تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     21-03-2021

پگھلی ہوئی چاندی کا بڑھتاہوا بھائو

بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ میں ایک نئی Commodityکا اضافہ ہو چکا ہے ۔ یہ تیل کے بعد Liquidشکل میں پائی جانی والی دوسری چیزہے جس کی تجارت شروع ہوچکی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کی تجارت تیل کی تجارت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔یہ نئی برائے نیلام جنس پانی ہے ۔ 1993ء سے اس کا عالمی دن 22مارچ کو منایا جاتا ہے ۔دنیا بھر میں ملکوں کی دولت اور اہمیت میں بھی جس نئے Variable کا اضافہ ہو چکا ہے وہ پانی ہے‘ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کی مستقبل میں لوگ ہجرت سے پہلے ممکنہ منزل میں جس چیز کو مد نظر رکھاکریں گے وہ پانی کی دستیابی اور اس پانی کا معیار ہوگا‘بلکہ کئی علاقوں کے حوالے سے یہ وقت آ بھی چکا ہے۔جیسا کہ جنوبی ایشیا کے دورے پر آنے والے شہریوں کو جو تجاویز دی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی وارننگ نما تجویز یہ ہوتی ہے کہ کھلے نل سے پانی مت پینا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ پانی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہے اور جلد بین الاقوامی تجارت میں چاندی کو مات دے دے گا ۔
انگریزی کے حرفِ تہجی Wسے ڈکشنری میں تو بہت کم الفاظ شروع ہوتے ہیں مگر جو شروع ہوتے ہیں وہ دنیا میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو وار یعنی جنگ ہے ۔ جتنی پرانی انسانی تاریخ ہے اتنی ہی پرانی جنگ کی تاریخ ہے۔ دوسرا لفظ Women ہے۔ اسی طرح Worshipیعنی عبادت ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں سے ایک حرف سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے وہ ہے Water۔بلا شبہ یہ لفظ اس فہرست کے دیگر الفاظ پر برتری حاصل کر گیا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے علاوہ ترقی پذیر ممالک میں صاف پانی کا حصول بھی ایک المیہ بن چکا ہے۔ اسی طرح دنیا میں پانی پر جنگوں (Water Wars)کے خدشات بالخصوص بر اعظم ایشیا پر منڈلا رہے ہیں ۔
ایک وقت تھا جب پانی کا لفظ ایک با آسانی ‘مفت ‘اور کثرت سے میسر چیز کے استعارہ اور تشبیہ کے طور استعمال ہوا کرتا تھا مگر اس وقت سوا دو ارب لوگوں کو پانی تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہے ۔ اسی طرح محفوظ پانی کا تصور بھیانک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔Safe Waterیا صحت بخش پانی کا معیار دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی کی کثرت اس سے محروم ہے ۔اپنے ملک ہی کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 75فیصد سے زائد علاقوں کا پانی صحت بخش نہیں ہے اور ماضی میں محفوظ پانی والے علاقوں کا پانی بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں لاہور شہر سر فہرست ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔شہر کے اندر رہائشی کالونیاں انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ جب زیر کاشت علاقے کی جگہ کنکریٹ کی عمارتیں تعمیر ہوں تو بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتاجس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح نہ صرف نیچے گر تی ہے بلکہ پانی ناپید ہوجاتا ہے۔ اس طرح صنعتی آلودگی سے پانی میں آرسینک اور دوسرے خطرناک اجزا شامل ہو کر اس کو آلودہ کر رہے ہیں ۔ لاہور شہر ‘جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا‘آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں کئی بار سر فہرست آچکا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے متعدد بڑے شہر پانی کی آلودگی اور عدم دستیابی کے حوالے سے سب سے زیادہ خدشات کا شکارہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق آزادی کے وقت پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار5300کیوبک میٹرز تھی جبکہ اب کم ہو کر فی کس ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم رہ گئی ہے جو پریشان کن حد تک کم سطح ہے۔ زیر کاشت علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کسان برساتی نالوں کا گندا پانی بھی فصلوں اور سبزیوں کے کھیتوں کو لگادیتے ہیں جس سے اُگنے والی فصل یقیناغیر محفوظ ہوتی ہے ۔ اسی طرح سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن میں اُگنے والا چاول ہر گز لذت اور Stuffکے اعتبار سے کھانے کے قابل نہیں ہوتا ‘یہی صورتحال گندم اور سبزیوں کی ہوتی ہے۔اس طرح کے تمام علاقوں کے لوگ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اسی لئے ان علاقوں کے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اب روٹی‘ کپڑاور مکان کی بنیادی ضرورتوں کی بجائے صاف پانی ‘ہوا اور دھوپ کی بنیادی ضرورت کیلئے ترس رہے ہیں ۔یہی المیہ بتدریج پوری دنیا کا ہوتا جا رہا ہے ۔اور اگر پوری دنیا کا ذکر کریں تو جنوبی ایشیا ان مسائل میں سرفہرست ہے۔واضح رہے اس خطے کی آبادی میں سالانہ اڑھائی کروڑ سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے جو پوری دنیا کا 33 فیصد ہے ۔
کسی بھی انسان کے معیار اور حوالے سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کیلئے پانی وہی حیثیت رکھتا ہے جو ایک گاڑی کیلئے تیل رکھتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے جسم کی حرکت برقرار رکھنے اور زندہ رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔پانی اس خوراک کو ہضم کرنے کیلئے اہم ترین جزو ہے ۔ اس کے ساتھ وہ خوراک میں جو بھی دال ‘سبزی‘اور دوسری خوراک کھاتاہے اس کو اُگانے کیلئے دھوپ‘مٹی کے بعد پانی تیسرا لازمی جزو ہے۔جیسا پہلے ذکر ہوا کہ زمیں میں اُگنے والی ہر چیز کے معیار کو طے کرنے والا اہم ترین عنصر پانی ہے ۔اسی طرح گوشت یا دودھ کے معیار کا تعین بھی پانی کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی جسم کا 70 فیصد پانی سے بنا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ آپ کی صحت کیسی ہے اس کا تعین پانی کرتا ہے ۔ ہم تشبیہ اور موازنہ کر رہے ہیں پانی اور تیل کا تو اس ضمن میں تذکرہ کرتے ہیں تیل کی اقسام کا تو مٹی کا تیل ‘ ڈیزل ‘پٹرول اور ہائی اوکٹین اس کی اہم اقسام ہیں ‘بالکل اسی طرح اب پانی کی اقسام مارکیٹ میں موجود ہیں ‘ تالابوںسے حاصل کردہ پانی خام یعنی غیر محفوظ پانی‘ سادہ پانی ‘فلٹر شدہ پانی‘ پہاڑی چشموں سے حاصل کردہ پانی‘منرل پانی اس کی بڑی اقسام ہیں ۔واضح رہے کی پانی کی ان اقسام کی قیمت بھی تیل کی طرح ہی نہیں بلکہ تیل سے زیادہ مختلف ہیں ۔
پاکستان جیسے ملکوں کی اہم ترین بالخصوص سیاسی شخصیات کی بڑی تعدا د درآمد کردہ اعلیٰ قسم کا پانی نوش فرماتی ہے ۔پانی کی اعلیٰ ترین قسموں میں سے اوسط درجے کی ایک بوتل کی قیمت کئی سو روپے تک ہوتی ہے مگر آپ پنجاب یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے صرف پانی کیلئے مٹی کاگھڑا یا کولر استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ پانی کو محفوظ رکھتا ہے اور اس میں بیکٹیریا پیدا ہونے سے بچاتا ہے ۔واضح رہے کہ گھر پرپانی کی بڑی بوتل میں پڑا پانی ایک دفعہ بوتل کھلنے کے بعد باسی ہوجاتا ہے اور اس میں بیکٹیریا پیدا ہو جاتا ہے اس لئے محفوظ نہیں رہتا ۔اس لئے پلاسٹک کی بوتل میں پانی کو مت رکھیں۔ گھر پر فلٹر لگانے کے علاوہ آپ پانی کو ابال کر مٹی کے گھڑے یا کولر میں رکھنے سے پانی محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ذہن نشین کر لیں کہ پانی پیتے ہوئے آپ کو اندازہ ہونا چاہئے کہ آپ کیا پی رہے ہیں‘ جیسے آپ یہ دیکھتے ہیں کہ گاڑی میں آپ نے کیا ڈلوایا ہے ۔ ڈیزل‘ پٹرول‘یا ہائی اوکٹین ۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں پانی کا مقام کھانے کے اشیا پر لگنے والے چاندی کے ورق سے بھی زیادہ ہوگا ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved