تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     21-03-2021

اقتدار برائے اقتدار

اپوزیشن کی دس جماعتوں کا اتحاد ''پی ڈی ایم‘‘ اِس وقت داخلی بحران میں مبتلا ہے۔ ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کو حیران کر دینے والی سرگرمیوں کے بعد اسے اختلاجِ قلب کی شکایت لاحق ہو گئی ہے، دو دلی نے اسے نڈھال کر رکھا ہے؎
مصائب اور تھے پر دِل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
حریف شادیانے بجا رہے ہیں۔ اپنے آپ کو اور اپنے حلقۂ حمایت کو اطمینان دِلا رہے ہیں کہ پی ڈی ایم اِس دُنیا سے رخصت ہو چکی۔ اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ اب مٹی کا ٹیلہ ہے بلکہ ڈھیلہ ہے، اس لیے چھاتی پُھلائو، بڑھکیں لگائو، دندنائو، اور اپنی مرضی چلانے میں مزید شیر ہو جائو، کوئی روک ٹوک نہیں ہے، راستے میں کوئی گڑھا کھودنے والا ہے، نہ ہی سپیڈ بریکر بن جانے والا، فراٹے بھرو اور ڈنکے بجائو، جو ''نقشِ کہن‘‘ نظر آئے، اسے مٹائو، اور اپنے آپ سے داد پائو... پی ڈی ایم بے چاری دبکی بیٹھی ہے، اپنے ہی ہاتھوں اس کی درگت بن چکی۔ اس کے بجائے کہ وہ کامیابیاں سمیٹنے کے لیے سرگرم ہوتی۔ سینیٹ کے چیئرمین کا الیکشن پوری طاقت کے ساتھ عدالت میں چیلنج کرتی، اور اپنے مسترد شدہ ووٹوں کو گنوا کر ہاری ہوئی بازی جیتنے کا سامان کرتی۔ ڈسکہ ضمنی انتخاب میں انتظامی کارستانیوں کا تذکرہ دہراتی، اور ببانگِ دہل بتاتی، سپریم کورٹ میں جمع تفصیلات اور الیکشن کمیشن کے تاثرات کو پوری دُنیا تک پہنچاتی، اور ''شفاف چہرے‘‘ کے داغ گنواتی، اور پھر پوری قوت سے میدان میں اتر کر نشست جیت کر دکھاتی، وہ بھول بھلیوں میں کھو گئی۔ 26 مارچ کا مجوزہ لانگ مارچ ملتوی کرنا پڑا کہ اسے اسمبلیوں سے استعفوں کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی اس مرحلے پر اپنا گھر لٹانے کو تیار نہیں تھی، اس نے اگر مگر کے ساتھ معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، جو مزید الجھ گیا، اور حضرت مولانا فضل الرحمن غصے کے عالم میں پریس کانفرنس سے خطاب کیے بغیر چلے گئے۔ مولانا کا اصرار ہے کہ نو جماعتیں استعفوں پر متفق ہیں، اس لیے دسویں جماعت بھی ''جمہوری‘‘ ہو کر دکھائے، اپنے ایک ووٹ سے دستبردار ہو کر دوسروں کے ہم آواز ہو جائے۔ مولانا، مسلم لیگ (ن) اور ان کے ہم نوائوں کے جذبات قابلِ قدر ہیں۔ ان کے استدلال کا اپنا وزن ہے، استعفوں کے بعد ماحول کو گرمانے میں آسانی ہو سکتی ہے، اور وہ ڈیڈ لاک پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے۔ حکومت زچ ہو سکتی ہے۔ گھوڑے کی پیٹھ سے کھسک سکتی ہے، لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو پائے، اور استعفے ضمنی انتخابات کا راستہ ہموار کر دیں۔ ان کا انعقاد کر گزرا جائے، اور بازی یکسر الٹ جائے۔ پیپلز پارٹی اور اس کے زرداری رہنما کے دِل میں جو کچھ بھی ہو، زبان پر جو ہے، اس کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
حالات جو بھی ہوں جذبات جو بھی ہوں، خدشات جو بھی ہوں، کمالات جو بھی ہوں، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ متحدہ محاذ جب بنائے جاتے ہیں تو ان میں کسی ایک جماعت کی لگام کسی دوسری جماعت کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ ہر ایک کی ترجیحات اپنی ہو سکتی ہیں، مفادات اپنے ہو سکتے ہیں، لیکن اکٹھے سفر کرنے کا فیصلہ اِس لیے نہیں کیا جاتا کہ دوسروں کی رضا میں اپنی رضا مدغم کر ڈالی جائے۔ مشترکہ پلیٹ فارم کا مقصد یہ ہوتا ہے کچھ ایسا حاصل کرنا ہے، جو اکیلے اکیلے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے مل کر زور لگانا ہو گا اور سب کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ آ جائے گا۔ پی ڈی ایم کی حکمت عملی جو بھی ہو، اگر اسے اتفاق رائے سے طے نہیں کیا جائے گا، اور الگ الگ راستوں پر چلنے کی تیاری کی جائے گی، تو پھر وہ کچھ تو حاصل نہیں ہو سکے گا، جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا تھا۔ اگر پی ڈی ایم کی نو جماعتیں استعفے دینے کا فیصلہ کر لیتی ہیں (کسی کے پاس تو ایک نشست بھی نہیں اور کسی کے پاس، ایک، دو یا تین ہیں) تو پھر نئے انتخابات کا مطالبہ منوانے کے لیے مطلوب ڈیڈ لاک کیسے پیدا ہو گا؟ پی ڈی ایم کی جماعتیں جس طرح بھی الجھیں یا سلجھیں، یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے اتحادیوں کا اپنا وجود ہے، وہ نہ تو خلا سے آئے ہیں، نہ خلا میں رہتے ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کو بھی اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے حریف ناتواں نہیں ہیں۔ وہ اپنا ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ ان کے حامیوںکی بھاری تعداد ان کی پالیسیوں سے نالاں ہے، اور غم و غصے سے بھری ہوئی ہے۔ جمہوریت حزبِ اقتدار کا انکار کرکے چل سکتی ہے، نہ حزبِ اختلاف کا انکار کرکے۔ دونوں کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، ایک دوسرے کو جینے کا حق دینا پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک ووٹ کی اکثریت بھی حکومت سازی کا حق دِلا سکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مخالف دوسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں، اور ان کی مشکیں جس طرح بھی چاہے، کسی جا سکتی ہیں۔ حزبِ اختلاف ''متبادل حکومت‘‘ ہوتی ہے۔ جس طرح تین برس پہلے کی اپوزیشن آج کی حکومت ہے، اسی طرح آج کی اپوزیشن آئندہ اقتدار کی مالک ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ایک ریاست کے طور پر مشکل حالات کا سامنا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور بجٹ خسارے نے جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ ہر طبقہ پریشان ہے اور نعرہ زن ہے۔ حالات کو ہوائوں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ دھینگا مشتی اور افراتفری مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے، کمی نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن کے لانگ مارچ کے التوا سے سکون کا سانس لینے کا جو موقع ملا ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ بامقصد اور بامعنی مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے پیش قدمی کریں۔ اپوزیشن کی اپوزیشن بنے رہنے کے بجائے مدبر سیاست دان بن کر دکھائیں۔ انتقامی کارروائیوں کی بھرمار اور مقدمات کی بوچھاڑ سے نہ ماضی میں حریفوں کو چت کیا جا سکا ہے، نہ اب کیا جا سکے گا۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کا مقابلہ میدان میں کرتے، اور ووٹ کی پرچی سے ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے ہیں۔ ان کے پاس برچھی ہے، نہ ہونی چاہیے۔ اس لیے پرچی کی طاقت پر اعتماد بحال کیجیے، اس کے لیے مطلوب اقدامات پر اتفاق کیجیے، اقتدار برائے اقتدار سے کچھ حاصل ہو گا، نہ اختلاف برائے اختلاف سے۔ اپنی ذات کے عشق میں مبتلا ہونے والوں کی رسوائیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ کوئی ایک صفحہ ہی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔
ڈاکٹر شہریار کو دلی صدمہ
پاکستان کے انتہائی ممتاز ماہر قلب ڈاکٹر شہریار شیخ کے جواں سال اکلوتے صاحبزادے ڈاکٹر مبین احمد شیخ امریکہ میں سمندر میں ڈوب گئے۔ انکے بیٹے کو بھی لہروں نے لپیٹ میں لے لیا تھا، لیکن اُسے بچا لیا گیا۔ ڈاکٹر مبین بھی ماہر امراضِ قلب تھے اور دو عشروں سے امریکہ میں مقیم تھے۔ تعطیلات منانے دوستوںکے گروپ کے ہمراہ ساحلِ سمندر پر پہنچے تھے کہ فرشتۂ اجل نے آن لیا۔ ڈاکٹر شہریار پاکستان میں امراضِ قلب کے ان معالجوں میں ہیں جنہوں نے درجنوں ڈاکٹروں کی تربیت کی ہے، اور امراضِ قلب کے علاج کو عام کیا ہے۔ انہوں نے یقینا ہزاروں افراد کے دِل کے معاملات کو سنبھالا ہے اور ان کے دِل میں ہمیشہ کیلئے جگہ بنائی ہے۔ وہ ہمارے انتہائی نیک نام اور خدا ترس معالجوں میں نمایاں ہیں۔ انکے دِل کو جو چرکہ لگا ہے، اس پر صبر کے سوا چارہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اور ڈاکٹر صاحب کے دِل کو سکون عطا فرمائے کہ یہ دُنیا عرصۂ امتحان ہے، جہاں سے ہم سب کو رخصت ہونا، اور اپنے رب کے حضور پیش ہو جانا ہے۔
واصف علی واصفؒ ہمیشہ ایسے مواقع پر یاد آتے ہیں کہ: غم کیا ہے؟ اپنی مرضی اور خدا کی مرضی کے درمیان فرق کا نام غم ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved