تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-03-2021

وزیر اعلیٰ کا حلقہ پٹوار

میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ آخر یہ جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: بس یوں سمجھیں کہ معاملہ وینٹی لیٹر پر ہے‘ سانس آ رہا ہے، دل دھڑک رہا ہے، نبض چل رہی ہے مگر عملی طور پر اس میں زندگی کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔ اسے آپ یوں کہہ لیں کہ نہ زندوں میں ہے اور نہ مردوں میں۔ ناک سے مکھی نہیں اڑا سکتا مگر تکنیکی زبان میں Clinically alive ہے۔ اپنے ملتان اور بہاولپور والے سب سیکرٹریٹ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ سانس لے رہا ہے، نبض چل رہی ہے، دل دھڑک رہا ہے لیکن اپنی ناک سے مکھی نہیں اڑا سکتا‘ کسی سائل کا کام نہیں کر سکتا، کسی کو آسانی فراہم نہیں کر سکتا، کسی کی مشکل حل نہیں کر سکتا۔ افسر موجود ہیں، تنخواہ وصول کر رہے ہیں، ایک گریڈ ترقی اور خصوصی الائونس لے رہے ہیں، افسری کے مزے بھی کر رہے ہیں لیکن کام نہیں کر رہے‘ بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں انہیں کام کرنے کی نہ اجازت ہے اور نہ اختیار۔
شاہ جی کہنے لگے: میں تو پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ یہ جنوبی پنجاب والوں کو گولی دی جا رہی ہے اور علیحدہ انتظامی صوبے کی تشکیل کے بجائے پہلے تو جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ پنجاب بنا کر تسلی کا چورن دیا گیا‘ پھر جنوبی پنجاب کے سب سیکرٹریٹ کا شوشہ چھوڑ کر ہمیں کلچہ لگانے کی کوشش کی گئی‘ اور اب صورتحال یہ ہے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کون سا کام کس نے کرنا ہے؟ کہاں کرنا ہے اور کس کے پاس جانا ہے؟ پہلے پہلے تو یہاں تعینات ہونے والے افسروں کو سیکرٹری کا عہدہ تفویض کیا گیا‘ اب ان تمام سیکرٹریز کو بااختیار کرنے کے بجائے عملی طور پر تنزلی کرکے انہیں سیکرٹری سے سپیشل سیکرٹری بنا دیا ہے۔ ملتان اور بہاولپور کے اس سب سیکرٹریٹ کے مدارالمہام یعنی ایڈیشنل چیف سیکرٹری جتنا عرصہ بھی یہاں رہے ان کا کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ ہوتے کہاں ہیں؟ ملتان والے سمجھتے تھے کہ وہ بہاولپور بیٹھے ہیں اور بہاولپور والے اس گمان میں ہوتے تھے کہ موصوف ملتان میں عوام الناس کے مسائل حل کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہوتی تھی کہ وہ لاہور ہوتے تھے۔ شکر الحمدللہ، اب یہ کنفیوژن دور ہو گیا ہے اور اس بے عملی کی صورتحال سے تنگ آ کر جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ کے افسر اعلیٰ ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان یہاں سے اپنا باقاعدہ تبادلہ کروا کر تشریف لے جا چکے ہیں۔ انہیں ایڈیشنل سیکرٹری کینٹ ڈویژن تعینات کیا گیا ہے لیکن کسی نے ملتان میں ان کی جگہ پر کوئی نیا آفیسر بھیجنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اب یہ لولا لنگڑا اور اپاہج قسم کا سب سیکرٹریٹ گزشتہ دو ہفتوں سے اپنے سربراہ کے بغیر ہے؛ تاہم نہایت ہی اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس تبادلے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا، ان کے ہوتے ہوئے بھی کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔
ہم جنوبی پنجاب والے اگر اپنی بے بسی، بے کسی، کسمپرسی اور پسماندگی پر روتے ہیں تو آرپار والے لوگ ہنستے ہیں کہ شاید اس خطے کے لوگوں کو مسلسل رونے کی عادت ہے، لیکن کوئی غور نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ ہم علیحدہ صوبے کا مطالبہ محض شوقیہ نہیں کرتے، اس کے پیچھے محرومیاں ہیں، پسماندگی ہے اور مسلسل نظر انداز کیا جانا ہے۔ علیحدہ صوبے کا مطالبہ کوئی لسانی یا علاقائی نہیں بلکہ سیدھا سیدھا انتظامی معاملہ ہے۔ یہ یہاں کے باسیوں کا مطالبہ ہے اور اس کا ثبوت انہوں نے صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کے وعدے پر پی ٹی آئی کو اس خطے سے کامیاب کرکے دے دیا تھا۔ الیکشن 2018 سے قبل تحریک انصاف کے امیدواروں نے اس علاقے کے ووٹروں سے علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور یہ ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان تین ڈویژن تھے جہاں سے اکثریت لینے کے طفیل پی ٹی آئی پنجاب میں اپنی حکومت بنا سکی وگرنہ وسطی اور بالائی پنجاب میں تو مجموعی طور پر مسلم لیگ ن کو عددی برتری حاصل تھی۔
میں نے کہا: شاہ جی! آخر یہ مسئلہ کیا ہے؟ لوگ اسمبلی میں جاتے ہی اپنے وعدے بھول کیوں جاتے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: وعدے ووٹ لینے کے لیے کیے جاتے ہیں نہ کہ پورا کرنے کے لیے۔ رہ گئی بات صوبہ جنوبی پنجاب والی، تو برادرِ عزیز! یہ سارا مسئلہ حلقہ پٹوار والا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: شاہ جی! صوبے کی بات میں یہ حلقہ پٹوار کہاں سے آ گیا؟ شاہ جی حسب معمول مسکرائے اور کہنے لگے: اس ملک میں کوئی پٹواری بھی آسانی سے یہ قبول نہیں کرتا کہ اس کے حلقہ پٹوار کو چھوٹا کر دیا جائے یا اس کا حلقہ پٹوار تقسیم کر دیا جائے یہ تو پورے صوبے کا معاملہ ہے۔ اب بھلا آپ خود بتائو کون سا وزیراعلیٰ چاہے گا کہ اس کی عملداری کی حدود جو ضلع اٹک کے قصبے جھاری کس سے لے کر تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان کے قصبے کوٹ سبزل تک ہے‘ مختصر کر دی جائے؟ کون سا وزیر یہ چاہے گا کہ اس کی وزارت کا اختیار پنجاب کے دو لاکھ پانچ ہزار مربع کلومیٹر سے سکڑ کر آدھا رہ جائے؟ کون سا چیف سیکرٹری چاہے گا کہ اس کے حکم کی عملداری پنجاب کے آٹھ ڈویژنز سے کم ہوکر پانچ ڈویژنز تک محدود ہو جائے؟ یہ جو پورا پنجاب ہے ناں! یہ ہمارے وزیراعلیٰ کا حلقہ پٹوار ہے، یہ صوبائی وزرا کا حلقہ پٹوار ہے اور یہ ہماری صوبائی بیوروکریسی کا حلقہ پٹوار ہے۔
جب الیکشن ہوتا ہے تو تب تونسہ شریف جناب عثمان بزدار کا حلقہ پٹوار ہوتا ہے اور وہ وہاں وعدے بھی کرتے ہیں اور لارے بھی لگاتے ہیں۔ جونہی وہ وزیراعلیٰ پنجاب بنتے ہیں انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کا اصل حلقہ پٹوار تو پورا پنجاب ہے۔ وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ ان کا یہ حلقہ پٹوار مختصر ہو جائے اور وہ لاہور سے ملتان شفٹ ہو جائیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب بھلا کیوں راضی ہوگا کہ اس کے حلقہ پٹوار سے بارہ اضلاع اور تین ڈویژن نکل جائیں؟ اگر وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار صوبہ جنوبی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ جائیں تو بھلا ان کو نیا ہوائی جہاز کون خریدنے دے گا؟ وہ نئے نکور جہاز کے ہونٹے کیسے لیں گے؟ آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں۔
میں نے کہا: لیکن شاہ جی! اگلے الیکشن میں کیا بنے گا؟ شاہ جی زور سے ہنسے اور کہنے لگے: اگلی بار کوئی دوسرا اسی کارڈ کو اسی طرح چالاکی سے کھیلے گا اور آپ لوگ پھر اسی طرح بیوقوف بنیں گے جیسے اس بار بنے ہیں۔ تخت لاہور پر چودھری پرویز الٰہی بیٹھے ہوں تو انہیں جنوبی پنجاب نامی علیحدہ صوبے کا خیال نہیں آتا۔ جب فارغ ہوتے ہیں تو پھر بڑی شدت سے انہیں اس صوبے کا خیال آتا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی حکومت کی ساری مدت کے دوران صوبہ جنوبی پنجاب کے بارے میں سوئی رہتی ہے جونہی وقتِ آخر آتا ہے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ میاں شہباز شریف سے کیسا گلہ؟ وہ تو تخت لاہور کو راجہ رنجیت سنگھ کی طرح انجوائے کر رہے تھے‘ بھلا وہ اپنے حلقہ پٹوار کو کیوں کم کرتے؟ میاں شہباز شریف کو چھوڑیں، ادھر تو یہ عالم ہے سابقہ تحصیل ناظم تونسہ ٹرائیبل جناب عثمان بزدار کو تخت لاہور پر بیٹھنے کا محیرالعقول موقع مل گیا ہے تو وہ صوبہ تقسیم کرنا تو رہا ایک طرف تین سال میں سب سیکرٹری کی گولی بھی پوری طرح ہضم نہیں کر پائے اور عالم یہ ہے کہ مورخہ چھ مارچ سے یہ سب سیکرٹریٹ اپنے سربراہ سے محروم ہے۔ محکمے اپنے مکمل سیکرٹری سے محروم ہو چکے ہیں۔ بہاولپور میں قائم سات محکموں میں سے فنانس، ایس این جی اے ڈی، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ دوبارہ لاہور جا چکے ہیں۔ ملتان میں قائم محکموں میں سے ہوم اور قانون کے محکمے بھی لاہور واپس بھجوا دیئے گئے ہیں۔ باقی والوں کا یہ حال ہے کہ کوئی حال نہیں۔ مسئلہ وہی حلقہ پٹوار کا ہے۔ پٹواری سے چیف سیکرٹری اور لاہور میں بیٹھے ہوئے سیکشن افسر سے وزیر اعلیٰ تک‘ سارے کے سارے اپنے حلقہ پٹوار سے ایک مرلہ کم کرنے پر تیار نہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا حلقہ پٹوار پورے چھتیس اضلاع پر مشتمل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved