تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-03-2021

خواتین دو راہے پر؟

جن تبدیلیوں کو ہم غیر معمولی سمجھ کر اُن کے زیرِ اثر اپنے آپ کو بھی کسی نہ کسی حد تک بدل رہے ہیں وہ سطحی یعنی اُتھلے پانیوں جیسی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں مرد و زن کے لیے جو تبدیلیاں مثبت اثرات کی حامل ٹھہرتی ہیں وہ خال خال دکھائی دے رہی ہیں۔ کم و بیش تمام فطری علوم و فنون کے حوالے سے غیر معمولی بلکہ عقل کو ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والی پیشرفت نے معاشروں کو کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ ہر طرف تبدیلیوں کا بازار گرم ہے مگر اس حقیقت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کا بنیادی ڈھانچہ کہاں تک بدلا ہے، اقدار کے حوالے سے کیا پیشرفت ہوئی ہے، سوچ کہاں تک بہتر ہوئی ہے، مختلف معاملات میں منصوبہ سازی کے حوالے سے ہمیں کتنی تحریک مل رہی ہے۔ فطری علوم و فنون میں فقید المثال پیشرفت نے صلاحیت و سکت کے اظہار کے مواقع بخشے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ آج کوئی بھی طبع آزمائی کرسکتا ہے۔ مرد و زن دونوں ہی کے لیے صلاحیت کے اظہار کے پلیٹ فارم بھی ہیں اور مواقع بھی۔ کل تک دنیا صرف مردوں کی تھی۔ آج ایسا نہیں ہے! خواتین اپنے آپ کو مختلف حوالوں سے خوب منواسکتی ہیں، اور منوا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہر انسان کو صلاحیت کے اظہار کا موقع فراہم کر رہے ہیں مگر اِس کے باوجود مجموعی طور پر نمایاں بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ جس جگہ کوئی حقیقی تبدیلی آنی چاہیے وہاں کچھ نہیں ہو رہا۔ ہر غیر متعلق مقام پر دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔ مرد و زن‘ دونوں ہی سوشل میڈیا کے سمندر میں غوطے کھارہے ہیں، معلومات کی بھرمار ہے، ہم ''اوور انفارمیشن‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ زندگی کو بدلنے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ بھی ہمیں میسر ہے مگر دوسرا بہت کچھ بھی زندگی میں در آیا ہے جو ہمارے انہماک کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں خواتین کے لیے پنپنے کی گنجائش کتنی ہے اور وہ گھر اور معاشرے کے لیے کون کون سے کردار ادا کرسکتی ہیں‘ یہ دونوں معاملات خاصے توجہ طلب ہیں۔ اُن کی الجھن بھی عجیب ہے۔ وہ دو راہے پر کھڑی سوچ رہی ہیں کہ کس طرف جائیں اور کچھ عاقبت نا اندیش ہیں کہ اُنہیں راہ سے بھٹکا رہے ہیں۔خواتین سے متعلق ہمارے معاشرے کی عمومی سوچ اب تک تبدیل نہیں ہوئی۔ گھر سنبھالنے والی خواتین کے لیے بھی اب تک حقیقی احترام یقینی نہیں بنایا جاسکا۔ ایسے میں سوچئے کہ اُن خواتین کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا جو گھر سے نکل کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور کیریئر کو پروان چڑھانے کے لیے کچھ کرنے کا سوچتی ہیں۔ ایسی خواتین کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ کارپوریٹ کلچر میں خواتین کے لیے کسی حد تک قبولیت موجود ہے، وگرنہ عام، چھوٹے موٹے اداروں کا یہ حال ہے کہ خواتین کو چند روایتی نوکریوں تک محدود تصور کیا جاتا ہے اور اگر وہ کسی نمایاں شعبے میں کلیدی حیثیت سے کچھ کرنے کا سوچیں تو اوّل تو قبولیت دکھائی نہیں دیتی اور اگر اُنہیں قبول کر بھی لیا جائے تو موافق ماحول نہیں دیا جاتا۔
گھریلو ذمہ داریاں اپنی جگہ مگر معاشرہ اُس منزل کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں بیشتر خواتینِ خانہ کو بھی ایسا معاشی کردار ادا کرنا پڑے گا جس سے گھر چلانے میں آسانی ہو۔ اس وقت چند ہی شعبے ہیں جن میں خواتین کچھ کر پاتی ہیں، آسانی سے آگے بڑھ پاتی ہیں۔ ٹیچنگ اور عام دفتری نوکریوں کے علاوہ فیکٹریوں میں کام کرنے کی گنجائش موجود ہے مگر کسی خاص شعبے میں کچھ کر دکھانے کا ذہن بناتے ہوئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام گھرانے خواتین کے معاشی کردار سے متعلق اب بھی سنجیدہ نہیں۔ گھر کی ذمہ داریاں بھی اہم ہیں اور خواتین یہ ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ بچوں کی موزوں تربیت ایسا مرحلہ جس سے کامیاب گزرے بغیر معاشرے کی مجموعی بہبود کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بچے ہی تو آنے والی نسلیں ہیں۔ ان نسلوں کی بہتر تیاری خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ اُن کی سنجیدگی اور بُرد باری قوموں کا نصیب بدل دیتی ہے۔ ہمارے ہاں خواتینِ خانہ اپنے اس کردار سے کماحقہٗ واقف نہیں اور جو ہیں وہ زیادہ سنجیدہ نہیں۔
خواتین کا وجود تشفی چاہتا ہے۔ اگر کسی خاتون میں کوئی خصوصی صلاحیت پائی جائے تو لازم ہے کہ اُسے وہ صلاحیت بروئے کار لانے کی گنجائش دی جائے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب خواتین کو برابر کا درجہ دیا جائے۔ یہ سب کچھ گراس روٹ لیول پر شروع کیا جانا ضروری ہے۔ میڈیا کے ذریعے کچھ کہنے سے دال نہیں گلے گی۔ تقریبات کا انعقاد اور تقریریں بھی مفید ہیں مگر حقیقی فرق اُس وقت پڑے گا جب خواتین کو گھر کی چار دیواری میں بھی احترام نصیب ہوگا اور گھر سے باہر بھی لوگ اُنہیں احترام کے ساتھ فطری صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے دیں گے۔ کئی شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین کو آگے بڑھنے کا موقع ملے تو وہ قوم کی گراں قدر خدمت انجام دے سکتی ہیں۔ تدریس اگرچہ روایتی شعبہ ہے مگر اِس میں بھی خواتین کو بہتر مواقع ملنے چاہئیں۔ اِسی طور جدید علوم و فنون پر مبنی شعبے بھی خواتین کے لیے غیر معمولی ثابت ہوسکتے ہیں۔
آج کی عام پاکستانی خاتون کو سب سے بڑھ کر قبولیت کی تلاش ہے۔ باپ، بھائی اور اولاد کی طرف سے بھی اُسے کیریئر کے حوالے سے گرین سگنل ملنا چاہیے۔ بعض شعبوں میں خواتین کے لیے زیادہ احترام نہیں۔ اگر پولیس فورس میں خواتین کو احترام کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے تو اِسے خاصی مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یہ سب کچھ اُس وقت ممکن ہے جب مین سٹریم بالخصوص سوشل میڈیا پر خواتین کے حوالے سے اہانت آمیز رویے کی بیخ کُنی ممکن ہو۔ ہمارے ہاں اب تک خواتین کے حوالے سے انتہائی دقیانوسی تصورات پائے جاتے ہیں۔ یہ تصورات ہی اُن کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ گھر سے معاشرے تک خواتین کا کردار غیر معمولی ہے۔ بچوں کی تربیت میں اُن کا کردار مردوں کے کردار سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ گھر کی فضا کو بہتر، علم پرور اور دینی اعتبار سے مثالی بنانے میں بھی خواتین ہی اہم ہیں۔ مرد کا عمومی کردار کمانے کی حد تک ہے۔ خواتین کو نمائشی آئٹم کے طور پر پیش کرنے کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ عورت سے گلیمر کا تصور بھی وابستہ ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ع
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
یہ بات بالکل درست ہے مگر معاملات کو صرف رنگ اور چمک دمک تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ خواتین کو اپنے لیے بہت سوچنا ہے۔ وہ اپنے وجود کو محدود کرنے پر تل جائیں تو کوئی کیا کرے؟ بعض ڈراموں کے ذریعے بھی خواتین کو انتہائی منفی رنگ میں پیش کیا جارہا ہے‘ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کو اس بات پر بھی شدید احتجاج کرنا چاہیے۔ گھر کو خواتین کی ایک بنیادی ذمہ داری کا درجہ حاصل ہے مگر اُن کے لیے قدرت نے اور بھی بہت کچھ رکھا ہے۔ لازم ہے کہ وہ اپنے بارے میں منفی تاثر پیدا کرنے والی ہر بات کے خلاف بھی ڈٹ جائیں۔ اُنہیں خود یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کوئی کٹھ پتلی یا محض نمائش کی چیز نہیں بلکہ معاشرے کی بنیادی ساخت کا اہم ترین حصہ ہیں۔ اِس کے لیے لازم ہے کہ خواتین گلیمر کے تصور سے چمٹ کر نہ رہ جائیں بلکہ سنجیدگی اپنائیں اور ایسے شعبوں کو بھی اپنائیں جو چیلنجنگ ہوں۔آج پاکستانی خواتین دو راہے پر ہیں یعنی اُنہیں درست فیصلہ کرکے نیا سفر شروع کرنا ہے۔ کچھ لوگ بظاہر کسی ایجنڈے کے تحت خواتین کو چوراہے پر رکھنا چاہتے ہیں۔ چوراہے کے مقابلے میں دو راہے پر ہونا بہرحال غنیمت ہے کیونکہ ایسی حالت میں وہ دو میں سے ایک راہ منتخب کرکے نیا سفر شروع کرسکتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved