پہلا سوال یہ نہیں تھا کہ سفرنامہ کہاں کا لکھا جائے۔ یہ بھی نہیں کہ کیا لکھا جائے اور کس طرح لکھا جائے؟
پہلا سوال یہ تھا کہ لکھا بھی جائے یا نہیں؟
اور یہ بہت ہی کٹیلا سوال تھا، ایک تو اس لیے کہ درست جواب کا مطلب تھا کہ سفرنامے کے ارادے کا گلا گھونٹ کر مار دیا جائے‘ لیکن اس سوال کی اصل دھاردار نوکیں اس سے آگے تھیں‘ اس لیے کہ اس کے اندر بھی بہت سے چپ کرا دینے والے سوالات چھپے ہوئے تھے۔ اس کی طرف توجہ کرنے کی دیر تھی کہ ڈھیر سارے سوال شور مچاتے باہر نکل آئے۔ اس طرح کہ اصل سوال ہی پیچھے رہ گیا۔
ایک نے پلو پکڑ کر پوچھا ''کیا کوئی نیا جزیرہ نکل آیا ہے کسی سمندر سے، جہاں کوئی نہیں گیا‘ صرف تم گئے ہو‘ اس لیے اس کا احوال لکھنا ضروری ہے؟‘‘۔
دوسرے نے اپنا تمسخرانہ انداز چھپانے کی بالکل کوشش نہیں کی ''صاحب! آپ نے ان ملکوں، ان شہروں میں جا کر کوئی ایسا تیر تو ضرور مارا ہو گا جس سے بنی نوع انسان کو آگاہ کرنا ضروری ہو۔ لکھیے ضرور لکھیے‘‘۔
''اور یہ جو اتنے ڈھیر سارے لوگوں نے اتنے ڈھیر سارے کمال کے سفرنامے لکھ ڈالے ہیں جن میں کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا‘ تو آپ کیا نرالا لکھنے کا سوچ رہے ہیں؟ دوسری زبانیں چھوڑئیے حضرت! اردو کے چند کمال سفرنامے ہی پڑھ لیتے تا کہ یہ خواہش پیدا ہی نہ ہوتی‘‘۔ تیسرے نے کہا اور اس بات میں کم علمی کا طعنہ بھی کچوکے دے رہا تھا۔
ایک اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ''سفر نامے کے ضروری لوازمات ہیں آپ کے پاس؟ ملتفت حسینائیں؟ ملتے ہی مر مٹنے کے لیے تیار نازنینیں؟ معاشقے؟ مے خانے؟ بالا خانے؟ بہترین کھانے بنا کر بہ اصرار مدعو کرنے والیاں؟ جھیلوں، دریاؤں، ساحلوں کی سیر کرانے والے؟ مفتوحہ اور ممنوعہ علاقے؟ دو تین چیزوں کی گنجائش رکھ بھی لیں تو آخر باقی میں سے کیا ہے آپ کے پلے؟‘‘
''تو سفر نامہ لکھنا چاہتے ہیں آپ؟ کیا ہر اس جگہ کا، جہاں قدم رنجہ فرمایا ہے آپ نے؟ یا کوئی انتخاب کر لیا ہے جگہوں کا؟ کچھ کا ذکر کرنے اور کچھ کو چھوڑنے کا معیار آخر ہے کیا؟پاکستان، ہندوستان، ترکی، ایران، یو کے، امریکہ، سیام۔ ان کے انتخاب کی کوئی خاص وجہ؟ افغانستان، آسٹریلیا، یورپ وغیرہ۔ وہ کہاں ہیں؟ حج اور عمروں کے سفر سے گزرے۔ اتنے عرب ملکوں میں بار بار جانا ہوا۔ دو بار موت کے منہ میں جاتے جاتے بچے۔ بس اللہ نے کرم کر دیا۔ اب اس کا بدلہ یہ دے رہے ہیں کہ ان کا ذکر تک نہیں؟ کوئی تو وجہ ہونی چاہیے سفرنامہ نگار صاحب!‘‘۔ کوئی زور سے بولا‘ طنز کی کاٹ پورے جملے میں تھی لیکن آخری حصہ تو خنجر جیسا تھا۔
شور بڑھتا گیا۔ ایک اور بولا ''حضور! ناگفتنی تو کیا گفتنی بھی سب نہیں لکھ سکتے آپ؟ آخر سب کو منہ دکھانا ہوتا ہے‘ لیکن پھر بتانے کے لیے بچتا کیا ہے۔ یہ سوچا ہے آپ نے؟ شاعری کی بات الگ ہے۔ وہاں قابل سرزنش باتوں پر بھی داد مل جاتی ہے۔ یہاں کیا کریں گے؟‘‘
وہ ہنگامہ ہوا، وہ دھمال پڑی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ان سب کو علم تھا کہ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھ رہا۔ ان کی آوازیں اونچی اور اونچی ہوتی گئیں۔ شور مچتا رہا اور یہ شور یک طرفہ تھا۔
لیکن ایک شور میرے اندر بھی مچا ہوا تھا‘ اور وہ بھی یک طرفہ تھا۔ کچھ کھنڈر، کچھ قلعے، کچھ محل تلواریں سونت کر سامنے آ کھڑے ہوئے تھے۔ کچھ سمندر، کچھ دریا، کچھ جھیلیں سینے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر کف اڑاتے تھے۔ کچھ ہرے میدان، کچھ زرد صحرا، کچھ براق پہاڑ ناراض چہروں سے تکتے تھے۔ کچھ بستیاں، کچھ شہر، کچھ پہاڑی قصبے، جلوس نکال کر دل کی گلیوں میں پھرتے تھے۔ یہ سب وہ تھے جنہوں نے مجھے پیار دیا تھا، وقت دیا تھا اور لفظ دئیے تھے۔ پیار، وقت اور لفظ لوٹانے کے دن آئے تھے تو میں الجھن کا شکار ہو گیا تھا۔ ان کا گلہ درست تھا۔ امانتیں لوٹانے میں بھی بھلا کبھی تذبذب کیا جاتا ہے؟۔
پھر کوئی ہمزاد سا آگے بڑھا۔ میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور بھاری لیکن دھیمی آواز میں بولا ''یہ باتیں تو ہر ایک کے ساتھ ہمیشہ ہوتی ہیں۔ یہ سوال تو اس وقت بھی شور مچاتے تھے جب تم نے شاعری کی پہلی کتاب چھاپی تھی۔ اس وقت کون سا تسلی بخش جواب تھا تمہارے پاس؟ کسی کی مت سنو، بس دل کی سنو، وہ کیا کہتا ہے۔ یا ان چند لوگوں کی بات سنو جن کی بات دل کو لگتی ہے‘‘۔
اس کی بات میرے دل کو لگ گئی، سو میں اس ہجوم سے بات کیے بغیر، جواب دئیے بغیر نکلا۔ جو منظر گزر چکے تھے انہیں آواز دے کر بلایا۔ دیکھے ہوئے کو ایک بار پھر دیکھا۔ نئی اور برسوں پہلے کی سنی ہوئی، الجھی ہوئی آوازوں کی ڈوریں الگ الگ کیں۔ اجنبی لوگوں اور بستیوں کے خد و خال کو چند سال یا بیس پچیس سال پیچھے جا کر شناسا چہروں سے جوڑا۔ پرانی آنکھوں سے نیا نظارہ کیا۔ آنکھوں کے لکھے لفظ کاغذ پر منتقل کیے۔ ان اوراق کا نام مسافر رکھا۔
یہ سفر ایک سمت کا نہیں تھا۔ سیاحت تو سفر کا محض ایک رخ تھا۔ اصل سفر تو اس کے اندر جا کر شروع ہوتا تھا۔ وہ جو دیکھنے میں ایک محل تھا، اس کے اندر محلات در محلات تھے۔ تاریخ، جغرافیہ، تہذیب، تمدن، زبان، ادب، ثقافت۔ اور ان سب سے بڑا ایوان دل کا جہان۔ ان دنیاؤں کو کوئی پورا دیکھ سکا ہے جو میں دیکھ پاتا، لیکن یہ ہے کہ ان میں صرف جھانک آنا بھی کتنوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اس مختصر زندگی نے اگر یہ گنجائش بھی دے دی تو شکر اور شکریہ دونوں واجب ہیں۔
اور جب مسافر لکھ لیا گیا تو ایک اور سوال پیدا ہو گیا۔ میری اور ہم زاد کی تائید کون کرے گا؟ کیا وہ قلم اس کی پذیرائی کریں گے جن پر ایک زمانے کو اعتماد ہے۔ کیا وہ ذہن اسے سراہیں گے جن کا سراہنا زمانے کے لیے معنی رکھتا ہے؟ جھجک اور تذبذب اب اور طرح کا تھا لیکن وہ جو کہا تھا نا خواجہ آتش نے۔ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔ سو کچھ مسافر نوازوں نے کرم فرمایا۔ عم مکرم مفتی محمد تقی عثمانی، جن سے عمر بھر رہنمائی حاصل کرتا آیا ہوں، نے بھرپور شاباش دی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے با کمال نے وقت عنایت کیا اور محبت بھرے لفظ رقم کیے۔ نثر کی کتاب، خاص طور پر سفرنامے کے لیے مستنصر حسین تارڑ سے بہتر نام کون سا ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بیش قیمت لفظ لکھے۔ صحافت اور ادب کو یک جان کر دینے والے ہارون الرشید صاحب نے اس طرح تھپکی دی کہ قلم تازہ دم ہو گیا۔ ان مشاہیر کے لیے شکریے کا لفظ بہت چھوٹا بھی ہے اور رسمی بھی۔ ان کے لکھے ہوئے کی ٹھیک قدر تو میں اور میرا ہم زاد ہی جانتا ہے۔
لیکن وہ جو پُر شور سوال مجھ میں بھنور ڈال کر مجھے چکراتے ہیں۔ ان کے جواب اب بھی میرے پاس نہیں ہیں اور مجھے خود معلوم نہیں تو آپ کو کیا بتاؤں۔ میں تو بس مسافر کو جانتا ہوں اور اس کے مزاج کو۔ کہیں پڑاؤ ڈالتا اور کہیں سے محض گزرتا ہوا۔ کہیں بات کرتا اور کہیں چپ رہتا ہوا۔ میرے بس میں کیا ہے۔ مزاج بھی اس کا اور مرضی بھی اس کی۔ میرے پاس تو صرف اس کی باتیں ہیں۔ میرے پاس تو بس یہ سفرنامہ مسافر ہے جو آپ کے سپرد ہے۔ یہی آپ کو کچھ بتائے تو بتائے۔ آپ کو پتا چلے تو مجھے بھی بتا دیجیے گا۔