تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-03-2021

شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

وطنِ عزیز میں دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی کسی کی گاڑی دوسری گاڑی سے ہلکی سی بھی ٹکراجائے تو اگلے ہی لمحے دونوں گاڑیوں کے دروازے دھک سے کھلتے ہیں اور پھر بازو تانے اور نتھنے پھیلائے ایک دوسرے کے گھروں میں بیٹھی ہوئی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو مغلظات سنانا شروع کر دی جاتی ہیں‘ جنہیں سن کر کوئی بھی شریف آدمی کانوں میں انگلیاں دبائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گالیاں بکتے اورایک دوسرے کو للکارے مارتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ غلطی کیوں اور کیسے ہوئی اور اس کے نتیجے میں کسی کا کچھ نقصان ہوا بھی یا نہیں۔اس قسم کے کیسز میں ا کثر یہ ہوتا ہے کہ جب گالیاں بکنے اور للکارے مارنے کے بعد بلند فشار خون قدرے دھیما پڑتا ہے اور گاڑی پر نظر ڈالی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ نقصان تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس طرح دونوں فریق دوران راہ گالیوں اور للکارے مارنے کے اس مختصر وقفے اور رواں دواں ٹریفک کو کچھ دیر مشکلات سے دوچار کرنے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ لوگ آپے سے باہر ہونے میں آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ‘بچوں‘ بزرگوں اور خواتین کا حیا اب پرانی بات ہو چکی ہے۔گالی گلو چ سے بڑھ کر ہاتھا پائی اور مار کٹائی کی نوبت آتے دیر نہیں لگتی اور یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس قسم کی حرکات کا روایتی تعلیم سے کوئی تعلق ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سماج میں معزز سمجھے جانے والے پیشوں سے منسلک افراد کی جانب سے بھی اس سینہ زوری اور بد اخلاقی کے واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ لاہور شہر کی ایک مرکزی شاہراہ پر ایک پیشہ ورانہ تنظیم کے کچھ افراد احتجاج کررہے تھے‘ سکولوں سے چھٹی کا وقت ہوا تو ایک صاحب موٹر سائیکل پراپنے بچوں کو سکول سے لے کر جارہے تھے تو اس گروہ نے انہیں روکا اور سکول جاتے بچوں کے سامنے ان صاحب کی پٹائی کر دی۔ انسانی نفسیات کو سمجھنے والے اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ایسے غیر متوقع حملے اور ناخوشگوار واقعات کا اثر انسانی دماغ پر تا دیر باقی رہتا ہے۔ان بچوں کو ان کے باپ پر کئے گئے اس تشدد کے نفسیاتی اثر سے نکلنے میں نجانے کتنا وقت لگے۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں ‘ روزانہ ہزاروں ‘ شاید لاکھوں واقعات ایسے ہوتے ہیں‘ اور اس طرح ہم اپنی نئی نسل کو مستقل عدم تحفظ کا شکار بنا رہے ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ اس نفسیاتی دباؤ میں پلنے والی نسل نفسیاتی طور پر خود بھی اسی قسم کے رویوں کی مالک بن سکتی ہے۔ ایسی صورت میں آنے والے برسوں میں ہمارے سماج کی نفسیاتی صورت کیا ہو گی اس کا اندازہ کرنا شاید مشکل نہ ہو۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ نہ تو ہم میں مثالی انسانیت باقی رہی ہے اور نہ ہی شرفِ آدمیت۔ ٹکراؤ اور اتاولا پن صرف سڑکوں پر نظر نہیں آتا بلکہ دفاتر کے اندر اور بظاہر قاعدے ضابطے کے پابند اداروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ سائل کے لیے سہولت پیدا کرنے کی بجائے معاملات کو لٹکائے رکھنے‘ مو شگافیاں اور رکاوٹیں ہمارے دفتری نظام کی روایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک معمولی نوعیت کے جائز کام کے لیے بھی لوگوں کو ہفتو ں ‘ بعض صورتوں میں مہینوں لگ جاتے ہیں اور اسی رویے اور روایت کی وجہ سے بدعنوانی اور سفارش کا کلچر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔
آج جسے ہم ترقی یافتہ دنیا کہتے ہیں‘ وہ محض مشینوں کی وجہ سے ترقی یافتہ نہیں بن گئی بلکہ انسانی رویوں اور نظام کی وجہ سے وہ اس مرتبے پر فائز ہیں کہ ہم دانتوں میں انگلیاں دبائے انہیں دیکھتے ہیں۔ کچھ سال ہوئے کہ ایک دوست کے ہمراہ لندن برج پر کھڑا دریائے ٹیمز کا نظارہ کر رہا تھا کہ یکدم دو کاروں کے آپس میں ٹکرانے کی دھک کی آواز نے چونکا دیا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ لندن برج کے وسط میں ایک گاڑی کے ڈرائیورنے اچانک بریک لگادی تو پیچھے سے آنے والی ایک تیز رفتار کار اس کی گاڑی سے ٹکرا گئی‘ جس سے دونوں کاروں کو نقصان پہنچا۔ پاکستان میں اس قسم کے حادثات یا واقعات پر جو کچھ ہوتا ہے اس کا تصور کرتے ہوئے میں نے اپنے دوست کو جلدی سے وہاں پہنچنے کا کہا لیکن اس کا جواب ہی کچھ ایسا تھا کہ مجھے یقین ہی نہ آ یا کہ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے‘لیکن اپنی تسلی کیلئے اور اس ٹکر سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے میں کچھ قریب چلا گیا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کوئی بھی وہاں رک نہیں رہا تھا اور پُل سے گزرنے والی ٹریفک میں بھی کسی قسم کا خلل پیدا واقع نہیں ہو ا۔ پیدل چلتے لوگ بھی اپنے دھیان میں فٹ پاتھ پر آ جا رہے تھے‘ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں اور میں چونکہ ان پر نظریں جمائے ہوئے تھا اوریہ دیکھنا چاہتا تھا کہ دونوں گاڑیوں کے ڈرائیوروں کا ردعمل کیسا ہوتا ہے‘لیکن میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور آرام سے اپنی اپنی گاڑی سے نکلے اور دونوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے‘ خیر خیریت پوچھی‘ چونکہ قانون کے مطا بق پچھلی گاڑی والا قصور وار تھا اس لئے اس نے اگلی گاڑی والے سے معذرت کی اور آپس میں معاملہ طے کر کے دونوں نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے ہاتھ ملائے اور اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے ۔
یہ تمام قصہ چار منٹ میں بخوبی طے ہو گیا ‘لیکن میں حیران تھا کہ میرے ملک میں اگر یہ صورت پیش آئی ہوتی تو بات کس قدر طول کھینچ جاتی‘ پہلے دونوں گاڑیوں والے آپس میں الجھتے‘ جھگڑتے‘ راہگیروں کا مجمع لگ جاتا‘ دو طرفہ ٹریفک رک جاتی‘ سینکڑوں کا ہجوم بیچ بچاؤ کرانے اور ایک دوسرے کی ذمہ داری کا تعین کرنے کا فریضہ بلا وجہ ادا کر رہا ہوتا ۔کوئی بھی اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا حوصلہ نہ کرتا بلکہ دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے پر زور ِبیان صرف کررہا ہوتا‘ کچھ دیر میں پولیس وہاں پہنچ جاتی‘ دونوں کو تھانے جانا پڑتا ‘اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کیونکہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہمارے ہاں تھانے جانا اور آنا مدعی اور ملزم‘ دونوں کو بھاری پڑتا ہے۔
ہمارے ارد گرد ایک ایسی دنیا آباد ہے جو فاقے کرتی رہتی ہے‘گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہے‘ لیکن اپنی تنگ دامانی کو کسی پر ظاہر نہیں کرتی‘ جھولی نہیں پھیلاتی‘ سوال نہیں کرتی‘ کسی سے کچھ مانگتی نہیں‘ ایک نظر اِدھر بھی۔ ایک چک میں رہنے والی تین چھوٹے بچوں کی ایک بیوہ ماں کے تمام بہن بھائی لاکھوں میں کھیلتے ہیں لیکن سوائے ایک بہن کے کوئی بھی اس کے منہ میں نوالہ تک نہیں ڈالتا اور اس کی تمام بہنیں اور بھائی جن میں تین چار کروڑپتی ہیں بھولے سے اسے پانچ دس ہزار ماہانہ دینے کا نہیں سوچتے ۔ ان میں سے کئی بظاہر بڑے پرہیز گار ہیں لیکن لگتا ہے کہ وہ اسلام کی ان تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر ہیں جن کا تعلق صلہ رحمی سے ہے۔ دین اسلام میں صلہ رحمی کی بڑی تاکید کی گئی ہے ‘ یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کئے جائیں‘ آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہیں‘ دکھ‘ درد‘ خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلیں‘ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھیں‘ ایک دوسرے کے ہاں آئیں جائیں۔ الغرض اپنے رشتے کو اچھی طرح سے نبھائیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں‘ ان پر احسان کریں‘ ان پر صدقہ و خیرات کریں‘ اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کریں اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھیں۔
کچھ لوگ صدقہ خیرات یا مدد کرنے کے بعد اس کا احسان جتانا چاہتے ہیں بہت سے ایسے لوگ جن کا اوپر ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں ہر آسائش دیکھی ہوتی ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ان کی مدد کرنے والے لوگوں کو بتاتے پھریں کہ ہم نے اس بے چاروں کی مدد کی ہے‘ انہیں آٹا دیا ہے یا چاول گھی دے کر آئے ہیں یا ان کا ماہانہ وظیفہ لگا رکھا ہے۔ یہ لوگ شاید یہ فرمان بھول جاتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے دیتے ہوئے بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلنے دیں۔ انہی سفید پوش‘ عزت دار اور کل تک اچھے دن دیکھنے والوں کے متعلق اﷲ فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں‘ انہیں کے لیے اپنے رب کے ہاں ثواب ہے اوران پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔یہ بھی فرمان ہے کہ صدقہ جب اپنے مالک کے ہاتھ سے نکلتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں فانی شے تھا تم نے مجھے بقا دے دی‘میں تمہارا دشمن تھا تو نے مجھے دوست بنا لیا‘ کل تک تو میری حفاظت کرتا تھا آج سے میں تمہاری حفاظت کروں گا‘میں حقیر تھا تم نے مجھے محترم بنا دیا۔اختیار‘ اقتدار اور طاقت ملنے پر لوگوں کے صرف چہرے ہی نہیں بدلتے بلکہ وہ بے نقاب بھی ہو جاتے ہیں‘جب آنکھیں نفس کی پسندیدہ چیزیں دیکھنا شروع ہو جائیں تو دل انجام سے اندھا ہو جاتا ہے۔لوگوں کی ضرورتوں کا تم سے وابستہ ہونا تم پر اﷲ کی رحمت ہے ‘اس رحمت کو اپنے اور دوسروں کے لیے زحمت نہ بننے دینا۔جب گناہوں کے با وجود تمہیں اﷲ کی نعمتیں مسلسل ملتی رہیں تو ہوشیار ہوجانا کہ تمہارا حساب قریب اور سخت ترین ہے۔ مومن وہ نہیں جس کی محفل پاک ہو‘مومن وہ ہے جس کی تنہائی پاک ہو۔ اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمیں صلہ رحمی اورنیکی کی توفیق عطافرمائے۔ جس طرح ہم پر گھر والوں کے حقوق ہیں اسی طرح ہمسایوں اور اہلِ وطن کے حقوق بھی ہیں۔ ہمیں خود غرضی کی بجائے دوسرے کے احساسات اور جذبات کا احترام سیکھنا چاہیے تا کہ ہمارا سماج پُرسکون رہے۔ اسی سے ہمیں دلی اور روحانی سکون بھی حاصل ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved