تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-03-2021

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

حکمرانوں کو عوامی مشکلات کا احساس نہیں: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کو عوامی مشکلات کا احساس نہیں ہے‘‘ اور ہماری مشکلات کا تو بالکل نہیں ہے جو نہ صرف عوامی نہیں ہیں بلکہ عوام سے بھی بدتر ہو چکے ہیں، اوپر سے پی ڈی ایم کی مصیبت ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے جس نے چلا چلا کر اور پھرا پھرا کر الگ ہماری مت مار رکھی ہے جبکہ تقسیم در تقسیم ہو کر اس کی صورتحال مزید مضحکہ خیز ہو چکی ہے علاوہ ازیں مولانا صاحب ہمارا خرچہ بھی کرا رہے ہیں اور حاصل وصول بھی کچھ نہیں ہو رہا۔ آپ اگلے روز مسلم لیگ واہ کینٹ کے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
نواز شریف نے گھر ٹھیک کرنے کا بیان
دیا تو غدار قرار پائے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے گھر ٹھیک کرنے کا بیان دیا تو غدار قرار پائے‘‘ حالانکہ حکومت نے اپنی روایتی نا اہلی سے کام لیتے ہوئے اس سے صرفِ نظر کیا، آخر ایسی حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کیا حق حاصل ہے جو غداری سے در گزر کرے اور خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو اسی حماقت کے ارتکاب پر گھر چلے جانا چاہیے کیونکہ ہم‘ ہمارے اور ہمارے حربے ناکام ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
میری تبدیلی کی باتیں بے بنیاد ہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''میری تبدیلی کی باتیں بے بنیاد ہیں‘‘ اس لیے وزارتِ علیا کے سبھی امیدوار خاطر جمع رکھیں کیونکہ میں وہی کچھ کر رہا ہوں جس کام کے لیے مجھے لایا اور لگایا گیا تھا، بلکہ میں جو کچھ نہیں کر رہا ہوں وہ بھی میرے کام ہی کا حصہ ہے، اگرچہ میری کارکردگی کی وجہ سے نواز لیگ کو پنجاب کی حد تک مطمئن رہنا چاہیے جس کے لیے ساری زمین ہموار ہو رہی ہے اور اخلاقی طور پرانہیں اس حق کو تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ میں خود بھی نواز لیگ میں رہا ہوں اور پرانا تعلق بھی آخر کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت اور مختلف نمائندوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی، ہم بھی
بلا وجہ نہیں چھیڑیں گے: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی، ہم بھی بلا وجہ نہیں چھیڑیں گے‘‘ تاہم وجوہات بھی آئے روز پیدا ہوتی ہی رہتی ہیں یعنی بقول شاعر ع
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذرِ مستی ایک دن
اور یہ کون نہیں جانتا کہ اقتدار کی مستی کم بخت ایسی چیز ہے کہ چھیڑ چھاڑ پر اُکساتی رہتی ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل کو یہ لوگ نواز لیگ کے ساتھ مل کر پھر ہمارا جینا حرام کر دیں، اس لیے ہم انہیں چھیڑنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، البتہ اس چھیڑ چھاڑ کے درجات بدلتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
ایوانوں میں لڑنا ہے تو پی ڈی ایم کیوں بنائی؟ فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ایوانوں میں لڑنا ہے تو پی ڈی ایم کیوں بنائی؟‘‘ جبکہ خاکسار تو کسی ایوان میں ہے ہی نہیں اور نہ ہی آئندہ کسی ایوان میں پہنچنے کی امید ہے کیونکہ اس کم بخت تحریک نے میری ساری سیاسی ساکھ ہی کا خاتمہ کر کے رکھ دیا ہے اور مذاق کا ہدف بن کر رہ گیا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایک گھنائونی سازش تھی جو میرے خلاف بروئے کار لائی گئی اور مجھے اس کا سربراہ بنا دیا گیا تا کہ اس کی ناکامی کا سہرا بھی میرے ہی سر بندھے اور اب ان بکھری ہوئی ٹولیوں کو اکٹھا رکھنے کی ذمہ داری بھی میرے ناتواں کندھوں پر ہے جو روز بروز مزید ناتواں ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آپ کی سیاست ٹھیک نہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے حمزہ شہباز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ ''آپ کی سیاست ٹھیک نہیں‘‘ کیونکہ اگر میں جو سیاست کر رہی ہوں تو آپ کو اس تکلف میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ میری قربانیاں بھی آپ سے زیادہ ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ میرا باپ لندن میں پھنسا ہواہے اور آپ کے والد صاحب یہاں پھرتے ہیں اور صورتحال کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے پیچھا چھڑانے کی خاطر خود جیل چلے گئے ہیں اور اس طرح میرے وزیراعظم بننے کے بعد آپ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کا اپنا چانس بھی ضائع کر رہے ہیں۔ آپ حکمت عملی طے کرنے کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہی تھیں۔
آخر میں ابرار احمد کی یہ خوبصورت نظم
تم کہاں تک گئے
اپنے قدموں کے نیچے
پھسلتے ہوئے راستوں، فاصلوں
سے اُلجھتے ہوئے
آنکھ کی سرحدوں پہ درختوں کے جھنڈ۔۔۔۔۔
غیر آبادیوں، وادیوں سے پرے
دھند کے نرم ہاتھوں میں ٹھٹھرے
ہوئے آسماں سے پرے
تُم کہاں تک گئے؟
خواہشوں سے پرے
نیلی پیلی رگوں کی گرہ کاٹ کر
بھوک سے، پیاس سے
آنسوئوں سے پرے؟
لحظہ لحظہ بدلتی ہوئی
رُت کی بوچھاڑ میں بھیگ کر
جسم کی ذلتوں، خواب کی لذتوں
ریشمی نیند، بیمار بیداریوں سے پرے
دن کے میلے پسینے کو ماتھے سے
دھوتے ہوئے
تُم کہاں تک گئے؟
خواب کی نرم ساعت، تمہارے لیے
وقت کے سارے تیور حزیں،مضمحل
''نیند کی مار کھاتے ہوئے‘‘
اس حصار زمان و مکاں کی حدوں تک
تو ہم بھی گئے
تُم کہاں تک گئے؟؟؟
آج کامطلع
آسماں چاہتے ہیں اور نہ زمیں چاہتے ہیں
خوش رہیں ، آپ سے ہم کچھ بھی نہیں چاہتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved