زندگی میں ایک اور موڑ آیا جب اس کی زندگی ایک خوش نما منظر سے آشنا ہوئی۔ ایک دن اچانک اس کی ملاقات بالی ووڈ کی ہردلعزیز اداکارہ مینا کماری سے ہوئی یہ فلم ''بے نظیر‘‘ کا سیٹ تھا جس میں مینا کماری کام کر رہی تھی اور گلزار بمل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ مینا کماری عمدہ شعری ذوق کی مالک تھیں اور خود بھی شعر کہتی تھیں۔ اس کی گواہی محترم شکیل عادل زادہ بھی دیتے ہیں جو اپنے ہندوستان کے دورے میں کچھ دن کمال امروہوی کے گھر رہے تھے۔ مینا کماری کی شادی کمال امروہوی سے ہو چکی تھی۔ شکیل عادل زادہ نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا کہ اس قیام کے دوران انہیں میناکماری کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ بتاتے ہیں کہ مینا کماری کی زندگی میں سب کچھ ہونے کے باوجود ایک اداسی تھی۔ ایک بے انت تنہائی۔ زندگی کے مصنوعی پن اور فلمستان کی چکا چوند روشنیوں میں شعر و ادب ہی اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ اگر مینا کماری باذوق تھی تو گلزار کی زندگی بھی شعر و سخن کی عکاس تھی۔ جب بھی موقع ملتا دونوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے اور پہروں باتیں کرتے۔ان ملاقاتوں میں گلزار کو اندازہ ہوا کہ گلیمرس مینا کماری اندر سے کس قدر شکستہ ہے‘بالکل گلزار کی طرح جس کے اندر تنہائی گھر کر چکی تھی۔ گلزار کی ماں اس کے بچپن میں انتقال کر گئی تھی۔ ماں کا چہرہ بھی اسے یاد نہیں تھا۔ پھر اپنے ہی خاندان میں اسے الگ تھلگ سمجھا گیا۔ گلزار کے اندر ایک گہری خاموشی تھی۔ ایک بے انت سناٹا اور ایک ایسا خلا جس کا کوئی کنارہ نہ تھا۔گلزار اور میناکماری میں قدرِ مشترک شعری ذوق تھا ۔ دونوں حساس طبیعت کے مالک تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کی محرومیوں سے آشنا تھے۔ مینا کماری شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر ایک موذی مرض کا شکار ہو گئی۔ اس کے پاس سب سے قیمتی متاع وہ نوٹ بکس تھیں جن میں وہ اپنی شاعری لکھ رہی تھی۔ دمِ آخریں وہ نوٹ بکس اس نے گلزار کے حوالے کر دیں۔ وہ جانتی تھی کہ ایک گلزار ہی تھا جو اس خزانے کی وقعت سے با خبر تھا اور اس کی حفاظت کر سکتا تھا۔ ادھربمل رائے کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد مقدر کی دیوی گلزار پر مہربان ہو رہی تھی لیکن گلزار کی فنی زندگی کا پہلا سنگِ میل اس وقت آیا جب اُسے فلم ''آنند‘‘ کے گیت لکھنے کی پیش کش ہوئی ۔ یہیں سے گلزار نے بطور نغمہ نگار خود کو منوایا۔اس کے بعد فلموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں گلزار نے اپنے گیتوں کے رنگ بھرے ۔نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ گلزار نے ہدایت کاری کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ فلم ''میرے اپنے‘‘ میں گیتوں کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔
''موسم ‘‘ اور ''آندھی ‘‘ کے بعد گلزار شہرت کے بلند ترین درجے پر پہنچ گیا۔ مجھے یاد ہے جب میں کینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کا طالب علم تھا‘ یہ نوے کی دہائی کی بات ہے۔ اسی دوران پاکستان کے نامور مصور اور لاہور کے معروف تعلیمی ادارے نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے سابق چیئرمین ظہور اخلاق صاحب اور ان کی بیگم شہرزادپاکستان سے ٹورنٹو شفٹ ہو گئے تھے۔ شہرزاد مٹی کے برتن (Pottery) بنانے کے فن میں مہارت رکھتی تھیں۔ دونوں میاں بیوی دلنواز شخصیتوں کے مالک تھے۔ ان کے گھر کبھی نہ کبھی کوئی تقریب ہوتی رہتی تھی۔ ایک روز ایسی ہی ایک تقریب تھی جس میں انڈیا سے بھی کچھ مہمان شامل تھے۔ اس محفل میں ایک خاتون بھی شریک تھیں جو گلزار کی نظموں کا انگریزی ترجمہ کر رہی تھیں۔ اسی محفل میں کسی نے حاضرین سے پوچھا: گلزار صاحب کی فلموں ''موسم‘‘ اور ''آندھی‘‘ میں کونسی فلم بہتر ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے آدھے لوگ ''موسم ‘‘ اور باقی ''آندھی ‘‘ کے دلدادہ نکلے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں آج تک یہ فیصلہ نہ کر سکا کیونکہ دونوں فلمیں مختلف موضوعات پر خوبصورت فلمیں ہیں۔ دونوں فلموں کے گیت اچھوتے اور نئی لفظیات کے اعتبار سے منفرد ہیں۔
گلزار اور بنگال کا بھی ایک دلچسپ رشتہ ہے ۔بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ گلزار جہلم کے قصبے دینہ میں ایک پنجابی سکھ گھرانے میں پیدا ہوا‘ اردو اور فارسی سے محبت کا رشتہ استوار کیا اور بنگالی زبان میں مہارت حاصل کی ۔ بنگال سے اول اول اس کا رشتہ تب استوار ہو ا جب گلزار نے رابندر ناتھ ٹیگور کے شہرِ سخن میں قدم رکھا۔ ٹیگور کے مطالعے نے گلزار کے اند ر کے شاعر ی کے جھرنے کو بیدار کر دیا تھا۔ ایک اور بنگالی کردار جس نے گلزار کی زندگی کا رُخ بدل دیا ‘ بمل رائے کا ہے جس نے گلزار کو موٹر ورکشاپ سے نکالا اور فلم کی دنیا سے متعارف کرایا جہاں نغمہ نگاری نے گلزار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ گلزار کی زندگی میں تیسرا بنگالی کردار اداکارہ راکھی کا تھا‘ جس سے گلزار کی ملاقات ایک فلم کے دوران ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پسند کر لیا۔ یوں 1973ء میں ان کی شادی ہو گئی ۔ اس شادی سے ان کی ایک بیٹی ہوئی۔ گلزار نے اس کا نام بوسکی رکھا۔بوسکی ایک کپڑے کا نام ہے جو اپنی نرمی‘ ملائمت اور نفاست سے پہچانا جاتا ہے ۔شاید اس کے پسِ منظر میں گلزار کا اپنا تجربہ شامل ہو جب وہ دہلی میں سکول سے آنے کے بعد اپنے والد کی کپڑوں کی دکان میں کام کرتا تھا اور کپڑوں کے لمس سے بخوبی آگاہ تھا۔ گلزار‘ راکھی اور بوسکی ایک خوب صورت تکون کی مانندتھے۔ ایک گھر میں تین ملکوں کی ثقافتیں یکجا ہو گئی تھیں۔ گلزار جو پاکستان کے قصبے دینہ میں پیدا ہوا ‘ راکھی جس کا تعلق موجودہ بنگلہ دیش سے تھا اور بوسکی جو بھارت میں پیدا ہوئی تھی۔ زندگی کے سنہری ساحل پر دن ہنسی خوشی دن گزر رہے تھے۔ انہیں یوں لگتا تھا یہ خواب جیسا منظر کبھی ختم نہ ہو گا۔ انہیں کیا خبر تھی کہ آزمائش کا ایک تندو تیز ریلا ان کے تعاقب میں آ رہا ہے جو ان کی زندگی کا سکون اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔ (جاری)