تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     20-03-2021

عورت مارچ کی گونج!

پچھلے چند دنوں سے قومی منظرنامے پہ عورت مارچ کے غیر روایتی نعروں کی گونج نے ایسی ناگوار جدلیات کو انگیخت دی، جس نے ہمارے سماجی وتمدنی رویوں کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ اب اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت کے باعث مغربی کلچر نے ہماری منجمد تہذیب اورگداز سماجی شعور پہ ناقابلِ فراموش اثرات مرتب کئے ہیں بلکہ مغربی تمدن کی ظاہری چکاچوند ہماری نوجوان نسل کے تجسّس اورخواتین کی تلون مزاجی کیلئے زیادہ پُرکشش واقع ہوئی ہے ، چنانچہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران یہاں کی گھریلو زندگی کے روز و شب میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ باورچی خانوں میں استعمال ہونے والے برقی آلات اور روزمرہ استعمال کے برتنوں سے لے کر مکانات کی تعمیر، کمروں کی تزئین و آرائش، نت نئے ہیرکٹ فیشن، لباس کی کتربیونت، خواتین کے میک اپ اور یورپ سے درآمد کردہ سامانِ تعش کے بہتات نے جہاں ہماری بود وباش کو بدل دیا وہیں اِس تغیر نے یہاں کے تصورِ حیات اورمعاشرے کی تشکیل کے حوالے سے قائم روایتی نظریات میں بھی دراڑیں ڈال دیں۔ اسی پیش دستی کی بدولت ہر روایت متزلزل ہو گئی، ہر رسم ٹوٹنے لگی اور ہزاروں واہموں(Myths) نے ہمارے سماجی شعور پہ اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ گویا ہنگامی طور پہ ماضی نے حال پر سے اپنی گرفت نرم کر کے ہمیں نئے رجحانات کے سپردکر دیا۔ اس وقت ہماری سوسائٹی عالمی تمدن کے زیر اثر ایک قسم کے فطری ارتقا کے اُن ٹرانزیشنل مراحل سے گزر رہی ہے، جنہیں ہم میں سے ایک گروہ جدیدیت اور روشن خیالی اور دوسرے اباحیت اور فکری گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ پچھلے چار سالوں سے عورت مارچ کا انعقاد اسی کشمکش کی علامت بن چکا ہے؛ چنانچہ ہر سال عورت مارچ کے نعرے اور بینرز کشیدگی بڑھا دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کے مطالبات کوئی یاوہ گوئی نہیں جنہیں پائے حقارت سے ٹھکرا دیا جائے بلکہ ان کی پکار عہدِ کہن کی تکمیل اور عہدِ نو کی شروعات کی گونج بن کے ابھر رہی ہے، اس لئے عورتوں کے مطالبات کو غور سے سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل مرد اور عورت کے تعلق کا سوال ہے تاکہ اس تعلق کی اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق ازسر نو تفہیم کی جا سکے کیونکہ مستقبل قریب میں یہی کشمکش یہاں ایک نئے کلچر کی تشکیل کا زینہ بننے والی ہے۔ ہمیں عورتوں کو سمجھنے اور ان کے مسائل کو سلجھانے کی راہ نکالنا پڑے گی بصورتِ دیگر ہماراخاندانی نظام بکھر جائے گا۔ اِس وقت ہمیں اپنے مسائل کی تفہیم کیلئے ہیگل کے اُن جدلیاتی اصولوںکا سہارا لینا پڑے گا جنہوں نے مغرب کے صنعتی معاشروں میں اصلاحات لانے کیلئے کارل مارکس کی مدد کی تھی۔ بلاشبہ ہر پھلتے پھولتے تمدن میں ایک مرحلہ ایسا ضرور آتا ہے جب پرانے رجحانات اور عادتیں نئے حالات پہ قابو پانے کیلئے ناکافی ثابت ہوتی ہیں، ایسے میں شدید ترین سماجی تضادات ہی ازخود معاشرے کے اجتماعی دھارے کو ریگولیٹ کرنے کے وسائل مہیا کرتے ہیں۔ ہیگل نے درست کہا تھا کہ اجتماعِ ضدین ہی سے ایک پیچیدہ تر کلیت پیدا ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بجائے خود بھی پیچیدگیوں کا مرقع اور ایسا کمپلیکس نظام ہے جسے ریگولیٹ کرنے کی خاطر معاشرہ تشکیل پایا اور سماج کو منظم رکھنے کی خاطر ریاست جیسا سیاسی ادارہ تخلیق ہوا، جس میں ایک متنوع سیاسی عمل ہمہ وقت معاشرے کو منظم رکھنے کیلئے محو خرام رہتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی اشرافیہ وہ مربوط زاویۂ نگاہ کھو بیٹھی ہے جس سے سماج کو ریگولیٹ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
آغازِ مدنیت سے لے کر ہمارے زمانے تک‘ عورت کی حیثیت کے حوالے سے ''مردانہ سوچ‘‘ ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہی ہے، ہر عہد کے مردوں نے اپنے رجحانات کے مطابق مختلف انداز میں عورت کے مقام و مرتبے کی تفہیم ضروری سمجھی لیکن زندگی کے اس طویل سفر میں انسان اپنی جنگوں اور سائنسی ترقی کے مظاہر میں الجھ کر یہ بھول گیا کہ زندگی کی اساس حقیقت، سیاست یا صنعت پہ نہیں بلکہ انسانی تعلق پہ رکھی ہوئی ہے۔ بالخصوص مرد و عورت کا رشتہ یعنی زندگی‘ ماں اور بچے کے مابین تعلق کے گرد طواف کرتی ہے۔ انسانوں میں شادی کا ادارہ محبت کی تقدیس کیلئے قائم نہیں کیا گیا بلکہ بچے کی نگہداشت اور تربیت کی خاطر مرد اور عورت کو مستقل رشتہ ازدواج میں مربوط کیا گیا تاکہ زندگی اپنی نوعیت کے اعتبار سے خوب تر بن سکے۔ یہ سچ ہے کہ ہر عورت اپنے بچے کو شوہر سے زیادہ پیار کرتی ہے‘ اجڈ مائیں بھی برسوں تک اپنے بچے کو گود میں اٹھائے پھرتی ہیں، افریقہ کے بعض قبائل میں کچھ مائیں اپنے بچے کی موت پر خودکشی کر لیتی ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شادی مرد اور عورت کی تسکین کو قانونی جواز دینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو والدین اور بچے کے رشتے پہ استوار ہے اور اس کا مقصد نسلِ انسانی کو قائم رکھنا ہے۔
حیاتیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ اجناس جو اپنے بچوں کی نگہداشت نہیں کر پاتیں‘ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی تمدن کی اساس رکھنے میں عورت کا کردار زیادہ اہم رہا ہے۔ انسان کے ابتدائی ایام میں جب مرد شکار کیلئے نکل جاتے تھے تو یہ عورت ہی تھی جس نے سب سے پہلے کھیتی باڑی کی ابتدا کر کے انسانی زندگی کو زمین سے وابستہ کیا اور پھر زمین سے خوراک پیدا کرنے کی اسی کوشش نے انسانی گروہوں کو مستقل قیام کی راہ دکھائی جس سے ایک متمدن معاشرے کی صورت گری ممکن ہوئی۔ انسانی معاشرے کا بنیادی یونٹ خاندان ہے جس کا پورا فلسفہ مرد وعورت کے تعلق کے گرد گھومتا ہے، عورت جب ماں، بیٹی، بہن اور بیوی بن کے گھر کی ملکہ بنی تو ہمارے حسب نسب اور سماجی مراتب کی گداز قدریں متشکل ہونے لگیں اورپھر اِسی معاشرتی ترتیب کی کوکھ سے ضمیر، غیرت، عزت اور خاندانی نجابت جیسی اخلاقی اقدار تخلیق ہوتی چلی گئیں۔ بعض پہلوئوں سے یہ خاندانی نظام ریاست سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ریاست مصنوعی ہے اور خاندان وہ فطری اکائی ہے جس پہ معاشرہ استوار رہتا ہے؛ چنانچہ خاندانی نظام کی بقا کی خاطر مرد و زن کے تعلق میں توازن قائم رکھنا ناگزیر ہے۔ اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو یورپ میں صنعتی انقلاب نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے جنہوں نے خواتین سے گھریلو زندگی کے تمام مشاغل چھین لئے تھے، عورتوں کی صنعت زدگی کا لازمی نتیجہ گھریلو زندگی کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔ جوں جوں مشینوں کا سیلاب امڈا اور صنعت کے نئے طریقوں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی پیدا کی‘ کارخانوں نے گھریلو دستکاریوں کو ختم کر کے عورتوں سے وہ تمام گھریلو دلچسپیاں چھین لیں جو انہیں گھر کے آنگن سے منسلک رکھتی تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے قدیم فرائض سے محروم ہوتی چلی گئیں، جس سے گھر کی فضا بے کیف اور عورت بیکار و غیر مطمئن ہو کر رہ گئی، اسی افسردہ کن ماحول میں وہاں روشن خیالی کی تحریکات نے آزادیٔ نسواں کے ایسے مہمل تصور کی آبیاری کی جس نے مرد و عورت کے تعلق کو بگاڑ کر وہاں کے خاندانی نظام کو اجاڑ ڈالا جس کے نتیجے میں سماج کے تمام کلاسیکی تصورات برباد ہو گئے۔ جن معاشروں میں خاندانی نظام مٹ جاتا ہے وہاں حسب و نسب سے وابستہ نجابت بھی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے اور انسانی رشتے محبت و اخوت کے بجائے فقط باہمی احتیاج پہ قائم رہ جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے سماج میں ابھی خاندانی نظام مربوط اور حسب و نسب سے جڑی قدریں پوری شدت سے کارفرما ہیں، اس لئے یہاں علم و فن اور سیاست و کاروبار میں موروثیت فطری حیثیت کی حامل نظر آتی ہے۔مغرب میں مرد و عورت کے تعلق میں دانستہ پیدا کئے جانے والے بگاڑ نے ایک پرشکوہ تہذیب کو اجاڑ کے رکھ دیا، لہٰذا یورپ کی بانجھ اقدار اور دم توڑتی معاشرت ہماری آئیڈیل نہیں بننی چاہئے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے خوشحال گھرانوں کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ گھر اب کوئی ایسی جگہ نہیں رہی جہاں وہ کوئی کام یا اطمینان سے زندگی بسر کر سکے۔ہرچند کہ ہمارے معاشرے میں تاحال عورتوں کی اکثریت خانہ داری اور گھریلو دستکاریوں سے منسلک ہے، اس لئے معاشرے کے بڑے حصے میں خاندانی نظام فعال اور مضبوط ہے لیکن اگر عورت اور مرد کے تعلق کو دانشمندی سے ریگولیٹ کرنے کے بجائے ان فطری مسائل کو تشدد اور فتووں سے دبانے کی کوشش کی گئی تو یورپ کی طرح یہاں بھی خاندانی نظام بگڑ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved